نعت خوانی کا فن کسی کسی کا نصیب بنتا ہے زکریا اشرفی

محفلوں میں تو اضافہ ہوا، لیکن اخلاص کچھ کم ہوگیا ہے، نعت خوانی کا نصاب مرتب ہونا چاہیے


Alif Khay July 17, 2013
نعت خواں اور ’’نعت نیوز‘‘ کے مدیر، زکریا اشرفی سے ایک مکالمہ۔ فوٹو: فائل

اظہارِ عقیدت کی خواہش، جس نے انھیں نعت خوانی کی جانب متوجہ کیا۔

کل کی طرح آج بھی تازہ اور توانا ہے، مگر یہ اُن کی شناخت کا اکلوتا حوالہ نہیں کہ زکریا اشرفی نے نعت خوانی کے ساتھ فروغ نعت کے لیے بھی جم کر کام کیا۔ سہ ماہی ''نعت نیوز'' اِس کی کلیدی مثال ہے، جس کے وہ مدیر اور ناشر ہیں۔ اِس پرچے نے نعت خواں حضرات کو ایک پلیٹ فورم مہیا کیا۔ ''مدحت شاہ دو عالم'' کے زیر عنوان ایک کتاب بھی مرتب کر چکے ہیں۔ نعتوں کے اِس انتخاب کو قارئین کی جانب سے پزیرائی ملی۔ دو برس انھوں نے ایک نعت اکیڈمی بھی کام یابی سے چلائی۔

''نبی کا آستانہ مل گیا ہے''، ''رابطہ توڑ دے زمانے سے'' اور ''یا محمدﷺ نور مجسم'' اُن کی مقبول نعتیں ہیں۔ ان کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی ایک حمد ''تیرا جمال دل نشیں'' کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ گو شناخت بنا چکے ہیں، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے ''اے کیٹیگری'' کے آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں، مگر تاحال البم تیار نہیں کیا۔ بہ قول ان کے،''اِس کی ایک وجہ ہے۔ میرے نزدیک نعت خوانی عقیدت کے اظہار کا ذریعہ ہے، اور آج کل بیش تر افراد نعتیہ البم کاروباری نقطۂ نگاہ سے تیار کر رہے ہیں۔ دوست اصرار کرتے ہیں، اور میرا ارادہ بھی ہے، مگر میں اس عمل کے دوران تمام تقاضوں اور آداب کو مدنظر رکھوں گا۔ دیکھیں، نعت خوانی کا فن عطیۂ خداوندی ہے۔ یہ کسی کسی کا نصیب بنتا ہے۔'' زکریا اشرفی اپنے محسنوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔ جن افراد نے اُن کی تربیت میں کردار ادا کیا، اُن میں اسکالر اور نعت گو شاعر، رشید وارثی سرفہرست ہیں۔ ساتھ ہی صبیح رحمانی، مسرور کیفی اور ابرار حسین سے بھی اکتساب فیض کیا۔

اُن کا پورا نام محمد زکریا شیخ ہے۔ وہ 14 اگست 1983 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ والد، محمد طیب بینکار ہیں۔ ساتھ ہی وہ تدریس سے بھی منسلک رہے۔ ''فاطمہ ایجوکیشنل سوسائٹی'' کے نام سے ایک فلاحی تنظیم قائم کی، جس کے تحت شاہ فیصل میں حمزہ اکیڈمی نامی اسکول کی بنیادی رکھی گئی۔ اسی درس گاہ سے زکریا نے میٹرک کیا۔ ماضی کھوجتے ہوئے کہتے ہیں، گھر کا ماحول بہت دوستانہ تھا۔ شعوری تربیت کی ذمے داری والدہ نے، لاشعوری تربیت کا ذمہ والد نے نبھایا۔ اُن کی سنائی ہوئی حکایات، کہانیاں اور اشعار ذہن پر نقش ہوگئے۔

دو بھائی، دو بہنوں میں وہ بڑے ہیں۔ خاصے شرارتی ہوا کرتے تھے بچپن میں۔ شرارتوں پر سزا بھی ملا کرتی۔ شمار اچھے طلبا میں ہوا کرتا تھا۔ کالج آف ڈیجیٹل سائنسز سے انٹر کرنے کے بعد اُنھوں نے بی ایس کا ارادہ باندھا۔ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی، تو بی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر والدہ کے مشورے پر بینکاری کے میدان میں آگئے۔ اُسی زمانے میں پرچہ شروع کیا۔ چار برس بعد بینکاری کے شعبے سے اوب گئے، تو ٹریول ایجینسی شروع کی، جسے دو برس کامیابی سے چلایا۔ پھر پبلشنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔ ''اشرفی انٹرپرائز'' کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ اِس وقت اسکرپٹ رائٹر اور ریسرچر کی حیثیت سے مختلف میڈیا آرگنائزیشنز کے لیے کام کررہے ہیں۔ ماسٹرز کا مرحلہ بھی طے کرچکے ہیں۔

نعت خوانی نے اوائل عمری ہی میں گرویدہ بنا لیا تھا۔ اِس ضمن میں والدہ کے ذوق نے کلیدی کردار ادا کیا۔ والد کا خانقاہی نظام سے تعلق تھا، جن کے ساتھ محافل میں جانا رہتا۔ یوں دھیرے دھیرے ایک سانچے میں ڈھلتے گئے۔ شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد عقیدت اظہار کے عمل میں باقاعدگی آنے لگی۔ محفلوں میں پرفارم کرنے لگے۔ اپنے ایک دوست، شیخ وقار قادری (مرحوم) کے توسط ریڈیو پاکستان تک رسائی حاصل کی، جہاں نعت خوانی کے ایک مقابلے میں شرکت کی۔ 99ء میں باقاعدہ آڈیشن دیا۔ اب تواتر سے اُن کی نعتیں ریڈیو سے نشر ہونے لگیں۔ ''روضۂ شاہ پر سوغات کے قابل کیا ہے'' ریڈیو سے نشر ہونے والی پہلی کاوش تھی۔ ردعمل مثبت رہا۔ پھر احمد رضا خان بریلوی کی ایک نعت ریکارڈ کروائی، جس کے بعد تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ نجی محفلوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ پھر ٹی وی کا رخ کیا۔ ایک پرائیویٹ چینل کے لیے خان آصف نے اُن کا آڈیشن لیا۔ ٹی وی کیریر کا آغاز ایک حمد ''ہم حاضر ہیں'' سے کیا۔ پھر پی ٹی وی سے رشتہ استوار ہوا، جو تاحال برقرار ہے۔

فن نعت خوانی میں آنے والی جدت کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے،''عرب ممالک میں دف اور ذکر پر نعتیں پیش کی جاتی ہیں۔ دف ایک آلۂ موسیقی ہے، اِس کی نعت خوانی میں ہمیں روایت ملتی ہے، اِس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، مگر ذکر کو، اسم اﷲ کو ایک خاص 'ردھم' میں جس طرح آج کل استعمال کیا جارہا ہے، اُسے میں دُرست نہیں سمجھتا۔ علما کی اکثریت اِسے پسند نہیں کرتی۔ اِس موضوع پر ہم نے اپنے جریدے میں کئی تحقیقی مضامین بھی شایع کیے۔'' اِس موڑ پر دیگر آلات موسیقی کے استعمال اور محفل سماع پر بات ہوئی۔ کہنا ہے،''محفل سماع میں بزرگان دین کا کلام پیش ہوتا ہے، اﷲ اور اس کے رسول سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس سے سامعین روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ تو محفل سماع کے دوران آلات موسیقی کے استعمال میں کوئی مضایقہ نہیں، شرط یہ ہے کہ معاملہ لحن تک محدود رہے۔ اگر موسیقی غنائیت کی طرف لے جائے، تو یہ دُرست نہیں۔ محفل سماع ہو، یا محفل نعت، اس کے آداب مقرر ہیں، جن کی پاس داری ضروری ہے۔''

ماضی کے برعکس، زکریا اشرفی کے بہ قول، اب صورت حال بدل رہی ہے۔ ''جب میں اِس شعبے کی جانب آیا تھا، حالات بہت اچھے تھے۔ لوگوں میں خلوص تھا۔ حالیہ برسوں میں نعت خوانی کی محفلوں میں تو اضافہ ہوا ہے، لیکن اخلاص کچھ کم ہوگیا ہے۔ کمرشیل عنصر بڑھ رہا ہے۔ دکھاوا ہونے لگا ہے۔'' پاکستان میں نعت خوانی کا مستقبل، اُن کے نزدیک روشن ہے کہ یہاں بہت صلاحیت ہے، ضرورت فقط راہ نمائی کی ہے۔ اس ضمن میں چند تجاویز بھی پیش کرتے ہیں،''میرے نزدیک دیگر مضامین کے مانند نعت خوانی کا باقاعدہ نصاب مرتب ہونا چاہیے، ڈگری یا ڈپلوما ہونا چاہیے، تاکہ نعت خواں کو تقاضوں، آداب اور اپنی ذمے داریوں کا علم ہو۔ مستقبل میں میرا اس ضمن میں کام کرنے کا ارادہ ہے۔''

وہ نعت خوانی کا معاوضہ لینے کو تو جائزہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے بہ قول نعت خواں اپنا وقت دیتا ہے، اپنے فن میں بہتری کے لیے جدوجہد کرتا ہے، البتہ نعت خواں کی جانب سے تقاضا کرنا اُن کے نزدیک دُرست نہیں۔ ''جب کبھی مجھے مدعو کیا جاتا ہے، تو میں یہی کہتا ہوں کہ دینے والا میری اور اپنی حیثیت کا خود ہی تعین کر لے۔ میں ساتھی نعت خواں حضرات سے بھی یہی کہتا ہوں کہ معاوضہ طے کرتے ہوئے سامنے والے کی مالی حیثیت ضرور کو مدنظر رکھیں۔''

روضۂ رسولﷺ پر حاضری زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ مسجد نبوی میں نعت بھی پیش کی۔ دُکھ ان کے بہ قول، زندگی کا حصہ ہے۔ رشید وارثی کے انتقال کے روز شدید کرب سے گزرے۔ اپنے مرشد، سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی کے سائے سے محرومی بھی ایک غم آگیں دن تھا۔

زکریا کرتا شلوار میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ دیسی کھانے پسند ہیں۔ کھٹی اور ٹھنڈی چیزوں سے اجتناب برتتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ سیرت نبویﷺ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابیں مطالعے میں رہتی ہیں۔ نعت گو شعرا میں وہ رشید وارثی، صبیح رحمانی اور مسرور کیفی کو سراہتے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کے مداح ہیں۔ فکشن نگاروں میں منٹو پسند ہیں۔ آج کے لکھاریوں میں عمیرہ احمد اور علیم الحق حقی کا نام لیتے ہیں۔ گائیکی میں عابدہ پروین اور غلام علی کی آواز اچھی لگی۔

تذکرہ ''نعت نیوز'' کا۔۔۔

پرچے کا آغاز اپریل2006 میں ہوا، جس کی خاصی پزیرائی ہوئی۔ اب تک سات شمارے آچکے ہیں۔ وہ ''نعت نیوز'' کو اِس فن سے جڑے افراد کی نمایندگی کرنے والا پہلا جراید قرار دیتے ہیں۔ پرچہ نکالنے کے اسباب اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''اپنے عزیز دوست، شیخ وقار قادری کی ناگہانی موت کے بعد میں نے ایک مجلہ نکالا تھا۔ اُس موقعے پر سینئرز نے مشورہ دیا کہ مجھے نعت خوانی سے متعلق ایک پرچہ شروع کرنا چاہیے۔ دھیرے دھیرے یہ خیال پختہ ہوتا گیا۔ 2005-6 میں نعت خوانی اپنے عروج پر تھی، مگر نعتیہ پرچوں پر ادبی رنگ غالب تھا، معلومات کا فقدان تھا۔ بڑی بڑی محافل ہوتیں، مگر ان کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ تو اُس ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے ہم نے یہ پرچہ شروع کیا۔ اور اِسے پاکستان تک محدود نہیں رکھا۔ دیگر ممالک میں ہونے والی محفلوں اور نعت خواں حضرات کا بھی احاطہ کیا۔ رپورٹس کے علاوہ اِس میں انٹرویوز ہوتے ہیں، تنقیدی مضامین ہوتے ہیں۔ ہم نے نعت خواں حضرات کی ڈائریکٹری بھی شایع کی۔''

اِس پرچے نے اُنھیں ایک منفرد اعزاز بھی عطا کیا۔ بتاتے ہیں،''ایک ریسرچ اسکالر ہیں، شہزاد احمد صاحب۔ اُنھوں نے نعت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اپنے مقالے میں انھوں نے مجھے نعتیہ صحافت کا سب سے کم عمر مدیر قرار دیا۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں