محکمہ تعلیم خلاف ضابطہ بھرتیوں کے حوالے سے اجلاس طلب افسران میں کھلبلی
رپورٹ میں آفرلیٹرزکس اتھارٹی کے حکم پرجاری کیے جاتے تھے اوران بھرتیوں کااصل ذمے دارکون ہے؟ اس امرکا تعین نہیں کیاگیا.
صوبا ئی محکمہ تعلیم نے گزشتہ وزیر تعلیم کے دور میں ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں کی گئی خلاف ضا بطوں بھرتیوں کے معاملے پر جمعہ کو محکمے کے افسران کا غیر معمولی اجلاس طلب کرلیا ۔
یہ اجلاس حکومت سندھ کے حکم پر طلب کیا گیا ہے جس میں محکمہ تعلیم کے تمام ونگز کے ذمے دارافسران کوگزشتہ دورمیں کی گئی خلاف ضابطہ بھرتیوں کے تمام ریکارڈ کے ساتھ طلب کیاگیا ہے، اجلاس کی صدارت صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکریں گے ''ایکسپریس''کومعلوم ہوا ہے کہ اجلاس کے حوالے سے محکمہ تعلیم کی جانب سے ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ ،تمام ریجن کے ڈائریکٹر کالجز،کراچی سمیت تمام ریجن کے ڈائریکٹر اسکولز، ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزسندھ، ڈائریکٹرپائیٹ، بیورو آف کریکولم ، ڈائریکٹرلٹریسی، ڈائریکٹر سیڈا اور ڈائریکٹر اسٹیڈا سمیت دیگرونگز کے افسران کوخطوط جاری کیے گئے ہیں۔
جس میں ان افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ جمعہ کوہونے والے اجلاس میں اپنے اداروں میں کی گئی تمام بھرتیوں کی مکمل تفصیلات کے ساتھ شریک ہوں محکمہ تعلیم کی جانب سے اس حوالے سے جاری کیے گئے خط میں کہاگیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کومحکمہ تعلیم کے مختلف ونگز میں غیرقانونی اورخلاف ضابطہ بھرتیوں کی شکایت ملی ہیں ان بھرتیوں میں قوائد وضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا جس کے بعدوزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ان بھرتیوں کے حوالے سے مکمل تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی محکمہ تعلیم اسکولز ونگ میں کی گئی خلاف ضابطہ بھرتیوں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں مرتب کرچکا ہے جس میں محکمہ تعلیم کے مختلف گریڈز کے کئی افسران کو ان خلاف ضابطہ بھرتیوں کا ذمے دارٹھرایا گیا تھا۔
اس رپورٹ کی بنیاد پرجب متعلقہ افسران کومعطل کیا گیاتو ان میں سے اکثر افسران نے محکمے کے فیصلے پر عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیا، صوبائی محکمہ تعلیم کی رپورٹ میں بھرتیوں کے لیے آفرلیٹر جاری کرنے والے افسران کے نام توشامل کرلیے گئے تاہم یہ آفرلیٹرکس اتھارٹی کے حکم پرجاری کیے جاتے تھے اوران بھرتیوں کااصل ذمے دارکون ہے اس امرکا تعین نہیں کیاگیا اور بظاہر رپورٹ میں بھرتیوں کے اصل ذمے داروں کوبچالیاگیا ہے جبکہ بعض افسران نے رپورٹ میں اپنا نام سامنے آنے کے بعد یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ بھرتیاں انھوں نے کس اتھارٹی کے کہنے پر کی تھیں کئی افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوران تحقیقات انھوں نے متعلقہ اتھارٹی کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم کوکھل کربتا یا تھا تاہم اس کے باوجود تحقیقاتی رپورٹ میں اصل ذمے دارکا نام شامل نہیں کیا گیا۔
یہ اجلاس حکومت سندھ کے حکم پر طلب کیا گیا ہے جس میں محکمہ تعلیم کے تمام ونگز کے ذمے دارافسران کوگزشتہ دورمیں کی گئی خلاف ضابطہ بھرتیوں کے تمام ریکارڈ کے ساتھ طلب کیاگیا ہے، اجلاس کی صدارت صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکریں گے ''ایکسپریس''کومعلوم ہوا ہے کہ اجلاس کے حوالے سے محکمہ تعلیم کی جانب سے ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ ،تمام ریجن کے ڈائریکٹر کالجز،کراچی سمیت تمام ریجن کے ڈائریکٹر اسکولز، ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزسندھ، ڈائریکٹرپائیٹ، بیورو آف کریکولم ، ڈائریکٹرلٹریسی، ڈائریکٹر سیڈا اور ڈائریکٹر اسٹیڈا سمیت دیگرونگز کے افسران کوخطوط جاری کیے گئے ہیں۔
جس میں ان افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ جمعہ کوہونے والے اجلاس میں اپنے اداروں میں کی گئی تمام بھرتیوں کی مکمل تفصیلات کے ساتھ شریک ہوں محکمہ تعلیم کی جانب سے اس حوالے سے جاری کیے گئے خط میں کہاگیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کومحکمہ تعلیم کے مختلف ونگز میں غیرقانونی اورخلاف ضابطہ بھرتیوں کی شکایت ملی ہیں ان بھرتیوں میں قوائد وضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا جس کے بعدوزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ان بھرتیوں کے حوالے سے مکمل تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی محکمہ تعلیم اسکولز ونگ میں کی گئی خلاف ضابطہ بھرتیوں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں مرتب کرچکا ہے جس میں محکمہ تعلیم کے مختلف گریڈز کے کئی افسران کو ان خلاف ضابطہ بھرتیوں کا ذمے دارٹھرایا گیا تھا۔
اس رپورٹ کی بنیاد پرجب متعلقہ افسران کومعطل کیا گیاتو ان میں سے اکثر افسران نے محکمے کے فیصلے پر عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیا، صوبائی محکمہ تعلیم کی رپورٹ میں بھرتیوں کے لیے آفرلیٹر جاری کرنے والے افسران کے نام توشامل کرلیے گئے تاہم یہ آفرلیٹرکس اتھارٹی کے حکم پرجاری کیے جاتے تھے اوران بھرتیوں کااصل ذمے دارکون ہے اس امرکا تعین نہیں کیاگیا اور بظاہر رپورٹ میں بھرتیوں کے اصل ذمے داروں کوبچالیاگیا ہے جبکہ بعض افسران نے رپورٹ میں اپنا نام سامنے آنے کے بعد یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ بھرتیاں انھوں نے کس اتھارٹی کے کہنے پر کی تھیں کئی افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوران تحقیقات انھوں نے متعلقہ اتھارٹی کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم کوکھل کربتا یا تھا تاہم اس کے باوجود تحقیقاتی رپورٹ میں اصل ذمے دارکا نام شامل نہیں کیا گیا۔