دل وہیں رہ گیا…

’’ مانگ کیا مانگتی ہے؟ ‘‘ اس سیاہ عمارت سے کوئی جھانک کر پوچھتا ہے۔


Shirin Hyder January 20, 2019
[email protected]

ISLAMABAD: ' مطاف کی طرف! ' باب عبدالعزیز کی طرف سے حرم میں داخل ہوتے ہوئے بورڈ پڑھ کر قدم اس سمت رواں ہوئے۔ برآمدوں اور راہداریوں سے گزرتے ہوئے، اس مقام پر کہ جب کعبہ کی سیاہ عمارت، پوری طرح نظر کے سامنے تھی، رکے اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔ کیا مانگوں ؟ سب کچھ تو اس نے دیا ہے... اتنا کہ میری اوقات نہ بساط، اتنا کہ جتنا میں نہ مانگ سکتی ہوں نہ سمیٹ سکتی ہوں، اس کے دیے میں سے بانٹ بانٹ کر بھی اتنا ہے کہ مزید کی طلب ختم ہو گئی ہے۔ اب کیا مانگوں ؟ ہاں، توفیق دے دے میرے سوہنے رب، شکر کی توفیق دے، اتنے شکر کی کہ جو تیرے دیے کا حق ادا کر دے۔ اگرچہ ایسا ہو نہیں سکتا، اتنی ان گنت نعمتیں، اتنی نوازشیں ، اتنی مہربانیاں اور اتنی عنائتیں۔ کون سے الفاظ ہوں جو تیرا شکر ادا کر سکیںاور کون سی عبادات ہوں جو تیرے اتنے دیے کا حق ادا کر سکیں ؟؟

'' مانگ کیا مانگتی ہے؟ '' اس سیاہ عمارت سے کوئی جھانک کر پوچھتا ہے۔

'' کیا مانگوں ؟ '' سوچا... میرا تو دماغ ہی خالی ہو گیا ہے اور وجود بے وزن، میں تو رہی ہی نہیں۔ یہاں تو فقط تیری ذات ہے، تیری تجلیات ہیں، تیرا گھر ہے اور تیرا در ہے، تو دیتا چلا آ رہا ہے اور بے حساب دے رہا ہے، اتنا کہ کچھ مانگنے کو رہا بھی نہیں ۔ نظر بھر کر اس گھر کو دیکھا اور اپنے دل میں بسا لیا۔

دائیں ہاتھ پر نظر آنے والی، سبز بتیوں کے پاس رک کرمیں نے اپنے آپ کو بائیں طرف گھمایا، کندھوں تک ہاتھ اٹھائے... بسم اللہ، اللہ اکبر!! کا ورد کیا اور قدم اٹھایا، میں اعتراف کرتی ہوں تیری عظمت کا، تیری پاکی کا، تیری برائی کا، تیری بخشش کا، تیری نعمتوں کا۔ قدم اور زبان ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور وجود بے نیاز۔ میں کہاں ہوں، کیسے چل رہی ہوں ، میرے ساتھ کون ہے، ارد گرد کون ہے... کچھ علم نہیں۔

حجر اسود کے سامنے پہنچ کر ہر بار، ہاتھ اٹھا کر، نیا چکر شروع کرنے سے پہلے، اللہ کی بڑائی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنا وجود ریت کے ذرے سے بھی حقیر لگتا ہے مگر دماغ میں تکبر کا کیڑا جو بسا ہے، اس کا کیا ہو؟ اے کائنات کے خالق و مالک، تو عظیم ہے، تو رحیم ہے ، تو کریم ہے۔ ہوا سے ہلکا وجود ، تتلیوں کی طرح اڑا جاتا ہے، سات چکر پورے بھی ہوگئے!!

'' ایک اور طواف... ایک اور نظر بھر کر نظارہ... پھر جانے آنا ہو کہ نہیں! '' ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا، ایسا تو ہر بار ہوتا ہے۔ دل کے اندر سے عشق کے سوتے پھوٹتے ہیں اور زبان کی نوک پر اپنے رب سے معافی کا ورد جاری ہوتا ہے، اپنے ہر دانستہ اور نادانستہ، کبیرہ اور صغیرہ، ظاہر اور پوشیدہ گناہوں کے لیے۔ کتنا کچھ غلط کرتے ہیں ہم اپنی زندگیوں میں اور وہاں جا کر توقع کرتے ہیں کہ ہم بخشے جائیں گے، یوں گناہوں سے پاک ہو جائیں گے جیسے کوئی نومولود ہوتا ہے۔

غلطی کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ قہار اور جبار ہے تو اس کے در پر جا کر معافی مانگتے ہوئے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے۔ ہم میںلاکھ عیب اور انسانی کمزوریاں کجیاں سہی مگر وہ تو ستار العیوب ہے۔ ہم اتنے چھوٹے چھوٹے ظرف کے انسان ہوتے ہیں کہ کسی سے ذرا سی غلطی ہو جائے توعمر بھر اسے معاف نہیں کرتے ۔ کوئی ہم سے غلط کہے ، برا کرے تو اس سے معافی کی توقع رکھتے ہیں اور وہ معافی نہ مانگے تو اس کی غلطی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ، اسے اپنے گھر کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے اور اپنا دل اس کے لیے پتھر کر لیتے ہیں۔ ہماری بساط ہی کیا ہے؟ ذرا سوچیں کہ اگر ایسا ہی سلوک ہمارا رب ہمارے ساتھ کرے تو؟

وہ خالق و مالک کہ جس کے سامنے ہمارا ہر عیب بے پردہ ہے ، ہر گناہ عیاں ہے، ہر غلطی واضع ہے، اس سے چھپ کر ہم کچھ نہیں کر سکتے، زمین کی تہوں میں چھپ کر بھی ہم کچھ کریں تو اس سے پوشیدہ نہیں ہو سکتا ۔ کتنا کرم ہے اس سوہنے رب کا کہ وہ ہماری سوچوں کو کسی پر عیاں نہیں کرتا، جو ایسا ہوتا تو دنیا ہر وقت لڑائی اور فساد میں مبتلا رہتی ۔ وہ پھر بھی ہمیں دنیا کے سامنے بے پردہ نہیں کرتا، ہمیں بے عزت نہیں کرتا ، رسوا نہیں کرتا، اپنے در سے جھٹلاتا نہیں ہے، ہمارے آلودہ وجود اپنے ہاں قبول کر لیتا ہے۔ اپنے ذہن میں آنے والی سوچوں پر میں خود کو چادر میں سمیٹ کر چھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔

کوئی میرے ارد گرد جان نہ لے کہ میں کیا سوچ رہی ہوں ، کسی کو علم نہ ہو کہ میں کتنی گناہ گار ہوں، کتنا کچھ اللہ تعالی نے میرا اس دنیا کے ہر شخص سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے، میری غلطیوں پر معاف کرتا ہے، گناہوں کے باوجود، دل ذرا سی ندامت محسوس کرتا ہے تو اللہ تعالی بھینچ کر اپنے قریب کر لیتا ہے ۔ چار آنسو آنکھ سے شب کی تنہائی میں گرتے ہیں تو اس کے کرم کا نرم لمس مجھے اپنے سر پر محسوس ہوتا ہے ۔ مجھے علم ہو جاتا ہے کہ وہ مہربان اور رحم کرنے والا مجھے قریب سے سن رہا ہے اور اسے میری معافی کی ادا پسند ہے۔

اس کی محبت کی انتہا ہے کہ میں رات کو اطمینان سے سوتی ہوں اور صبح اپنے حواس کی سلامتی کے ساتھ اٹھتی ہوں ... اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ وہ جو مجھے اپنے حضور حاضری کے لیے کھڑا کرتا ہے تو کیا یہ کم فضل اور کرم ہے اس کا؟ کیا یہ سب کو نصیب ہوتا ہے؟ اس کے در پر جا کر رقت طاری ہو جاتی ہے... مجھ جیسے تو یہ بھی سوچنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ میرے گناہ گار دامن میں کیا ہے کہ وہ بار بار مجھے ایسی توفیق دے دیتا ہے کہ میں اس کے گھر کی مہمان ہوتی ہوں ؟

اس سیاہ مقناطیسی عمارت کے گرد چکرلگانے میں میری کوئی شعوری کوشش نہیں، یہ تو وجود خود ہی پروانہ ہو رہا ہے، بند آنکھوں سے خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ میں اللہ کے گھر کی مہمان ہوں، یہاں تک آئی ہوں تو روح سرشار ہے، بے یقینی سی بے یقینی ہے کہ میں اس کرم کے قابل!!! دل سے تشکر امڈ کر آتا ہے اور اپنی حیثیت جان کر آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے... میں کہاں اس کرم کے قابل، سب اسی کا کرم ہے جو بے نیاز ہے، دیتا ہے تو بے حساب دیتا ہے، جو نہیں دیتا وہ اس لیے نہیں دیتا کہ وہ ہمارے حق میں اچھا نہیں۔ خود تو ہم دیتے ہوئے، لینے والے کو سو دنیاوی پیمانوں سے ناپتے ہیں، کیا وہ اس کا مستحق ہے بھی کہ نہیں... اسے اور لوگ بھی دیتے ہیں، وہ ہمارے دیے کو اپنی عیاشیوں میں نہ خرچ کر دے ، وغیرہ وغیرہ ۔ اسے دیکھیں!! دیتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ ہمارے پاس پہلے ہی کتنا کچھ ہے، اس کا دیا ہوا ہم کیسے اور کہاں استعمال کریں گے، اس کے دیے سے ہم کسی کو نقصان تو نہیں پہنچائیں گے، غلط کاموں پر تو نہیں خرچ کریں گے!! اگر وہ ایسا کرنا شروع کردے تو شاید ہم سبھی محروم رہیں ۔ وہ تو دیتا ہے اور بے حساب دیتا ہے، اپنے دیے کا حساب کتاب وہ ہم سے ہمارے مرنے کے بعد لے گا۔ ہم کسی کو کچھ دیتے ہیں تو توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ممنون و شکر گزار رہے، ہمارا غلام بن کر رہ جائے۔اللہ بھی دیتا ہے تو ہم سے ممنون و شکرگزار ہونے کی توقع کرتا ہے، اپنے دیے کو اچھے طریقے سے خرچ کرنے کو کہتا ہے ، دوسروں کو اپنے دئیے ہوئے میں سے دینے کی امید رکھتا ہے، یعنی ہمیں وسیلہ بناتا ہے کہ ہم اس کے بندوں پر احسان کریں ۔ اتنا کچھ دے کر بھی اگر وہ کچھ نہ دے یا دے کر واپس لے لے توہم اس پر اس سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ مانگا تو اس نے دیا نہیں!!

اپنے ملک، مذہب، انسانیت، خاندان، قرابت دار، والدین، احباب، بہن بھائی، بچوں اور دوستوںکے لیے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں، ایک ایک کر کے ہر چہرہ بند آنکھوں کے سامنے سے یوں گزر رہا تھا جیسے تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے گر رہے ہوں ۔ دعاؤں کی امانتیں تھیں جو خود ہی زبان پر آتی جا رہی تھیں، اس کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر ہر وہ شخص مجھے یاد آ رہا تھا جس سے میری عمر کے کسی بھی حصے میں ایک پل کی بھی ملاقات ہوئی ہو گی، وہ بھی جن سے ایک بار کے بعد کبھی رابطہ بھی نہیں ہوا ہو گا اور وہ بھی جنہوں نے کسی دعا کی امانت مجھے نہیں سونپی تھی... جیسے میں اپنی زندگی کی فلم دیکھ رہی ہوں ۔

ماربل کے فرش پر سعی کرتے ہوئے پاؤں جس تکلیف سے گزر رہے تھے، اس کا احساس کم کرنے کو یہ سوچ ہی کافی تھی کہ جس ہستی کے عمل کی تقلید میں سعی کو حج اور عمرے کا حصہ بنایا گیا ہے، اس کے پیروں کے نیچے تو ایسا ماربل کا فرش نہیں بلکہ پتھریلی اور گرم ترین چٹانیں تھیں، حلق پیاس سے سوکھ رہا تھا اور پاؤں اپنے لخت جگر کے بلکنے کی تال پر بھاگتے تھے۔ اس سوچ سے، ہر عمل میں سہولت کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اس بلکتے اور بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑتے ہوئے بچے کی ایڑیوں کی طاقت سے جاری ہونے والا چشمہ جو قیامت تک ہمیں میسر ہوا ہے، اس جادوئی طاقت رکھنے والے پانی کا ہر گھونٹ وجود کو تراوٹ بخشتا ہے اور ساری تھکان کا خاتمہ کردیتا ہے۔

اللہ کا خاص الخاص کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر اپنے در پر بلایا اور دل اور روح کو سکون بخشا۔آپ احباب کا شکریہ جنہوں نے مسلسل رابطہ رکھا اور اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھا۔ یوں تو ہر بار واپسی پر دل لپک لپک کر یوں واپس جاتا تھا جیسے کسی بچے کو اس کی ماں سے دور لے جانے پر ہوتا ہے۔ مگر اس بار، مجھے لگ رہا تھا کہ شاید اس کے بعد نہیںآنا ہو گا، جانے عمر کی پونجی ختم ہو جائے گی یا!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں