ایم کیوایم سے واسطہ
ایم کیو ایم اپنی 35 سالہ سیاسی جدوجہد کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہی ہے۔۔۔
ایم کیو ایم اپنی 35 سالہ سیاسی جدوجہد کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہی ہے۔ عمران فاروق کے قتل کے تیسرے برس میں برطانوی پولیس متحدہ کے دفاتر پر چھاپے مار رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے علاوہ بعض تقاریر کا دفاع بھی پارٹی کے سیاسی اور قانونی دماغوں کو کرنا ہے۔ انتخابات کے فوراً بعد ایم کیو ایم کے تین مسائل پر کالم لکھا تھا۔ مئی کے دوسرے اور جولائی کے دوسرے ہفتے کے مسائل بالکل مختلف ہیں۔ ابھی ایک دریا پار ہوا ہی تھا کہ ایم کیو ایم کو اب دوسرے دریا کا سامنا ہے۔
متحدہ کے حالیہ بحران کو سمجھنے کے لیے آئیے! ہم انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔ عمران فاروق کے ایم کیو ایم کے جنرل سیکریٹری سے ان کے قتل کی تفتیش کے درمیان تین عشروں کا فرق ہے۔ آج کی ایم کیو ایم کو سمجھنے کے لیے ایک نوجوان ڈاکٹر کے سیاسی پارٹی کے اہم عہدے سے لے کر ایک ادھیڑ عمر کے غریب الوطن سیاسی لیڈر کی موت کے درمیانی وقت کو سمجھنا لازم ہے۔ پچھلے تیرہ برسوں میں ایم کیو ایم پر ''عزم نو'' میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سناٹے میں شدید تنقید اور خوشامد سے ہٹ کر تحریریں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ خاموشی کے دور میں الفاظ کی نرمی، لہجے کی سختی اور شوگر کوٹیڈ کیپسول میں کڑوی دوائی کے گواہ اخبارات کے قاری ہیں۔ تنقید بغرض اصلاح کو ایم کیو ایم کا شعبہ نشر و اشاعت بخوبی جانتا ہے۔ حال پر تنقید کی جرأت نہ رکھنے والے ماضی پر تمسخر کا حق جتا رہے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی سے ابھرنے والی طلبہ تنظیم سے ایک (commentator) سیاسی پارٹی میں ڈھلنے والی قیادت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کمنٹیٹر کی طرح فاصلے اور قریب سے شاید ہی کسی کالم نگار کو دیکھنے کا موقع ملا ہو۔ اس لیے کالم کا عنوان متحدہ سے قربت نہیں بلکہ ''ایم کیو ایم سے واسطہ'' تجویز کیا گیا ہے۔ ہم ان گوشوں کو بے نقاب کریں گے جو بالکل عام سے ہیں۔ اسی طرح ہمیں ان چھوٹے چھوٹے واقعات سے متحدہ کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق کے سبب سے کراچی یونیورسٹی کے انتخابات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ''آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' نے پہلے سال سو اور دوسرے برس میں ہزار ووٹ لے کر چونکا دیا۔ ڈھائی ہزار ووٹ لے کر حسین حقانی کو طلبہ یونین کا صدر بنانیوالی جمعیت کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔ جامعہ کراچی میں پختون، پنجابی، بلوچ، سندھی، گلگت اور ہزارہ کے طلبہ کی تنظیمیں تھیں۔ 84ء میں طلبہ یونینز پر پابندی نے تعلیمی اداروں میں سیاست کو مشکل بنا دیا یوں طلبہ تنظیم ایک سیاسی پارٹی میں ڈھل گئی اور کراچی کی دیواروں پر ''الطاف حسین کو رہا کرو'' کے نعرے جابجا نظر آنے لگے۔
ضیاء دور میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد جلسوں کی اجازت ملی۔ اگست 86ء میں ایک نئی نویلی پارٹی نے نشتر پارک میں بھر پور جلسہ کر کے سیاسی پنڈتوں کو چونکا دیا۔ چند ماہ بعد ایم کیو ایم نے وکلاء کو اپنے قائد کا خطاب سننے کی دعوت دی۔ ڈنر کے دوران چیئرمین عظیم احمد طارق تن تنہا ملنے آئے۔ تھوڑی دیر بعد جب الطاف حسین ملنے آئے تو ان کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ تھے۔ تقریب کے خاتمے کے بعد باہر نکلے تو شامیانوں کے ساتھ کچھ فاصلے پر چوکس انداز میں کھڑے نوجوان نظر آئے۔ کراچی بار نے جب ایم کیو ایم کے قائد کو خطاب کی دعوت دی تب بھی نظم و ضبط اور حفاظتی انتظامات منفرد تھے۔ ایسا انوکھا انداز نہ ملکی سیاست نے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ بار ایسوسی ایشنز نے سیاسی خطابات کے دوران ایسا نظارہ کیا تھا۔
87ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے ''حق پرست'' کے نام سے حصہ لیا۔ کراچی کے دس وکلاء الطاف حسین کے نام پر بلدیاتی اداروں میں منتخب ہوئے۔ جب ایک وکیل کی انتخابی مہم دیکھنے پہنچے تو اسٹیج پر بلا لیا گیا اور تقریر کی دعوت دی گئی۔ جتنا کچھ امیدوار کے بارے میں جانتا تھا بیان کر دیا۔ کراچی جیسا بڑا شہر، بھر پور عوامی حمایت، شاندار نظم و ضبط اور الطاف حسین کی کرشماتی شخصیت بننے کی جانب ابتدا۔ ایم کیو ایم کے کراچی و حیدر آباد میں میئر و ڈپٹی میئر منتخب ہو گئے۔
پیر پگاڑا نے بوستان علی ہوتی کے لیے کوشش کی کہ شاید نئی تنظیم کے کونسلرز اس طرح آ جائیں۔ پارٹی کی Stick and Carrot والی پالیسی نے بتا دیا کہ ووٹ تنظیم کے نام کا ہے اور آسانی سے دوسرے کی جھولی میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کا ایک وکیل کونسلر کے ہمراہ تھا کہ بلدیہ سے ملی گاڑی کو کسی نے ٹکر مار دی۔ تنازعہ اعلیٰ قیادت کے علم میں لانے کے لیے کے ایم سی کے دفتر گئے تو سلیم شہزاد سے ملاقات ہوئی۔ معاملہ تو رفع دفع ہو گیا لیکن پتہ چلا کہ ایم کیو ایم میں کوئی مسئلہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہوتا کہ قائدین کے علم میں نہ لایا جائے۔
جن دنوں اور جن علاقوں میں ایم کیو ایم مقبول ہو رہی تھی اتفاق سے راقم کو ان ہی دنوں میں ان ہی علاقوں میں رہائش کا موقع ملا۔ ''نائن زیرو'' سے صرف نصف کلو میٹر کے فاصلے پر۔ متحدہ کے عروج کے پانچ ابتدائی قومی انتخابات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بالکل ابتدائی دور میں ایک عام سے کارکن کی زبانی سنا کہ ''میں ایم کیو ایم کا چیئرمین بھی بن سکتا ہوں لیکن قائد تحریک نہیں، وہ تو صرف الطاف بھائی ہیں۔'' شروع ہی سے تنظیم لیڈر کے گرد گھوم رہی تھی۔ ''ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے'' تو بہت بعد کی بات ہے۔ ممکن ہے دور اول کے کچھ ساتھیوں کو یہ پسند نہ ہو اور انھوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہو۔
الطاف حسین کے ایک بیان نے راقم کو کالم نگاری کی دنیا میں باقاعدگی سے دھکیل دیا۔ مئی2000ء میں دو قومی نظریے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ماہ بعد دوسرے بیان پر دوسرا کالم آیا۔ پانچ سال بعد جب علامہ اقبال کے ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' اور پاکستان کا خواب دیکھنے کے معاملے کو ایم کیو ایم کی جانب سے موضوع بحث بنایا گیا تو اس پر ''خواب اور ترانہ'' کے نام سے کالم ایکسپریس کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یوں درجنوں مرتبہ ایم کیو ایم پر محتاط الفاظ میں کالم لکھے۔ کراچی کا پریس ڈاکٹر فاروق ستار کی شادی کی مناسب کوریج نہ ہونے پر ناراض اور ایک اخبار کے بائیکاٹ پر محتاط ہو گیا تھا۔ یوں صورت حال ایسی بن گئی کہ کالم نگار چاہتے ہوئے بھی بعض معاملات پر ایم کیو ایم کی تعریف نہ کر سکتے۔ جب تنقید حذف ہو جائے اور صرف تعریف رہ جائے تو کالم نگار ہدف تنقید بن سکتے تھے۔ اب جب کہ ایم کیو ایم کو مخالف پارٹیوں اور میڈیا کی جارحانہ تنقید کا سامنا ہے تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس سے کیسے نمٹیں۔
عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ اور جارحانہ تقاریر کا الزام۔ ایم کیو ایم ضیاء دور کی پیپلز پارٹی اور مشرف دور کی لیگ سے سبق حاصل کر سکتی ہے، جب ان پارٹیوں پر برا وقت آیا تھا۔ اگر ایم کیو ایم اپنی جانب سے انجانے یا جان بوجھ کر ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں پر معذرت کرے تو ناراض میڈیا کا جارحانہ رویہ یک دم بدل سکتا ہے۔ معافی اور توبہ کا خواستگار ہر انسان کو رہنا چاہیے۔ پھر میڈیا بھی سوچے گا کہ برے وقت میں کسی کی برائی کرنا بری بات ہے۔ متحدہ کو پرسکون سیاست کرنے کی دعوت وہ دے رہے ہیں جن کا ان سے قربت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ صرف واسطہ رہنے کا دعویٰ ہے۔ کچھ واقعات، کچھ تاریخ، کچھ پسندیدگی، کچھ ناپسندیدگی، چند برائیاں، چند اچھائیاں دیکھنے کا دعویٰ۔ دعویٰ ایم کیو ایم سے واسطے کا۔