حیدرآباد صدیوں پرانا شہر ہے۔ اس کی ہوائیں، اس کے ہوادان اور اس کی شامیں آج بھی دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ہم حیدرآباد کے مقامی دوستوں کے گھر پہنچ گئے۔ ان لوگوں کے بقول، تقسیمِ ہند سے قبل حیدرآباد ایک نہایت خوبصورت شہر تھا اور اِس کی سڑکیں روز گلاب کے عرق سے نہلائی جاتی تھیں جو ہمیں ایک مذاق لگ رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ہم نے سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی تو ہمیں یہ روڈ نہیں بلکہ کسی پارکنگ ایریا کا منظر پیش کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ میرے خیال سے یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کےلیے ناکافی ہیں۔ حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی ہیں۔ حیدرآباد میں اس کے علاوہ بلوچی، اردو، پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں کیونکہ اکثر اشخاص جو اس شہر میں آتے ہیں وہ اندرون سندھ اور بیرون صوبے سے آتے ہیں۔ ہزاروں لوگ یہاں پاکستان کے نامور ادارے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے کےلیے بھی آتے ہیں جو حیدرآباد سے 33 کلومیٹر کی دوری پر جامشورو میں وقوع ہے۔
جامشورو اس لحاظ سے بھی بڑی منفرد اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں 3 بڑی تعلیمی درسگاہیں ایک دوجے سے متصل، موٹروے این 55 کے بائیں جانب موجود ہیں۔ ہم پہلے مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کے پاس سے گزرے، پھر سندھ یونیورسٹی کے سامنے پہنچے اور اندر داخل ہوئے۔ کچھ فاصلے پر ہمیں ایک خوبصورت مجسمہ نظر آیا۔ جامشورو میں طلبہ کی پڑھائی کو مدنظر رکھتے ہوئے نادر علی جمالی نے ایک مجسمہ بنایا تھا جو آج بھی یونیورسٹی کی زینت بنا ہوا ہے۔ مجسمے کو سابق وائس چانسلر مرحومہ عابدہ طاہرانی کی فرمائش پر نادر جمالی نے تیار کیا تھا اور اس مجسمے کو درختوں کا بڑا حصہ کاٹ کر سینٹرل لائبریری کے سامنے رکھا گیا۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (تیسرا حصہ)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (چوتھی قسط)
اس روز میں نے ایم فل کے پیپر دینے کےلیے سندھ یونیورسٹی کا رخ کیا اور نگاہ اس مجسمے پر پڑی تو دل خوش ہوگیا کہ کتنا پُرمعنی مجسمہ بنایا گیا۔ مجسمہ ساز نے اس میں پڑھائی کا انہماک دکھا کر پیغام دیا ہے کہ مادر علمی میں آنا ہے تو پڑھائی پر توجہ دو۔ میں قریب گیا۔ دیکھا کہ مجسمہ دھول مٹی سے اٹا ہوا ہے۔ میں نے رومال لے کر اسے صاف کیا اور پھر اس مجسمے کو پیٹھ دینا بھی گوارا نہ کیا۔ یہ فن کا لاجواب شاہکار ہے۔ اگلے روز میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سندھ یونیورسٹی کے کچھ منچلوں نے اس مجسمے کو تفریح گاہ بنا رکھا ہے۔ ان کی نظر میں یہ کوئی جھولا تھا۔ ایک نوجوان طالب علم مجسمے کو سگریٹ کے کش لگوا رہا تھا جبکہ دوسرا طالب علم اس مجسمے پر گھوڑے کی طرح سوار تھا۔
شاید اس طالب علم کو گھوڑوں پر بیٹھنے کا بہت شوق تھا جبکہ دوسرا طالب علم اس کی ناک صاف کررہا تھا۔ شاید اسے اپنی گندی ناک نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک اور منچلا، مجسمے کے ہاتھوں میں رکھی کتاب میں استراحت فرما رہا تھا، شاید اسے ہاسٹل کے بجائے آرام کرنے کےلیے یہی جگہ ملی تھی۔ مجھے گمان ہے کہ سندھ یونیورسٹی کے طلبا روزانہ اس مجسمے کو کھیل کا ذریعہ بناتے ہیں اور انتظامیہ یہ دیکھ کر خاموش ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ اس شاہکار کو یونیورسٹی میں ایستادہ کرنے کےلیے جو تگ و دو کی گئی، اس کا کیا ہوا۔
اب حیدرآباد کے بارے میں کچھ مزید باتیں ہوجائیں: حیدرآباد دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ ہے۔ پاکستان میں مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ حیدرآباد میں پہلے جہاں ایک منزلہ مکان ہوا کرتے تھے، اُن میں ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپنگ مالز بنتے جارہے ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے حیدرآباد کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں جبکہ ایک خاصی تعداد میں سندھی ہندو بھی یہاں رہائش پذیر ہیں۔ تقریباً دو فیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی ہے۔ حیدرآباد میں ایک عدد کرکٹ اسٹیڈیم ہے جس کا نام نیاز اسٹیڈیم ہے۔ اس میں پچیس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور یہاں دنیا کی سب سے پہلی ہیٹ ٹرک سن 1982 میں بنائی گئی تھی۔ حیدرآباد میں ایک ہاکی اسٹیڈیم بھی ہے۔
حیدرآباد کی سب سے بڑی تفریح گاہ رانی باغ اور اس میں قائم چڑیا گھر ہے۔ یہ انتظامیہ کی غفلت کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ جھولے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو جانوروں کے بیشتر پنجرے خالی ہیں۔ رانی باغ میں حکومت نے 15 کروڑ روپے کی لاگت سے تزئین و آرائش کی اور اس میں قائم چڑیا گھر کےلیے بیرون ملک سے نایاب نسل کے قیمتی جانور منگوائے گئے تھے لیکن غیر معیاری غذا اور متعلقہ عملے کی لاپروائی کے سبب بیشتر جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔ رانی باغ میں صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے جابجا گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ رانی باغ اور چڑیا گھر کی حالت زار دیکھ کر ہماری حالت خراب ہوگئی تو ہم رانی باغ کو الوداع کہہ کر شہر کی جانب چل پڑے۔
حیدرآباد شہر کی کچھ فٹ پاتھوں پر ریڑھیوں کا اتنا قبضہ ہے کہ کسی کے گزرنے کی جگہ نہیں، حتی کہ چائے والوں نے حیدرآباد کو خوب لوٹا ہے، پانچ بائی پانچ کی ایک چھوٹی دکان کرائے پر لیتے ہیں، باقی پورا ہوٹل، کرسیاں، چائے پکانے کا انتظام فٹ پاتھ پر ہوتا ہے۔ اتنی لوٹ مار دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔
حیدرآباد اور سندھ کے دیگر کئی شہروں کے سٹی سینٹر کے نشان کے طور پر انگریزوں نے گھنٹہ گھر بنائے تھے۔ کاش ایمپریس مارکیٹ کی طرح حیدرآباد کے گھنٹہ گھر کے ارد گرد سے بھی غیر قانونی تجاوزات ختم کرا دی جائیں تو بہترین عمل ہوگا۔ یہ ٹاور گھنٹہ گھر اور مارکیٹ ٹاور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ برصغیر پر انگریز دور حکومت میں حیدرآباد میں تعمیر کیا گیا گھڑیال تو اب بھی ہے لیکن شہریوں کو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ قدیم گھنٹہ گھر زبوں حالی کاشکار ہے۔ اس قدیم ورثے کا تحفظ اور فوری بحالی سندھ کی قدیم اور تاریخی شناخت قائم رکھنے کےلیے انتہائی ضروری ہے۔
حیدرآباد کی ہر گلی برطانوی حکومت نے اتنی ہی خوبصورت بنائی تھی کہ آج بھی کسی عمارت کو دیکھ کر اس کے حسن کی داد دیئے بغیر گزر جانا گناہ لگتا ہے۔ میں تو بار بار کہتا ہوں، انگریزوں نے کیا کمال انصاف کیا ہے۔ حیدرآباد دکن اور حیدرآباد سندھ کو ایک ہی نقشے پر بنایا؛ مگر ہمارے بھائیوں نے کاروباری قبضہ گیری کرکے اس شہر کی عزت ہی لوٹ لی۔ اس شہر سے صرف کمایا ہے، اس شہر کا خون چوسا ہے، اس پر لگایا کچھ بھی نہیں اور اس شہرکی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
چھٹی کا دن ہو اور سردیوں کی خنک صبح، ایسے میں لوگ زیادہ سے زیادہ دیر تک گھر کے گرم بستروں میں دبکے رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ یقیناً اسی وجہ سے ٹریفک بھی برائے نام تھا۔ ہم تیزرفتاری سے فراٹے بھرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ حیدرآباد ٹول پلازہ سے گزر کر ہم چوک سے جامشورو شہر کو الوداع کرتے ہوئے این 55 پر رواں دواں تھے۔ آج کل این 55 کے بجائے سندھ کا پہلا موٹروے ہمارے سامنے تھا جو کراچی کی طرف جاتا ہے۔ ہمارا اگلا پڑاؤ روشنیوں کا شہر کراچی ہے جو صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔
سفر ابھی جاری ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔