نفاذ اردو کی ضرورت اور تقسیم انعامات

اگر قومی زبان کا نفاذ ہوچکا ہوتا تو آج پاکستان کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر فائز ہوتے۔


Naseem Anjum January 20, 2019
[email protected]

ہر ملک کی پہچان اس کی ثقافت ، تہذیب اور زبان سے ہوتی ہے اور زبان کی بدولت اس کی شناخت قائم ہوتی ہے، دنیا کے تمام ممالک میں ان کی اپنی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں، اسی زبان میں تعلیم وتربیت اور دفتری امور انجام دیے جاتے ہیں لیکن افسوس ہمارے یہاں انگریزی کی غلامی کرنے کا سحر بیوروکریٹس اور پاکستان کے دشمنوں پر ایسا چھایا ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے، ان کے اس عمل نے پاکستانی قوم کے وقارکو دھچکا لگایا اور پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ ملک عزیز کے بچے انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں نہ وہ اردو سے مکمل طور پر واقف ہیں اور نہ انگریزی سے۔

ایسے ہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں اردو زبان کے فروغ کے لیے کئی تحریکیں شروع ہوئیں اور پروان چڑھیں اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے مسلسل کام ہو رہا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں، اسی حوالے سے ماہنامہ ''اطراف'' کے چیف ایڈیٹر محمود شام اردو کو اس کا مقام دلانے کے لیے کوشاں ہیں، نوجوانوں میں اردو سے محبت پیدا کرنے کے لیے انھوں نے مضمون نویسی کے مقابلوں کے انعقاد کی کامیاب کوشش کی۔

گزرے سال 2017 اور 2018 میں اس موضوع کے تحت ''یونیورسٹیاں پاکستان کو مہذب ملک بنا سکتی ہیں'' طلبا وطالبات نے مضامین لکھے اور کامیابیوں کا سہرا اپنے سروں پر سجایا، گزشتہ دنوں ایک مقامی اور بڑے ہوٹل میں ماہنامہ اطراف اور ایک بینک کے تعاون سے شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، یہ پروگرام تقریب تقسیم انعامات کا تھا، جس موضوع پر طلبا نے محنت لگن اور تحقیق کے ساتھ مضامین لکھے تھے وہ یہ تھا ''پاکستانی ادب وثقافت، ماضی، حال، مستقبل '' صدارت توشی کازواسیو مورو قونصل جنرل جاپان کی تھی اور مہمان خصوصی کے طور پر شوکت ترین مشیر برائے صدر سلک بینک نے شرکت کی تھی۔

شوکت ترین خود اردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے دیکھنے کے خواہش مند ہیں اسی وجہ سے ہر ممکن طلبا کا حوصلہ بڑھانے اور اردو کے مشن کو کامیاب بنانے میں محمود شام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ مقررین میں ڈاکٹر جعفر احمد اور سینیٹر (ر) حسیب احمد خان شامل تھے، نظامت کے فرائض بے حد احسن طریقے سے محمود شام کی صاحبزادی رخشندہ محمود نے انجام دیے، قاری حامد محمود نے تلاوت کلام پاک اور نعت پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔

محمود شام نے تقریب کی ابتدا اپنی تقریر سے کی ان کا لکھا اور ادا کیا ہوا ہر جملہ اور شگفتگی کا نادر نمونہ ہوتا ہے انھوں نے ملتان، کوئٹہ، کراچی اور لاہور کے کامیاب مقابلوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہم نے نوجوانوں کو شعوری طور پر لکھنے کی طرف مائل کیا ہے اور ہال روم جس میں یہ تقریب ہو رہی ہے کبھی رقص گاہ ہوتا تھا اب سب ہالز مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔

توشی کازوایسومورا قونصل جنرل جاپان نے صدارتی خطبہ اردو میں فرمایا ۔ بہت اچھی گفتگو کی، ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اردو زبان پر دسترس رکھتے ہیں اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچانے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ انھوں نے اردو کی افادیت کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ عام لوگ اردو میں کچھ بات کرتے ہیں اور انگریزی میں کچھ اور تعلیم و تربیت حاصل اور پھر اس کے بعد مقصد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، جناب سینیٹر (ر) عبدالحسیب خان علمی و ادبی تقریبات میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو پاکستان سے زیادہ مال دار ہو نوجوانوں پر توجہ اور انھیں صحیح سمت کا تعین کرنے کی بھی بات کی۔ شوکت ترین نے اردو کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا زبان ہمیں یکجا کرتی ہے۔ اپنی ہی زبان میں گفتگوکرنا باعث فخر ہونا چاہیے نہ کہ ندامت۔

قرآن پاک عربی زبان میں نازل ہوا چونکہ اہل عرب کی زبان عربی تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ ملک عرب کا بچہ بچہ اس کے پیغام کو سمجھ سکے۔ قرآن پاک کے تراجم مختلف زبانوں میں موجود ہیں لیکن تلاوت کلام پاک عربی زبان میں ہی کی جاتی ہے۔دنیا بھر کے تمام ممالک میں اپنی ہی زبان بولی اور پڑھی لکھی جاتی ہے، گزشتہ دنوں الحمد للہ عمرے کی ادائیگی کا موقعہ ملا، دنیا بھر سے لوگ آئے تھے، جن جن سے میں نے بات کی وہ انگریزی سے ناواقف تھے۔ اپنی ہی زبان میں بات کر رہے تھے لیکن ہمارے یہاں تو انگریزی زبان سے واقفیت کو ہی اپنی شان سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سابقہ حکومتوں نے قوم اور قومی زبان کو یکسر نظرانداز کردیا یہ بے شعوری اور جہالت کی علامت ہے۔

اگر قومی زبان کا نفاذ ہوچکا ہوتا تو آج پاکستان کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر فائز ہوتے، پاکستان کی شق 251 کے مطابق اردو کو بطور سرکاری، دفتری اور تدریسی زبان میں نافذ کیا جائے اردو کے نفاذ کے لیے 15 سال کی مہلت تھی جوکہ 1998 میں ختم ہوگئی اس دوران ماضی کی حکومتیں سپریم کورٹ سے مہلت لیتی رہیں، لیکن 2015 کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے قومی زبان کے نفاذ کے لیے حکم نامہ جاری کردیا لیکن اب بھی صورتحال بہتر نہیں ہے لیکن امید افزا ضرور ہے کہ آنے والا وقت اردو کو اس کا مقام ضرور عطا کرے گا ۔

جنرل ضیا الحق کی ذاتی دلچسپی کے باعث مقتدرہ قومی زبان نے پورے نظام حکومت اور تعلیمی امور کو قومی زبان میں رائج کرنے کا اہتمام کردیا تھا۔ ان کی کوششوں کے احکامات کے نتیجے میں دفتری زبان میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کو بھی اردو میں بدل کر اردو کی ترقی کے لیے اہم کام کیا تھا ساتھ میں سرکاری اداروں میں کام کرنے والے عملے اور افسران بالا کو اس بات کا پابند کردیا گیا تھا کہ وہ تمام کام اردو میں ہی انجام دیں، باقاعدہ طور پر اردو دفتری کورس کا اہتمام کرکے اہم فریضہ انجام دیا تھا لیکن ان کے بعد پاکستان پر حکومت کرنے والوں نے اس زبان کو جس کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ (21 مارچ 1948 ہے مقام ڈھاکہ) ''میں آپ کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہوگی اور صرف اردو۔ اردو کے سوا کوئی اور نہیں جو آپ کو گمراہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔''

موجودہ حکومت نے اپنے ملک اور اس کے وقار میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر قومی زبان میں تقریر کرکے تاریخ رقم کی، تحریک انصاف کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

آئیے پھر چلتے ہیں ہال روم کی طرف جہاں کامیاب ہونے والے طلبا کو انعامات اور نقد رقم تقسیم کرکے طلبا کا حوصلہ بڑھایا جا رہا ہے۔ پہلا انعام کنزہ یار خان نے ایک لاکھ کی شکل میں شوکت ترین کے ہاتھوں وصول کیا، پاکستان کے مختلف شہروں سے طلبا انعامات وصول کرنے آئے تھے ۔ تانیہ ذوالفقار اور انیل کپور دونوں کا تعلق عمرکوٹ سے تھا، 7 ویں پوزیشن نمرہ ایمان نے حاصل کی تھی اور یہ لورا لائی سے آئی تھیں، اسی طرح دوسرے طالب علموں کو بھی ایوارڈ اور رقوم سے نوازا گیا، اس طرح کے مقابلے طلبا میں پڑھنے لکھنے اور آگے بڑھنے کی امنگ کو پروان چڑھاتے ہیں اور جب طلبا آگے بڑھتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔