بھارت نوازی
کشمیر میں روز ہی بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔
پوری دنیا میں بی بی سی اور سی این این میڈیا نیٹ ورکس نے دھوم مچا رکھی ہے۔ ان کی تمام ہی ممالک پر نظریں رہتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی خبریں تازہ، مفصل اور تجزیاتی ہوتی ہیں۔ ان دونوں میڈیا گروپس کی مقبولیت اپنی جگہ مگر یہ دونوں ہی مسلم ممالک کو منفی انداز میں پیش کرنے میں ذرا پس و پیش نہیں کرتے۔
بی بی سی لندن ریڈیو کی اردو نشریات ماضی میں پاکستان میں اگرچہ بڑے ذوق و شوق سے سنی جاتی تھیں مگر اصل نشانہ پاکستان ہی ہوتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے دہشت گردانہ کردار سے سبھی واقف ہیں مگر بی بی سی بھارت کے تخریبی رویے کی پردہ پوشی کرتا رہا، بنگالیوں کی حالت زار کا جتنا واویلا اس نے مچایا اتنا تو خود بنگالی اخباروں نے نہیں مچایا تھا۔
یہ بات بھی اب خفیہ نہیں رہی اور اس کا ذکر مجیب الرحمن کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم حسینہ واجد نے خود کیا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں بھارتی حکام کے ساتھ تمام مذاکرات اور معاہدات لندن میں ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کا جھنڈا، ڈاک ٹکٹ اورکرنسی نوٹ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل ہی لندن میں چھپ چکے تھے۔ اب اس وقت بی بی سی کی نظر کرم بلوچستان پر ہے۔
بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی اکثر باتیں کی جاتی ہیں اور ویب سائٹس پر مضمون شایع کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ان بلوچوں کا ذکر بڑے درد انگیز انداز سے کیا گیا ہے جو افغانستان میں روپوش ہیں۔
لکھا گیا ہے ''بلوچستان میں جاری کشیدگی کا براہ راست اثر بلوچ مہاجرین کے بچوں اور خواتین پر پڑ رہا ہے۔ قوم پرست افغانستان میں اپنی موجودگی کا اس لیے کھلے الفاظ میں اعتراف نہیں کرتے کہ کہیں پاکستانی اہلکاروں کو ان کے ٹھکانوں کا پتا نہ چلے۔ جب کہ تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات کی اشد ضرورت کے باوجود مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے اس خوف سے رابطہ نہیں کرتے کہ کہیں اس سے ان کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔'' اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بلوچ خود کو روپوش رکھنا چاہتے ہیں مگر کیوں؟
یہ دیار غیر میں کیوں مشکلات برداشت کر رہے ہیں۔ کروڑوں بلوچ تو اپنے وطن میں ہی رہ رہے ہیں اور یہاں ہر طرح امن وامان کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ باقاعدہ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اپنے نمایندوں کو اسمبلیوں میں بھی بھیج رہے ہیں۔ جب اکثریت کو اپنے وطن میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر مٹھی بھر بلوچوں نے خود کو کیوں افغانستان میں مہاجر بنالیا ہے۔ اصل وجہ جو ہے اسے چھپایا گیا ہے کہ وہ وہاں بھارت کے مہمان ہیں اور ''را'' کی ہدایت کے مطابق پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے انھوں نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کے اصل ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو کے بارے میں اسی ویب سائٹ میں اس کی طرف داری اور اس کی مبینہ ہلاکت کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے لکھا گیا ''دسمبر 2018 کو افغانستان کے شہر قندھار میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سرکردہ کمانڈر اسلم بلوچ اور اس کے چھ ساتھیوں کی ہلاکت بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جس سے پہلی مرتبہ حکومت پاکستان کے ان دعوؤں کی تصدیق تو ہوگئی کہ بلوچ تنظیمیں افغانستان سے پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں کر رہی ہیں تاہم بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی طرف سے پڑوسی ملک میں ہونے والے خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں چھ بلوچوں کی ہلاکت کو ٹوئٹر پر گریٹ نیوز کہنے نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اصل میں کس کا ہاتھ ہے اور اس سے بلوچستان میں جاری مسلح تحریک پر کیا اثر پڑے گا؟''
یہ بھی لکھا گیا ''گزشتہ سال کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے اور اس کے فوری بعد ایک اہم بلوچ کمانڈر کی ہلاکت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں افغانستان بلوچ قوم پرستوں کے لیے مزید محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں افواج کی تعداد میں تخفیف کو دیکھ کر پاکستانی اہلکار خوش اور بلوچ قوم پرست پریشان نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کا قضیہ اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے فوری بعد دوسرا مسئلہ کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔''
حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کوئی پیچیدہ نہیں ہے اسے بھارت پیچیدہ بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی بہ بانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی بھرپور امداد کرتے رہیں گے۔ کیا یہ بیان دے کر مودی نے بھارت کو دہشت گردی کا منبع ثابت نہیں کردیا؟ کیا اس بیان کے بعد اس بات میں کوئی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی کو ہوا نہیں دے رہا یا علیحدگی پسند بلوچوں کی حوصلہ افزائی اور مدد نہیں کر رہا؟
بلوچستان میں امن و امان خراب کرنے اور نوجوانوں کو علیحدگی و تخریب کاری کی جانب مائل کرنے کی تصدیق تو خود وہاں سے گرفتار ہونے والا بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی کرچکا ہے کہ اسے وہاں ''را'' نے ان ہی فرائض کی ادائیگی کے لیے بھیجا تھا۔ بی بی سی سے پاکستانیوں کو شروع سے ہی بہت سی شکایتیں رہی ہیں مگر اس نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ وہ ہمیشہ ہی بھارت کی ترجمانی میں پیش پیش رہا ہے۔ پاکستان مخالف بھارتی بیان کی تشہیر کی جاتی ہے جب کہ پاکستانی موقف کا اول تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جاتا ہے تو توڑ مروڑ کر۔
گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسد عمر نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا تھا اس میں دیگر امور کے علاوہ کچھ باتیں بھارت کے بارے میں بھی تھیں۔ جب بی بی سی نے اس انٹرویو کو نشر کیا تو بھارت کے بارے میں کہی گئی باتوں کو نکال دیا گیا۔ جب پاکستان کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا گیا تو جواب آیا کہ چونکہ انٹرویو بہت طویل تھا اس لیے بھارت والے حصے کو کاٹ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ صرف بھارت سے متعلق ہی حصے کو کیوں کاٹا گیا؟
اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کی طرف داری کی جاتی ہے۔ کشمیر میں روز ہی بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ بعض ایسی رپورٹس پیش کی جاتی ہیں جن سے تاثر دیا جاتا ہے کہ وہاں سب ٹھیک ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی بی سی کی اردو اور ہندی سروسز دراصل بھارت کے مالی تعاون سے چل رہی ہیں شاید اسی لیے بھارت کی اچھی سے اچھی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہرحال بی بی سی کی بھارت نوازی کی وجہ سے پاکستانیوں کی اس سے دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے جس کا اس کی انتظامیہ کو ضرور نوٹس لینا چاہیے۔