معاشرہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی

اگر ہم نے آنے والی دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمیں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنا ہوگی۔


سید ذیشان حیدر January 20, 2019
www.facebook.com/syedzishanhyder

ISLAMABAD: کئی ہزاروں سال پہلے انسان غاروں میں رہا کرتے تھے ۔اس وقت انسانوں کو جتھوں کی صورت میں رہنا لازم و ملزوم تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر انسان اکٹھے نہ رہتے تو انھیں جنگل کے جانور ایک ایک کرکے ختم کردیتے ۔یہی وجہ تھی کہ انسان جسمانی طورپر دیگر حیوانات سے کمزور تھا تو اس نے اکٹھے رہنے میںہی اپنی بقا سمجھی۔

وقت گزرتا گیا اور انسان نئے نئے آلات ایجادکرتاگیا اور ایسے ہتھیار اس کے پاس آگئے کہ انسان کم تعداد کے اندر رہ کر بھی اپنی حفاظت حیوانا ت سے کرنے کے قابل ہوگیا۔کچھ ایسی ایجادات بھی اس دوران ہوئی جس نے یکسر انسانی معاشرے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔اس میں سے ایک بہت بڑی ایجاد بجلی کی تھی۔ بجلی نے بلب کی ایجاد کی راہ ہموار کی ۔ایک زمانے میں انسان سورج کے طلوع کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتے تھے اور غروب پر اپنے گھروں میں قید ہوجایاکرتے تھے ۔

یہ تھامس ایڈیسن کے لائٹ بلب بنانے کے بعد یکسر تبدیل ہوگیا اور آج رات کو بھی انسان نے دیر تک جاگنا شروع کردیا ۔اس کے علاوہ اسٹریٹ لائٹس اور سڑکوں پر لائٹس کی وجہ سے آمدورفت اندھیرے میں ممکن ہوگئی ۔اسی طرح کار اورپھر جہاز کی ایجا د نے انسان کو دور دور کے علاقوں تک جوڑ دیا۔ انسان جب دیہی علاقوں میں رہا کرتے تھے اس کے بعد صنعتی انقلاب آیا اورپھر شہر وجود میں آناشروع ہوگئے۔

شہروں کی معاشرت دیہاتوں سے یکسر مختلف تھی۔ دیہاتوں میں کھلے میدان ہوا کرتے تھے اور بڑے بڑے خاندان اکٹھے رہا کرتے تھے لیکن شہروں کے اندر یہ تبدیل ہوگیا اورپھر چھوٹے گھر اور چھوٹے کنبے کا تصوروجود میں آیا۔وقت گزرتاگیا اورپھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور آیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسانی معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبلائزیشن کاتصور وجود میں آیا ۔ اگر اب آپ کسی بھی دوسرے ملک میں جائیں تو وہاں کے معاشرے اور اپنے معاشرے بالخصوص نوجوانوں کے خیالات اور گفتگو اورپہناوے میں کافی حد تک مماثلت دکھائی دے گی ۔یہ تمام چیزیں گلوبلائزیشن کے اثرات کا نتیجہ ہیں ۔ایسے ہی انسان کی معاشرتی ارتقاء کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیشہ ہر دور کے اندر کچھ لوگ اس تبدیلی کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔

کبھی مذہب کے نام پر کبھی معاشرتی اقتدار کے نام پر اور کبھی تو معاشرے میں اپنے مقام اور طاقت کو کھوجانے کے خوف میں مبتلا ہوکر۔ اگر آپ انسان کی کئی سو سالوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ایسے افراد کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وجود پذیر ہونے والے معاشرتی تبدیلی کے عمل کو کوئی بھی نہیں رو ک سکا ۔یہاں تک کہ روکنے والوں کاخود نام ونشان مٹ گیا ۔

اگر آج کی تیسری دنیا کے ممالک پر نظر ڈالیں تووہاں پر کچھ افراد آپ کو ٹیکنالوجی کی مخالفت کرتے اور اس کے خلاف بڑی بڑی تقریریں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن پھر وہی اشخاص ضرورت پڑنے پر اسی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرتے ۔مثال کے طور پر پاکستان کے اندر ایسے بہت سے مخصوص سوچ رکھنے والے افراد موجود ہیں جو ٹیکنالوجی کو مغر ب کی سازش گردانتے ہیں اور اس کو اپنے پر معاشرتی یلغار سے منسوب دیتے ہیں۔

لیکن جب انھی افراد کو کوئی صحت کا عارضہ لاحق ہوتاہے تو وہ انھی اسپتالوں میں جہاں پر مغربی طب کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی مغر بی ٹیکنالوجی سے وجود میں آنے والے میڈیکل آلات کا استعمال ہوتاہے بخوشی بھاری معاوضات بھر کر اس سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا اور ٹیکنالوجی کاکوئی مذہب ،ایمان یا سوچ نہیں ہوتی ۔ٹیکنالوجی کا اگر بغور مطالعہ کیجیے تو یہ انسانی اعضاء اور جذبات کی ہی ایکسٹنشن ہے ۔مثال کے طورپر اگر کیمرہ آنکھ ،گاڑی پیر وغیرہ اور کمپیوٹر جسے آرٹیفیشل انٹیلجنس کہتے ہیں وہ انسانی دماغ کے عکس پر وجود میں آئی ہے ۔ایک دلیل دی جاتی ہے کہ مغر ب نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اس لیے اتنی ریسرچ کی اور پوری دنیا میں پھیلا دیا تاکہ وہ اپنا غلبہ حاصل کرسکے ۔

یہ ایک طرح سے بات درست بھی ہے اور غلط بھی ہے۔ درست اس طر ح سے ہے کہ واقعی جس معاشرے کے اندر ٹیکنالوجی میں ترقی پائی جاتی ہے اس معاشرے کی اقتدار بھی ٹیکنالوجی کے ساتھ دیگر ممالک کے اندر منتقل ہوجاتی ہیں ۔لیکن اگر اس کو یوں کہاجائے کہ جان بوجھ کر کسی کے معاشرتی اقتدار پر یلغار کی نیت سے ٹیکنالوجی کو مرتب کیاجاتاہے تو یہ بات قطعی طورپر درست نہیں ہے۔

دراصل ٹیکنالوجی نے سرمایہ دارانہ نظام میں سے جنم لیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں ایک ہی سوچ ہوتی ہے پیسہ کمانا اور بہت پیسہ اکٹھا کرنا ۔تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کیونکہ ان ممالک میں موجود ہے جہاں پر ایک مخصوص معاشرتی اقتدار موجود ہیں تو وہاں پر جو چیزیں ٹیکنالوجی کی تخلیق کی جاتی ہیں وہی ترقی پذیر ممالک کے اندر ٹرانسفر ہوجاتی ہیں ۔

مثال کے طورپر اگر آپ ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھیں تو وہاں پر ٹٰیکنالوجی کا بھرپور استعمال نظر آتا ہے ۔لیکن اگر ہم ان سے ہالی ووڈ کی فلموں میں اس چیز کی امید لگائیں کہ وہ ہمارے ایشین یا سائو تھ ایشیا کے معاشرت کے مطابق اپنے کرداروں بارے فلم سازی کریں گے تو یہ انتہائی غیر منطقی بات ہوگی ۔یقیناََ ان معاشروں نے اپنی ہی معاشرت کے اوپر فلم سازی کرنی ہے ۔اور جب فلمیں ہم دیکھیں گے تو ان کرداروں کے ساتھ ملبوسات بھی ہمارے اندر عام ہونا شروع ہوجائیں گے ۔

ایک اور سوچ ضرور ہے کہ اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کو جان بوجھ کر تقویت دینے کے لیے دیگر ممالک کے اندر مغرب اپنے کلچر کو پرموٹ کرتا ہے ۔وہ کیا کچھ اس طرح سے جاتا ہے کہ جو قیمتی ماڈلز اور فلمی اداکار ہیںانھیں ملبوسات اور دیگر اشیاء پہنائی جاتی ہیں اور جب وہ ماڈلزبہت بڑی فلموں کے اندر مثلاََ گھڑی ،گاڑی ،کپڑے وغیرہ پہن کر دکھائی دیتے ہیں تو پھر دیگر ممالک کے لوگ جو انھیں دیکھتے ہیں تو انھیں وہی اشیاء خریدنے کی طلب ہوتی ہے ۔

اس طرح ترقی یافتہ ممالک کے ڈیزائنرز ایک سادہ سی ملبوسات کو منہ مانگے داموں تیسری دنیا میں فروخت کرتے ہیں ۔تو سمجھ لیں کہ یہ ضرورت ہے کہ اس کے پیچھے کسی کو معاشرتی انجنیرنگ مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف پیسہ کمانا مقصود ہوتاہے ۔اور آج کے جو تیسری دنیا کے ممالک ہیں جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے ۔

اگر ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرلیں اور ہماری فلم انڈسٹری میں انتہائی اعلیٰ معیار کی فلمیں بننی شروع ہوجائیں تو ہم اس انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فلم انڈسٹری کے امتزا ج سے اپنے ملبوسات اور ملک میں پیدا ہونے والی اشیاء کو کلچر کا رنگ دے کر دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کرسکتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم نے آنے والی دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمیں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنا ہوگی ورنہ ہم کبھی بھی ترقی کی دوڑ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں