کھوٹا سکہ اشرفی ہوگیا
منٹو کے ان خطوط کے بعد سوویت روس کا افغانستان سے کیا، خطۂ زمین سے ہی پاندان اٹھ گیا۔
لاہورکے وہ لوگ جنہوں نے 18جنوری 1955 کی اداس دوپہرکو ایک جنازہ دیکھا جس میں شرکت کرنے والے معدودے چند لوگ تھے اور جس بلڈنگ سے وہ جنازہ اٹھا تھا، وہاں سے رونے والی عورتوں کی آنے والی آوازیں بھی مدھم تھیں، دیکھنے والوں میں سے چند نے لپک کر جنازے کوکندھا دیا، چند قدم چلے اور پھر اپنی اپنی دکانوں میں واپس چلے گئے، سرگوشیوں میں کہا گیا '' یہ اس شرابی کا جنازہ ہے جو روز رات کو لڑکھڑاتا ہوا آتا تھا '' ۔
''دوسرے دکاندار نے کہا تھا ''یہ منٹوکا جنازہ ہے، سنا ہے فحش کہانیاں لکھتا تھا'' تیسرے کی آواز آئی'' ارے اس کو دفنانے کیوں لے گئے ۔ قبرستان بھی پلید ہوا ''۔ اور پھر سب آوازیں خاموش ہوگئیں۔ دکھوں سے نڈھال اس کی بیوی صفیہ پر، اس کی معصوم بچیوں پرکیا گزری،کسی کو اس سے غرض نہ تھی ، لیکن اب بہت دنوں سے منٹو جوکھوٹا سکّہ تھا، ٹکسال سے ڈھلنے والی اشرفی ہوگیا ہے۔
اس کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں، بک رہی ہیں، اسٹیج ڈرامے کامیاب ہو رہے ہیں،کچھ لوگوں کو آج بھی اس سے ڈر لگتا ہے اس لیے اس کے ڈراموں پر پابندی لگادی جاتی ہے ۔ اس پر فلمیں بنتی ہیں اورکروڑوں کا بزنس کرتی ہیں ۔
1954 کے آخری دنوں میں اس نے مشہور ادبی مجلے '' نقوش '' کے مدیر محمد طفیل کی فرمائش پر اپنا ایک ''تعزیت نامہ '' لکھا تھا، منٹوکی ایک ایسی تحریر جو یادگار زمانہ ہے ۔اسے لکھنے کے چند مہینوں بعد منٹو نے دنیا سے پردہ کیا۔ اپنے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ، اس کی زہرناکی ہمیں ہلاک کرنے لگتی ہے ۔ اپنے بارے میں اس سفاکی سے بس منٹو ہی لکھ سکتا تھا ۔ اس کی تعریف و توصیف میں اب کیا کچھ نہیں لکھا جاتا ۔ وہ جب صفیہ کے اصرار پر بمبئی کی خوشحال اورکامیاب فلمی زندگی چھوڑ کر لاہور چلا آیا تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے ادبی شہر میں اجنبی بن گیا تھا ۔
پانچ اور دس روپے کے لیے ادبی پرچوں اور اخباروں کو اپنی تحریریں بیچتا تھا،کاش اپنی آج کی پذیرائی اس نے 50ء کی دہائی میں دیکھ لی ہوتی تو اس کے دل میں کچھ ٹھنڈک تو پڑتی ۔ وہ تڑپ کر عصمت چغتائی اور بعض دوسرے دوستوں کو یہ نہ لکھتا کہ مجھے واپس ممبئی بلالو ۔ اس کی آواز سب تک پہنچی لیکن کسی نے اسے جھوٹی تسلی کے دو جملے بھی نہ لکھے ۔ وہ اپنے غلط فیصلے کے بھنور میں ڈوب گیا۔
پاکستان آنے سے پہلے منٹوکواپنے افسانوں کی قدر و قیمت معلوم تھی ۔ 30اگست 1940 کو وہ بمبئی میں تھا جب اس نے لکھا :
''میرے افسانے کی آواز آئی ، تمہاری جائیداد میں ہوں، مجھے سنبھالو اور اپنے مصرف میں لاؤ، مجھے باہر نکالو اور میری نمائش کرو ، تمہارے حساس دل کی دھڑکنوں نے مجھے اپنی گود میں کھلایا ہے ، تمہارے اخلاص نے مجھے اپنا دودھ پلایا ہے ، تمہاری زندگی کے بیتے ہوئے دن ، مجھے جھولا جھلاتے رہے ہیں، تمہاری طبیعت کا اضطراب ، میرا بستر ہے، میں اگر تمہارے اندر سے نکل جاؤں تو تمہاری مثال اُس سیپی کے مانند ہوگی جس میں سے موتی باہر لڑھک جائیں، اِدھر آؤ مجھے سہارا دو ، میں باہر نکلنا چاہتا ہوں '' پھر منٹو نے لکھا کہ میں افسانہ نگار بن گیا ، بُرے دنوں نے مجھے اچھا افسانہ نگار بنادیا ۔
میرے افسانے میری جائیداد ہیں ۔ میں یہ جائیداد آپ لوگوں کو دکھانے کے لیے پیش کررہا ہوں ۔ مجھے کسی بات کا ڈر نہیں اِس لیے کہ یہ جائیداد غیر منقولہ ہے ، اِس کو اپنی جگہ سے کوئی بھی نہیں ہلا سکتا ''۔
اس زمانے میں اسے اپنے لکھے پرکیسا یقین اورکتنا اعتماد تھا ۔ پاکستان آنے کے بعد وہ اعتماد ان لوگوں کے قدموں تلے روندا گیا جو اس سے خوف کھاتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر منٹوکو نئی سر زمین میں اپنے قدم جمانے کا موقع مل گیا تو ان کا چراغ نہیں جلے گا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس پر غدار، فحش نگار اور بے دین کے آوازے کسے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اسے پنڈی سازش کیس میں کیوں نہ لپیٹ لیا گیا ۔
یہ سطریں جب لکھی جا رہی ہیں تو منٹو کوگزرے ہوئے 64 برس ہوگئے ، منٹو 1948 میں پاکستان پہنچا اور 18جنوری 1955کو ہمیشہ کے لیے ''انڈر گراؤنڈ '' ہوگیا لیکن جاتے جاتے کسی پہنچے ہوئے ماہر علم نجوم کی طرح ''اللہ کا بڑا فضل ہے '' لکھا جسے ہم جنرل ضیاء الحق کے دورکا زائچہ کہہ سکتے ہیں ۔ ایک ایسا زائچہ جو 30 برس پہلے کھینچا گیا تھا ۔
منٹو کی سیاسی بصیرت کس انتہاکو پہنچی ہوئی تھی اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو تعداد میں 9 ہیں اور جنھیں منٹو نے ''چچا سام'' کے نام لکھا ہے، انھیں پڑھیے تو منٹو اعلیٰ درجے کا ادیب ہی نہیں، بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے بہترین تجزیہ کار اور پیش بیں کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ منٹو کے یہ خطوط اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اس وقت پاکستان امریکا تعلقات کوکس نظر سے دیکھ رہا تھا ۔ یہ خط اس نے 16 دسمبر 1951 اور 26 اپریل 1954 کے درمیان لکھے۔ اپنے ان خطوط میں وہ کئی مرتبہ چچا سام سے ایک چھوٹا سا ایٹم بم بھیجنے کی خواہش کا اظہارکرتا ہے اور پاکستان امریکا فوجی معاہدوں کے بارے میں کھل کر لکھتا ہے ۔ایک خط میں لکھتا ہے کہ 'ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے۔ اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کرلیجیے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجیے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیارکنڈم کردیے ہوں گے جو آپ نے (کوریا کی) پچھلی جنگ میں استعمال کیے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے تو آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔''
امریکی یکم جولائی 1951 کو اپنے پالیسی بیان میں جو کچھ کہہ رہے تھے، ہمارے حکمران اس کی تہہ تک نہ پہنچے لیکن منٹو نے اس بیان کو ہاتھی کے دانت سے زیادہ اہمیت نہیں دی، اسی لیے یہ لکھا''جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پختہ ہورہی ہے۔ میری عقیدت اور سعادت مندی بھی بڑھ رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے آپ کو ہر روز خط لکھا کروں۔ ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرورکریں گے۔ اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ یہاں کا مُلاّ روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو آپ سب سے پہلے ان مُلاّئوں کو مسلح کیجیے گا۔ فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان مُلاّئوں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں مگر آپ کی سب رمزیں سمجھتا ہوں۔ لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے (خدا اسے نظر بد سے بچائے) مُلاّئوں کا یہ فرقہ امریکی اسٹائل میں مسلح ہوگیا تو سوویت روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا۔''
منٹو کے ان خطوط کے بعد سوویت روس کا افغانستان سے کیا، خطۂ زمین سے ہی پاندان اٹھ گیا۔ درۂ خیبر سے دہشتگردی کا جو طوفان ابلا ، منٹو اسے چشم تصور سے دیکھ رہا تھا ۔ اسی لیے چچا سام کے نام ایک خط میں تحریر کرتا ہے ''آپ پاکستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ کو درۂ خیبر سے بے حد پیار ہے جہاں سے حملہ آور صدیوں سے ہم پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اصل میں درۂ خیبر ہے بھی بہت خوبصورت چیز ، اس سے پیاری اور خوبصورت چیز پاکستان کے پاس اور ہے بھی کیا؟''
26 اپریل 1954کو منٹو نے 'چچا سام'' کے نام آخری خط میں لکھا: ''عراق کی حکومت کی طرف سے آج یہ اعلان سنا کہ آپ اس اسلامی ملک کو بھی فوجی امداد دینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ امداد غیر مشروط ہوگی۔ چچا جان آپ میرے پاس ہوتے تو میں آپ کے پائوں چوم لیتا، خدا آپ کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے۔ اسلامی ممالک پر آپ کی جو نظر کرم ہورہی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ بہت جلد مشرف بہ اسلام ہونے والے ہیں۔''
انڈر گراؤنڈ منٹو چپکے چپکے مسکراتا رہتا ہے، پوے اور ادھے کے لیے ترستا ہوا منٹو ان لوگوں کو دیکھتا ہے جو اس کی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرنے کی خوشی میں فرانسیسی وائن بہاتے ہیں اور منٹو کو یاد کرکے زار زار روتے ہیں ۔
''دوسرے دکاندار نے کہا تھا ''یہ منٹوکا جنازہ ہے، سنا ہے فحش کہانیاں لکھتا تھا'' تیسرے کی آواز آئی'' ارے اس کو دفنانے کیوں لے گئے ۔ قبرستان بھی پلید ہوا ''۔ اور پھر سب آوازیں خاموش ہوگئیں۔ دکھوں سے نڈھال اس کی بیوی صفیہ پر، اس کی معصوم بچیوں پرکیا گزری،کسی کو اس سے غرض نہ تھی ، لیکن اب بہت دنوں سے منٹو جوکھوٹا سکّہ تھا، ٹکسال سے ڈھلنے والی اشرفی ہوگیا ہے۔
اس کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں، بک رہی ہیں، اسٹیج ڈرامے کامیاب ہو رہے ہیں،کچھ لوگوں کو آج بھی اس سے ڈر لگتا ہے اس لیے اس کے ڈراموں پر پابندی لگادی جاتی ہے ۔ اس پر فلمیں بنتی ہیں اورکروڑوں کا بزنس کرتی ہیں ۔
1954 کے آخری دنوں میں اس نے مشہور ادبی مجلے '' نقوش '' کے مدیر محمد طفیل کی فرمائش پر اپنا ایک ''تعزیت نامہ '' لکھا تھا، منٹوکی ایک ایسی تحریر جو یادگار زمانہ ہے ۔اسے لکھنے کے چند مہینوں بعد منٹو نے دنیا سے پردہ کیا۔ اپنے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ، اس کی زہرناکی ہمیں ہلاک کرنے لگتی ہے ۔ اپنے بارے میں اس سفاکی سے بس منٹو ہی لکھ سکتا تھا ۔ اس کی تعریف و توصیف میں اب کیا کچھ نہیں لکھا جاتا ۔ وہ جب صفیہ کے اصرار پر بمبئی کی خوشحال اورکامیاب فلمی زندگی چھوڑ کر لاہور چلا آیا تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے ادبی شہر میں اجنبی بن گیا تھا ۔
پانچ اور دس روپے کے لیے ادبی پرچوں اور اخباروں کو اپنی تحریریں بیچتا تھا،کاش اپنی آج کی پذیرائی اس نے 50ء کی دہائی میں دیکھ لی ہوتی تو اس کے دل میں کچھ ٹھنڈک تو پڑتی ۔ وہ تڑپ کر عصمت چغتائی اور بعض دوسرے دوستوں کو یہ نہ لکھتا کہ مجھے واپس ممبئی بلالو ۔ اس کی آواز سب تک پہنچی لیکن کسی نے اسے جھوٹی تسلی کے دو جملے بھی نہ لکھے ۔ وہ اپنے غلط فیصلے کے بھنور میں ڈوب گیا۔
پاکستان آنے سے پہلے منٹوکواپنے افسانوں کی قدر و قیمت معلوم تھی ۔ 30اگست 1940 کو وہ بمبئی میں تھا جب اس نے لکھا :
''میرے افسانے کی آواز آئی ، تمہاری جائیداد میں ہوں، مجھے سنبھالو اور اپنے مصرف میں لاؤ، مجھے باہر نکالو اور میری نمائش کرو ، تمہارے حساس دل کی دھڑکنوں نے مجھے اپنی گود میں کھلایا ہے ، تمہارے اخلاص نے مجھے اپنا دودھ پلایا ہے ، تمہاری زندگی کے بیتے ہوئے دن ، مجھے جھولا جھلاتے رہے ہیں، تمہاری طبیعت کا اضطراب ، میرا بستر ہے، میں اگر تمہارے اندر سے نکل جاؤں تو تمہاری مثال اُس سیپی کے مانند ہوگی جس میں سے موتی باہر لڑھک جائیں، اِدھر آؤ مجھے سہارا دو ، میں باہر نکلنا چاہتا ہوں '' پھر منٹو نے لکھا کہ میں افسانہ نگار بن گیا ، بُرے دنوں نے مجھے اچھا افسانہ نگار بنادیا ۔
میرے افسانے میری جائیداد ہیں ۔ میں یہ جائیداد آپ لوگوں کو دکھانے کے لیے پیش کررہا ہوں ۔ مجھے کسی بات کا ڈر نہیں اِس لیے کہ یہ جائیداد غیر منقولہ ہے ، اِس کو اپنی جگہ سے کوئی بھی نہیں ہلا سکتا ''۔
اس زمانے میں اسے اپنے لکھے پرکیسا یقین اورکتنا اعتماد تھا ۔ پاکستان آنے کے بعد وہ اعتماد ان لوگوں کے قدموں تلے روندا گیا جو اس سے خوف کھاتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر منٹوکو نئی سر زمین میں اپنے قدم جمانے کا موقع مل گیا تو ان کا چراغ نہیں جلے گا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس پر غدار، فحش نگار اور بے دین کے آوازے کسے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اسے پنڈی سازش کیس میں کیوں نہ لپیٹ لیا گیا ۔
یہ سطریں جب لکھی جا رہی ہیں تو منٹو کوگزرے ہوئے 64 برس ہوگئے ، منٹو 1948 میں پاکستان پہنچا اور 18جنوری 1955کو ہمیشہ کے لیے ''انڈر گراؤنڈ '' ہوگیا لیکن جاتے جاتے کسی پہنچے ہوئے ماہر علم نجوم کی طرح ''اللہ کا بڑا فضل ہے '' لکھا جسے ہم جنرل ضیاء الحق کے دورکا زائچہ کہہ سکتے ہیں ۔ ایک ایسا زائچہ جو 30 برس پہلے کھینچا گیا تھا ۔
منٹو کی سیاسی بصیرت کس انتہاکو پہنچی ہوئی تھی اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو تعداد میں 9 ہیں اور جنھیں منٹو نے ''چچا سام'' کے نام لکھا ہے، انھیں پڑھیے تو منٹو اعلیٰ درجے کا ادیب ہی نہیں، بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے بہترین تجزیہ کار اور پیش بیں کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ منٹو کے یہ خطوط اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اس وقت پاکستان امریکا تعلقات کوکس نظر سے دیکھ رہا تھا ۔ یہ خط اس نے 16 دسمبر 1951 اور 26 اپریل 1954 کے درمیان لکھے۔ اپنے ان خطوط میں وہ کئی مرتبہ چچا سام سے ایک چھوٹا سا ایٹم بم بھیجنے کی خواہش کا اظہارکرتا ہے اور پاکستان امریکا فوجی معاہدوں کے بارے میں کھل کر لکھتا ہے ۔ایک خط میں لکھتا ہے کہ 'ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے۔ اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کرلیجیے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجیے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیارکنڈم کردیے ہوں گے جو آپ نے (کوریا کی) پچھلی جنگ میں استعمال کیے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے تو آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔''
امریکی یکم جولائی 1951 کو اپنے پالیسی بیان میں جو کچھ کہہ رہے تھے، ہمارے حکمران اس کی تہہ تک نہ پہنچے لیکن منٹو نے اس بیان کو ہاتھی کے دانت سے زیادہ اہمیت نہیں دی، اسی لیے یہ لکھا''جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پختہ ہورہی ہے۔ میری عقیدت اور سعادت مندی بھی بڑھ رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے آپ کو ہر روز خط لکھا کروں۔ ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرورکریں گے۔ اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ یہاں کا مُلاّ روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو آپ سب سے پہلے ان مُلاّئوں کو مسلح کیجیے گا۔ فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان مُلاّئوں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں مگر آپ کی سب رمزیں سمجھتا ہوں۔ لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے (خدا اسے نظر بد سے بچائے) مُلاّئوں کا یہ فرقہ امریکی اسٹائل میں مسلح ہوگیا تو سوویت روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا۔''
منٹو کے ان خطوط کے بعد سوویت روس کا افغانستان سے کیا، خطۂ زمین سے ہی پاندان اٹھ گیا۔ درۂ خیبر سے دہشتگردی کا جو طوفان ابلا ، منٹو اسے چشم تصور سے دیکھ رہا تھا ۔ اسی لیے چچا سام کے نام ایک خط میں تحریر کرتا ہے ''آپ پاکستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ کو درۂ خیبر سے بے حد پیار ہے جہاں سے حملہ آور صدیوں سے ہم پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اصل میں درۂ خیبر ہے بھی بہت خوبصورت چیز ، اس سے پیاری اور خوبصورت چیز پاکستان کے پاس اور ہے بھی کیا؟''
26 اپریل 1954کو منٹو نے 'چچا سام'' کے نام آخری خط میں لکھا: ''عراق کی حکومت کی طرف سے آج یہ اعلان سنا کہ آپ اس اسلامی ملک کو بھی فوجی امداد دینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ امداد غیر مشروط ہوگی۔ چچا جان آپ میرے پاس ہوتے تو میں آپ کے پائوں چوم لیتا، خدا آپ کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے۔ اسلامی ممالک پر آپ کی جو نظر کرم ہورہی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ بہت جلد مشرف بہ اسلام ہونے والے ہیں۔''
انڈر گراؤنڈ منٹو چپکے چپکے مسکراتا رہتا ہے، پوے اور ادھے کے لیے ترستا ہوا منٹو ان لوگوں کو دیکھتا ہے جو اس کی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرنے کی خوشی میں فرانسیسی وائن بہاتے ہیں اور منٹو کو یاد کرکے زار زار روتے ہیں ۔