کب سچ بولوگے
حسب روایت ایبٹ آباد رپورٹ بھی غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے ذریعہ پاکستانی عوام تک پہنچ گئی۔
حسب روایت ایبٹ آباد رپورٹ بھی غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے ذریعہ پاکستانی عوام تک پہنچ گئی۔ جس طرح حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھارتی میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچی تھی،یہ رپورٹ الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے توسط سے عام آدمی تک پہنچ سکی۔اب کہا جارہاہے کہ حتمی رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر میں محفوظ ہے،جسے قومی مفاد میں روکا گیا ہے اور مناسب وقت پر منظرعام پر لایا جائے گا۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ افشاء ہونے والامسودہ جسٹس جاوید اقبال کے بجائے اشرف جہانگیرکاہے۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ کس کا مسودہ ہے،یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا قومی مفاد ہے، جو اس کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں مانع ہے؟
اس رپورٹ میںگوکہ نہ کوئی نیا انکشاف ہے اور نہ ہی ذمے داروںکا تعین کیا گیا ہے،مگر اس کے باوجود ادارہ جاتی کمزوریوں اور خامیوں کی کھل کر نشاندہی کی گئی ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ریاستی اداروں کے درمیان عدم تعاون تو عام سی بات ہے، خفیہ ایجنسیوں کے درمیان بھی روابط کا فقدان پایا جاتا ہے۔ البتہ عوام جن حقائق کو جاننے کے خواہشمند تھے، ان کا اس رپورٹ میں کہیں تذکرہ نہیں ہے،یعنی اسامہ بن لادن کیسے اور کیونکر پاکستان میں داخل ہوا اور اتنے برس تک کس طرح رہائش پذیر رہا؟ پھر بھی نہ جانے کون سی مصلحت ہے، جو اس کے منظر عام پر لانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کی 66برس کی تاریخ میں ہرواقعہ،ہر سانحہ اورہرمعاملہ پر کمیشن تشکیل دیے جاناایک معمول کی بات بن چکی ہے۔مگر حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان کمیشنوں کی رپورٹس اور ان میں پیش کردہ تجاویزکو منظر عام پر لائیں۔ دراصل ان رپورٹس کو سرد خانے میں ڈالنے کا مقصد تاریخی حقائق کو مسخ کرنا اور اپنی کمزوریوں، کوتاہیوںاور خامیوںپر پردہ ڈالنا ہے۔ اس رپورٹ میں ذمے داروں کی نشاندہی اور تعین نہ ہونے کے باوجود اسے چھپانا،حکمرانوں کے مخصوصMindset کو ظاہر کرتا ہے۔حالانکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میںکسی بات کو چھپانا ممکن نہیں رہاہے۔ویسے بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقائق نہیں چھپتے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ستر جھوٹ بولناپڑتے ہیں۔ مگرپاکستان کی حکمران اشرافیہ کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔اگر یہ باتیں سمجھ میں آرہی ہوتیں تو You tube پرلگی پابندی اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ بہرحال اس رپورٹ میں عوام کے لیے سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
پاکستان میںمعاملہ مختلف کمیشنوں کی رپورٹس کو چھپانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہرریاستی امور پر جھوٹ بولنا اور حقائق چھپانا ایک روایت بن چکی ہے۔ منافقتوں کا یہ کھیل صرف حکمران اور ریاستی ادارے ہی نہیں کھیلتے،بلکہ اکثر اس کھیل میں سیاسی جماعتیں اور بعض صحافی بھی اس میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔ جس کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔مثال کے طور پر آج ہر سیاسی رہنما اور ٹیلی ویژن اینکر امریکا پر تنقیدکے تیر برسا رہا ہوتا ہے۔کوئی امریکا کو سبق سکھانے کی بات کررہا ہوتا ہے، تو کوئی ڈرون طیاروں کو گرانے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے،جب کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں،جوامریکا سے تعلقات ختم کرنے کا مشورہ دے رہے ہوتے ہیں۔ مگرکسی قلمکار یاتجزیہ نگار کو یہ جرأت نہیںہے کہ عوام کے سامنے تاریخ کے تلخ حقائق رکھ سکے اور اپنے ہم وطنوں کو بتاسکے کہ ان 66 برسوں کے دوران امریکا نے پاکستان کے ساتھ معاہدوںکی اتنی خلاف ورزیاں نہیں کیں،جتنی پاکستانی حکمرانوں نے کی ہیں۔
اسی طرح افغانستان اور قبائلی علاقوں میں جاری شورشوں کے حوالے سے بھی منافقتوں کا بازار گرم ہے۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کی ایک نمایاں تعدادملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی تمام ترذمے داری جنرل(ر) پرویز مشرف پر عائد کرتی ہے اور جنرل ضیاء الحق ،جس نے اس عذاب کی بنیاد رکھی،اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہی کچھ لال مسجدکا معاملہ ہے۔کچھ لوگ لال مسجدمیں ہونے والے آپریشن کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف FIR کاٹنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔حالانکہ آپریشن سے قبل اس مسجد کے منتظمین اور طلبہ نے اسلام آباد میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے دو ماہ تک جو طوفان بدتمیزی مچا رکھا تھا، اسے محض پرویز مشرف دشمنی میںدانستہ بھلادیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ متوشش شہری یہ مطالبہ کرنے پر مجبورہیں کہ ذرایع ابلاغ اگر عوام کو صحیح اطلاعات اور معلومات فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم دانشورانہ آلودگی پھیلانے سے ہی گریز کریں۔
اب ایک بار پھر پاک امریکا تعلقات کی طرف آتے ہیں۔تاریخی دستاویزاس بات کی گواہ ہیںکہ1947 ء میںتقسیمِ ہند کے موقع پر امریکا کی کوشش تھی کہ وہ بھارت کواس خطے میں اپناحلیف بنائے۔مگر بھارت کے سرد رویے کے سبب امریکا پاکستان کی جانب متوجہ ہوا۔اس کے برعکس پاکستان کی پہلے ہی روز سے خواہش تھی کہ امریکا پاکستان کی سرپرستی کرے۔ بابائے قوم امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی تھے۔یہی وجہ تھی کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1950ء میں سوویت یونین سے آئی دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کے دورے پرجانے کو ترجیح دی۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ 1950ء میں جنرل گریسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد امریکاکی خواہش پر ایک جونیئر جنرل ایوب خان کو پانچ جرنیلوں پر سبقت دے کر بری فوج کا کمانڈر انچیف بنایاگیاتھا۔
1954ء میںبننے والیSEATOاور1955ء میں قائم ہونے والی CENTOمیں پاکستان اپنی مرضی سے شامل ہوا۔حالانکہ جغرافیائی طورپر دونوں اتحادوں میں پاکستان کی شمولیت بے معنی تھی۔ان اتحادوں کی بدولت پاکستان کو کمیونزم کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے امریکانے خطیر دفاعی امداد، جدید اسلحہ اور امریکا میں تربیت کا ایک مربوط پروگرام دیا مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد تھی کہ امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔مگر 1962ء میں چین بھارت جنگ کے موقع پر بھارت کو کمیونزم کے خلاف مشترکہ دفاع کی پیشکش کرنے والے ایوب خان نے 1965ء میں کشمیر آزادکرانے کافیصلہ کرکے سیٹواورسینٹو معاہدوںکی خلاف ورزی کی۔یہ امریکا کے ساتھ سرد مہری کے پہلے دور کا آغاز تھا۔
1970ء میں اسوقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجرکے بیجنگ کے خفیہ دورے کا بندوبست کرکے پاکستان نے سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ،مگر پے در پے واقعات کی وجہ سے تعلقات جوں کے توں رہے۔لیکن دسمبر1979ء میںجب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں،تو ملک کی تاریخ کے انتہائی غیر مقبول فوجی آمر جنرل ضیاء کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ جنرل ضیاء نے افغانستان میںامریکی امداد اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے نام نہاد جہاد کا آغازکیا تو پاک امریکا تعلقات میں ایک بار پھر گرم جوشی آگئی۔مگر جنیوا معاہدے کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور امریکا ایک بار پھر ناراض ہوا اور اس نے پریسلر ترمیم کے ذریعہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کوامریکی صدر کےNoCسے مشروط کردیا۔یوں پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری کا نیا دور شروع ہوا،جو9/11کے بعد ایک بار پھر گرمجوشی میں تبدیل تو ہوا، مگر شکوک وشبہات اپنی جگہ برقرار رہے۔اس مرتبہ شکوک وشبہات کادائرہ وسیع ہوچکا تھا۔افغانستان پر حملے کے بعد امریکا اس شک کا اظہارکر رہاتھاکہ اسامہ بن لادن پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میںموجود ہے ،جسے پاکستان نے پناہ دے رکھی ہے۔جب کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پرمسلسل یہ دعویٰ کیا جاتارہا کہ وہ یا تو مرچکے ہیں یا اس خطے کو چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پر جاچکے ہیں۔
ایبٹ آباد رپورٹ کے مندرجات سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، بیشتر امور میں ناکامی کا سبب ریاستی اداروں کی پیشہ ورانہ نااہلی سے زیادہ ان کے درمیان باہمی روابط(Coordination)کا فقدان ہے۔دوئم ،حکومت کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کھلے تضادات پائے جاتے ہیں، جنھیں دور کرنے کے بجائے ان کے تسلسل پر اصرار کیا جاتا ہے۔ سوئم،عوام تک سچ بات پہنچانے کے بجائے انھیں مسلسل دھوکے میں رکھا جاتا ہے، جس سے معاملات ومسائل میں پیچیدگیوںکے علاوہ عوام کے ریاستی اداروں پر عدم اعتماد میںبھی اضافہ ہوا جیسا کہ ڈرون کے معاملہ میں حکومت کی دہری پالیسی نے عوام اور حکومت کے درمیان بداعتمادی پیدا کی ہے۔چہارم، میڈیا کو یک طرفہ پروپیگنڈا کرنے کے بجائے عوام تک صحیح اطلاعات اور معلومات کی غیر جانبدارانہ انداز میں رسائی کو یقینی بناناچاہیے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہر تجزیہ نگار امریکا کے بارے میں منفی باتیں کرکے اپنی مقبولیت بڑھانے کی تو کوشش کررہاہے ، مگر یہ بتانے کی جرأت نہیں کرتاکہ اس دوران پاکستان سے کیا غلطیاںسرزدہوئیں۔ متوشش شہریوں کا کہنا ہے کہ حکمران اور منصوبہ سازبیشک جھوٹ بول کر عوام کو بیوقوف بناتے رہیں،لیکن ذرایع ابلاغ کوکم ازکم اس قسم کے رویے سے گریز کرتے ہوئے عوام کو صحیح معلومات مہیا کرنا چاہیے اور جھوٹ کی بیخ کنی کرتے رہنا چاہیے۔
اس رپورٹ میںگوکہ نہ کوئی نیا انکشاف ہے اور نہ ہی ذمے داروںکا تعین کیا گیا ہے،مگر اس کے باوجود ادارہ جاتی کمزوریوں اور خامیوں کی کھل کر نشاندہی کی گئی ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ریاستی اداروں کے درمیان عدم تعاون تو عام سی بات ہے، خفیہ ایجنسیوں کے درمیان بھی روابط کا فقدان پایا جاتا ہے۔ البتہ عوام جن حقائق کو جاننے کے خواہشمند تھے، ان کا اس رپورٹ میں کہیں تذکرہ نہیں ہے،یعنی اسامہ بن لادن کیسے اور کیونکر پاکستان میں داخل ہوا اور اتنے برس تک کس طرح رہائش پذیر رہا؟ پھر بھی نہ جانے کون سی مصلحت ہے، جو اس کے منظر عام پر لانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کی 66برس کی تاریخ میں ہرواقعہ،ہر سانحہ اورہرمعاملہ پر کمیشن تشکیل دیے جاناایک معمول کی بات بن چکی ہے۔مگر حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان کمیشنوں کی رپورٹس اور ان میں پیش کردہ تجاویزکو منظر عام پر لائیں۔ دراصل ان رپورٹس کو سرد خانے میں ڈالنے کا مقصد تاریخی حقائق کو مسخ کرنا اور اپنی کمزوریوں، کوتاہیوںاور خامیوںپر پردہ ڈالنا ہے۔ اس رپورٹ میں ذمے داروں کی نشاندہی اور تعین نہ ہونے کے باوجود اسے چھپانا،حکمرانوں کے مخصوصMindset کو ظاہر کرتا ہے۔حالانکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میںکسی بات کو چھپانا ممکن نہیں رہاہے۔ویسے بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقائق نہیں چھپتے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ستر جھوٹ بولناپڑتے ہیں۔ مگرپاکستان کی حکمران اشرافیہ کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔اگر یہ باتیں سمجھ میں آرہی ہوتیں تو You tube پرلگی پابندی اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ بہرحال اس رپورٹ میں عوام کے لیے سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
پاکستان میںمعاملہ مختلف کمیشنوں کی رپورٹس کو چھپانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہرریاستی امور پر جھوٹ بولنا اور حقائق چھپانا ایک روایت بن چکی ہے۔ منافقتوں کا یہ کھیل صرف حکمران اور ریاستی ادارے ہی نہیں کھیلتے،بلکہ اکثر اس کھیل میں سیاسی جماعتیں اور بعض صحافی بھی اس میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔ جس کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔مثال کے طور پر آج ہر سیاسی رہنما اور ٹیلی ویژن اینکر امریکا پر تنقیدکے تیر برسا رہا ہوتا ہے۔کوئی امریکا کو سبق سکھانے کی بات کررہا ہوتا ہے، تو کوئی ڈرون طیاروں کو گرانے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے،جب کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں،جوامریکا سے تعلقات ختم کرنے کا مشورہ دے رہے ہوتے ہیں۔ مگرکسی قلمکار یاتجزیہ نگار کو یہ جرأت نہیںہے کہ عوام کے سامنے تاریخ کے تلخ حقائق رکھ سکے اور اپنے ہم وطنوں کو بتاسکے کہ ان 66 برسوں کے دوران امریکا نے پاکستان کے ساتھ معاہدوںکی اتنی خلاف ورزیاں نہیں کیں،جتنی پاکستانی حکمرانوں نے کی ہیں۔
اسی طرح افغانستان اور قبائلی علاقوں میں جاری شورشوں کے حوالے سے بھی منافقتوں کا بازار گرم ہے۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کی ایک نمایاں تعدادملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی تمام ترذمے داری جنرل(ر) پرویز مشرف پر عائد کرتی ہے اور جنرل ضیاء الحق ،جس نے اس عذاب کی بنیاد رکھی،اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہی کچھ لال مسجدکا معاملہ ہے۔کچھ لوگ لال مسجدمیں ہونے والے آپریشن کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف FIR کاٹنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔حالانکہ آپریشن سے قبل اس مسجد کے منتظمین اور طلبہ نے اسلام آباد میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے دو ماہ تک جو طوفان بدتمیزی مچا رکھا تھا، اسے محض پرویز مشرف دشمنی میںدانستہ بھلادیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ متوشش شہری یہ مطالبہ کرنے پر مجبورہیں کہ ذرایع ابلاغ اگر عوام کو صحیح اطلاعات اور معلومات فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم دانشورانہ آلودگی پھیلانے سے ہی گریز کریں۔
اب ایک بار پھر پاک امریکا تعلقات کی طرف آتے ہیں۔تاریخی دستاویزاس بات کی گواہ ہیںکہ1947 ء میںتقسیمِ ہند کے موقع پر امریکا کی کوشش تھی کہ وہ بھارت کواس خطے میں اپناحلیف بنائے۔مگر بھارت کے سرد رویے کے سبب امریکا پاکستان کی جانب متوجہ ہوا۔اس کے برعکس پاکستان کی پہلے ہی روز سے خواہش تھی کہ امریکا پاکستان کی سرپرستی کرے۔ بابائے قوم امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی تھے۔یہی وجہ تھی کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1950ء میں سوویت یونین سے آئی دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کے دورے پرجانے کو ترجیح دی۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ 1950ء میں جنرل گریسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد امریکاکی خواہش پر ایک جونیئر جنرل ایوب خان کو پانچ جرنیلوں پر سبقت دے کر بری فوج کا کمانڈر انچیف بنایاگیاتھا۔
1954ء میںبننے والیSEATOاور1955ء میں قائم ہونے والی CENTOمیں پاکستان اپنی مرضی سے شامل ہوا۔حالانکہ جغرافیائی طورپر دونوں اتحادوں میں پاکستان کی شمولیت بے معنی تھی۔ان اتحادوں کی بدولت پاکستان کو کمیونزم کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے امریکانے خطیر دفاعی امداد، جدید اسلحہ اور امریکا میں تربیت کا ایک مربوط پروگرام دیا مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد تھی کہ امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔مگر 1962ء میں چین بھارت جنگ کے موقع پر بھارت کو کمیونزم کے خلاف مشترکہ دفاع کی پیشکش کرنے والے ایوب خان نے 1965ء میں کشمیر آزادکرانے کافیصلہ کرکے سیٹواورسینٹو معاہدوںکی خلاف ورزی کی۔یہ امریکا کے ساتھ سرد مہری کے پہلے دور کا آغاز تھا۔
1970ء میں اسوقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجرکے بیجنگ کے خفیہ دورے کا بندوبست کرکے پاکستان نے سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ،مگر پے در پے واقعات کی وجہ سے تعلقات جوں کے توں رہے۔لیکن دسمبر1979ء میںجب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں،تو ملک کی تاریخ کے انتہائی غیر مقبول فوجی آمر جنرل ضیاء کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ جنرل ضیاء نے افغانستان میںامریکی امداد اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے نام نہاد جہاد کا آغازکیا تو پاک امریکا تعلقات میں ایک بار پھر گرم جوشی آگئی۔مگر جنیوا معاہدے کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور امریکا ایک بار پھر ناراض ہوا اور اس نے پریسلر ترمیم کے ذریعہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کوامریکی صدر کےNoCسے مشروط کردیا۔یوں پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری کا نیا دور شروع ہوا،جو9/11کے بعد ایک بار پھر گرمجوشی میں تبدیل تو ہوا، مگر شکوک وشبہات اپنی جگہ برقرار رہے۔اس مرتبہ شکوک وشبہات کادائرہ وسیع ہوچکا تھا۔افغانستان پر حملے کے بعد امریکا اس شک کا اظہارکر رہاتھاکہ اسامہ بن لادن پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میںموجود ہے ،جسے پاکستان نے پناہ دے رکھی ہے۔جب کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پرمسلسل یہ دعویٰ کیا جاتارہا کہ وہ یا تو مرچکے ہیں یا اس خطے کو چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پر جاچکے ہیں۔
ایبٹ آباد رپورٹ کے مندرجات سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، بیشتر امور میں ناکامی کا سبب ریاستی اداروں کی پیشہ ورانہ نااہلی سے زیادہ ان کے درمیان باہمی روابط(Coordination)کا فقدان ہے۔دوئم ،حکومت کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کھلے تضادات پائے جاتے ہیں، جنھیں دور کرنے کے بجائے ان کے تسلسل پر اصرار کیا جاتا ہے۔ سوئم،عوام تک سچ بات پہنچانے کے بجائے انھیں مسلسل دھوکے میں رکھا جاتا ہے، جس سے معاملات ومسائل میں پیچیدگیوںکے علاوہ عوام کے ریاستی اداروں پر عدم اعتماد میںبھی اضافہ ہوا جیسا کہ ڈرون کے معاملہ میں حکومت کی دہری پالیسی نے عوام اور حکومت کے درمیان بداعتمادی پیدا کی ہے۔چہارم، میڈیا کو یک طرفہ پروپیگنڈا کرنے کے بجائے عوام تک صحیح اطلاعات اور معلومات کی غیر جانبدارانہ انداز میں رسائی کو یقینی بناناچاہیے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہر تجزیہ نگار امریکا کے بارے میں منفی باتیں کرکے اپنی مقبولیت بڑھانے کی تو کوشش کررہاہے ، مگر یہ بتانے کی جرأت نہیں کرتاکہ اس دوران پاکستان سے کیا غلطیاںسرزدہوئیں۔ متوشش شہریوں کا کہنا ہے کہ حکمران اور منصوبہ سازبیشک جھوٹ بول کر عوام کو بیوقوف بناتے رہیں،لیکن ذرایع ابلاغ کوکم ازکم اس قسم کے رویے سے گریز کرتے ہوئے عوام کو صحیح معلومات مہیا کرنا چاہیے اور جھوٹ کی بیخ کنی کرتے رہنا چاہیے۔