بس بہت ہوگیا
یہ انتہائی معصوم اور سیدھے سادے واقع ہوئے ہیں ، اسی لیے تینوں گروپوں کو ان سے کوئی خطرہ یا فکر نہیں ہے۔
دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے جیسی ہمیں ۔ ایک طرف ہمیں مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور خود کش حملوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہم بے اختیاری ، غربت، مہنگائی، کرپشن، لوٹ مار، توانائی کے بحران کی آگ میں جھلس رہے ہیں، اس وقت ہماری حیثیت صرف تماشائی کی ہوکے رہ گئی ہے، ہم فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ ان مسائل سے کیسے نمٹیں ۔
ہم ان الجھے ہوئے مسائل پرگفتگو تو باربارکرتے ہیں لیکن بار بار غوروفکرکرنے کے باوجود کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے جب آپ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے تو مسائل اور زیادہ الجھتے جاتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا غوروفکرکرنے کے بعد ہم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ۔
موجودہ مسائل کے صرف دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ اسی طرح جس طرح ہم چپ چاپ خاموشی کے ساتھ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، اسی خاموشی اور بے حسی کو برقرار رکھا جائے اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوتے دیکھا جاتا رہے اور اپنی باری کا انتظار کیا جاتا رہے اور دوسرا یہ کہ اپنی خاموشی کو توڑ کر ہمت وجرأت و مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہا پسندوں، دہشت گردوں، لٹیروں، قاتلوں، بدعنوانوں کو للکارا جائے کہ بس بہت ہوگیا اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوکہ انھیں مار بھگایا جائے شاید ہم اپنی کم ہمتی وبزدلی کی وجہ سے پہلے نتیجے میں اپنی بقاء سمجھے بیٹھے ہیں ۔ اسی لیے سارے ظلم وستم وعذاب کے خلاف چپ سادھے ہوئے ہیں۔
ہماری اسی چپ کی وجہ سے انتہا پسندوں ، دہشت گردوں ، لٹیروں کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ہمیں آج 3 قسم کے گروپوں کے عذاب کا سامنا ہے جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے ہیں پہلا گروہ مذہبی جماعتوں کا ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنے نظریات کی جاگیر سمجھ رکھا ہے وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ملک میں سب کچھ ان کے خیالات ، تصورات ، احساسات ، جذبات اور سوچوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔
ان کے نزدیک ان سے اختلاف کرنے کا حق کسی کوحاصل نہیں ہے۔ ان کی زبان سے نکلاہوا ہر لفظ قانون ہے، اسلام کے تمام جملہ حقوق اسی گروہ نے اپنے نام کر رکھے ہیں اور وہ بضد ہیں کہ پاکستان کے لوگ ان ہی کے تصورات، خیالات کے مطابق اپنی طرز زندگی کو ڈھال لیں ۔ وہ اس سلسلے میں تشدد کو بھی جائز سمجھتے ہیں 1947سے 1977 تک ان کی حیثیت سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے تماشائیوں کی تھی البتہ وہ ان 30 برسوں میں پاکستان کی سیاسی قیادت کی بد عنوانیوں اور بد انتظامیوں اور جمہوری نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دستوری، سیاسی اور معاشرتی نظام میں متعدد بارودی سرنگیں نصب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
1977 میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء مذہبی سیاست کے لیے جنت ثابت ہوا۔ مذہبی سیاست دانوں نے اس آمر کی موجودگی سے بھر پور فائدہ اٹھایا جو جھوٹ جبر اور ڈھٹائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا وہ ضمیر کی معمولی سی کسک محسو س کیے بغیر مذہب کانام اس لیے استعمال کرتاتھا کیونکہ مسلم اکثریتی معاشرے میں مذہب کا نام لیتے ہی کھلے اجتماعی مکالمے کادروازہ بند ہوجاتا ہے ۔1977میں جنر ل ضیاء الحق کے اقتدار کے قبضے کے بعد مذہبی عناصر نے تعلیم اور ذرائع ابلاغ پر قبضہ کر لیا۔
آج پاکستان کی 15 کروڑ آبادی وہ ہے جو 1977 میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی یہ وہ نسل ہے جسے مسنح شدہ اور تعصب سے بھری تاریخ پڑھائی گئی اور اسے جغرافیہ سر ے سے ہی نہیں پڑھایاگیا کیونکہ جغرافیہ مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ جنرل ضیاء الحق کی نظر میں اسلامی نظام کے تین پہلو تھے (1) جمہوری سیاسی عمل کا قلع قمع کرنا (2) وحشیانہ سزائوں کے ذریعے معاشرے کو انسانی مصائب سے لا تعلق کرکے اجتماعی شعور میں بے حسی کو فروغ دینا (3 )اسلام کے نام پر عورتوں، اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کو قومی دھارے سے الگ تھلگ کرنا شامل تھا۔
افغان جہاد کے نام پر پاکستان کی مذہبی قوتوں کو اسلحے کی فروانی حاصل ہوگئی، مسلح تربیت میسر آئی ملائوں کے گھروں میں روپے پیسے کی ریل پیل ہوئی اور روشن خیال پاکستانی معاشرہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا چلاگیا اور مذہبی انتہاپسند ریاست پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے جو آج تک دیکھے جا رہے ہیں۔
دوسرا گروپ پاکستان کے سیاست دانوں کا ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنی وراثتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ یہ سب حضرات اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں ،ان سب کا اس بات پر مکمل اتفاق واتحاد ہے کہ ملکی وسائل پر صرف ان کا حق ہے اور وہ صرف حکمرانی، لوٹ مار،کرپشن کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہ صرف دکھائوے کے لیے ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کو برابھلا کہتے نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ سب اندر سے ایک ہیں ۔
ان سب کی ایک دوسرے سے رشتے داریاں ہیں اگر آپ ان کی نجی محفلوں اور ڈرائنگ روموں میں جھانک کر دیکھیں تو یہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے عوام کا مذاق اڑاتے نظرآئیں گے ان سب حضرات کا علم وعقل اورفکرودانش سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے یہ جمہوریت کا نام لے کر اپنے اپنے الو سیدھا کرتے رہتے ہیں نہ یہ خود جمہوری ہیں اور نہ ہی ان کی سوچ جمہوری ہے بلکہ انھیں بھی جمہوریت سے اتنی ہی چڑ ہے جتنی ضیا ء الحق کو تھی ۔
تیسر ا گروپ پاکستان کی بیوروکریسی اور اشرافیہ پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستان کو مال غنیمت جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔یہ گروپ انتہائی شاطر، دور اندیش اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل ہے یہ اپنے آپ کے علاوہ باقی سب پاکستانیوں کو بے وقوف ، جاہل اورگنوار سمجھے بیٹھے ہیں ، ان کی پاکستان پر پہلے روز سے ہی حکمرانی قائم ہے۔ یہ تاحیات حکمران پیدا ہوتے ہیں ان کی حکمرانی کو آج تک چیلنج نہیں کیا جاسکا ہے ۔ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کے آگے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ۔
آخر میں ذکرکرتے ہیں عوام کا جو تعداد کے لحاظ سے 22 کروڑ ہیں جو 71 سال سے اپنی خوشحالی، اختیار اور حکمرانی کا انتظارکر رہے ہیں یہ انتہائی معصوم اور سیدھے سادے واقع ہوئے ہیں ، اسی لیے تینوں گروپوں کو ان سے کوئی خطرہ یا فکر نہیں ہے ان کا کام صرف محنت کرنا ، فاقے کرنا، خواب دیکھنا اورٹیکس دینا رہ گیا ہے اور ہر پانچ سال بعد ووٹ دے کر پھر امیدیں لگا بیٹھتے ہیں اور ایک بار پھر منہ کی کھاتے ہیں ۔ آہ ! میرے معصوم لوگ ان کے لیے صرف دعائیں ہی کی جاسکتی ہیں ۔'' لگے رہو منا بھائی ! '' ایک نہ ایک دن تو نصیب بدل ہی جائیں گے، اگر نہیں بدلے تو تمہارے نصیب ہی خراب ہیں کوئی کیا کرسکتا ہے۔