پاکستان کے ورلڈکپ پلان پرسوالیہ نشان

بیٹنگ اور بولنگ میں تجربات کا دور ختم نہ ہوا۔


Abbas Raza January 20, 2019
بیٹنگ اور بولنگ میں تجربات کا دور ختم نہ ہوا۔ فوٹو: فائل

کارکردگی میں تسلسل کا فقدان پاکستانی بیٹنگ کی پہچان بن چکی، ماضی میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ میں مسائل سامنے آتے تھے، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب متحدہ عرب امارات کی سازگار کنڈیشنز میں بھی بیٹسمین ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے نظر نہیں آئے۔

سرفراز احمد کی قیادت میں غیر متوقع شکستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یواے ای کے میدان بھی اب پاکستان کا محفوظ قلعہ نہیں رہے، ون ڈے کرکٹ میں چیمپئنز ٹرافی فتح کے دوران بھی ٹیم ابتدا میں بیٹنگ کی کارکردگی میں عدم تسلسل سے پریشان رہی،اہم میچز میں چند اچھی اننگز نے ٹائٹل کا حصول ممکن بنادیا،ٹیسٹ اور ون ڈے کی بانسبت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بیٹنگ پلان کمزور اور شراکتیں بڑی نہ ہونے کے باوجود کام چل جاتا ہے،اسی لئے مختصر فارمیٹ میں پاکستان نمبر ون ہے۔

پی ایس ایل کی وجہ سے پاکستان کو میسر آنے والا ٹیلنٹ ٹی ٹوئنٹی میں تو کسی طور اپنی افادیت ثابت کردیتا ہے لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ کا تجربہ بہت کم ہونے کی وجہ سے ون ڈے اور خاص طور پر ٹیسٹ فارمیٹ سے مطابقت پیش کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

انضمام الحق کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی کی بھی انوکھی ترجیحات ہیں، ڈومیسٹک مقابلوں میں پرفارم کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں جن کو موقع ملتا ہے، وہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں حریف ٹیموں کے دباؤ کا سامنا کرنے کیلئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار نہیں ہوتے،نتیجہ ٹاپ سے لوئر آرڈر تک بار بار ناکام تجربات کئے جاتے ہیں،بیٹنگ ناکام ہوتی ہے تو اگلی سیریز میں خامیوں پر قابو پانے کی دعوے کئے جاتے ہیں لیکن کارکردگی میں تسلسل کی بیماری جان نہیں چھوڑتی۔

جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز کئی سوالیہ نشان چھوڑ کرگئی،ستمبر میں سری لنکا کے خلاف سیریز سے قبل پاکستان کو طویل فارمیٹ کا کوئی میچ نہیں کھیلنا،اس لئے فی الحال تمام تر توجہ انگلینڈ میں شیڈول ورلڈکپ پر مرکوز ہوگی، دیگر ملکوں میںٹورز کے دوران سلیکٹرز کے قومی ٹیموں کے پاس جانے کی روایت نہیں لیکن پاکستان کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ میگاایونٹ کیلئے ممکنہ کھلاڑیوں اور پلان پر بات چیت کیلئے جنوبی افریقہ پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان کے پاس دستیاب پول اتنا بڑا نہیں کہ ورلڈکپ سے قبل کوئی بڑی تبدیلیاں ہوں،اگر چند کرکٹرز بیک اپ میں موجود ہیں تو ان کی آزمائش کا اچھا وقت متحدہ عرب امارات میں تھا لیکن وہاں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی،جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شان مسعود کو ون ڈے سیریز کیلئے بھی منتخب کیا گیا۔

فخرزمان اور امام الحق کے ساتھ تیسرے اوپنر کے طور پر سکواڈ میں شامل کئے جانے والے بیٹسمین کا ورلڈکپ پلان میں اپنی جگہ پکی کرپاتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن غیر مستقل مزاج امام الحق پر دباؤ ضرور بڑھ گیا،شان مسعود کو ٹیسٹ سیریز بھی کھیلنے کا موقع اس لئے مل گیا کہ حارث سہیل گھٹنے کی انجری کے سبب دستیاب نہیں تھے،ان کی پی ایس ایل میں شرکت بھی مشکوک ہوچکی،فارم کا اندازہ کئے بغیر حارث سہیل کو ورلڈکپ کیلئے سکواڈ میں شامل کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔

بہرحال انگلینڈ میں پاکستان کی ٹاپ آرڈر ہمیشہ جدوجہد کرتی ہے، شان مسعود ماضی کی بانسبت تکنیکی طور پر بہتر بیٹسمین نظر آ رہے ہیں، جنوبی افریقہ میں میچز کھلانے سے ون ڈے فارمیٹ میں ان کی صلاحیتوں کا اچھا اندازہ ہوسکتا تھا لیکن پاکستان نے پروٹیز کے خلاف پہلے ون ڈے میں کوئی نیا تجربہ کرنے کی بجائے امام الحق کو ہی برقرار رکھا، انگلینڈ کی کنڈیشنز میں چیمپئنز ٹرافی کے دوران فخرزمان کی کارگردگی شاندار رہی تھی،ورلڈ کپ میں بھی جارح مزاج اوپنر کا کردار اہم ہوگا۔

مختلف کنڈیشنز میں تسلسل کے ساتھ کام کرنے والے بابر اعظم مڈل آرڈر سے اچھی معاونت ملنے پر رن ریٹ برقرار رکھتے ہوئے ٹیم کو بہتر ٹوٹل کی طرف گامزن رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، محمد حفیظ کیریئر کے آغاز سے اب تک کبھی بہترین تو کبھی بدترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں، جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا اور پھر انگلینڈ کے خلاف سیریز میں پرفارمنس ان کے مسقبل کا فیصلہ کرے گی، شعیب ملک کی فارم اور فٹنس ٹیم کیلئے تقویت کا باعث رہی ہے۔

سابق کپتان جونیئرز کی رہنمائی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں،کیریئر کے آخری میگا ایونٹ کو یادگار بنانے کی کوشش کریں گے، ولڈکپ میں بہتر ٹوٹل حاصل کرنے کیلئے سرفرازاحمد کا بہترین کارکردگی دکھانا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کے پاس عماد وسیم، شاداب خان اور فہیم اشرف جیسے آل راؤنڈر موجود ہیں، تاہم تینوں کو بیٹنگ میں موقع کے مطابق ذمہ دارانہ کھیل پیش کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔

پاکستان ٹیم کا گزشتہ چند ون ڈے میچ سب سے بڑا مسئلہ بیٹنگ لائن کا اچانک گھبراہٹ کا شکار ہو جانا ہے، ایک وقت میں لگ رہا ہوتا ہے کہ 300 سے زائد ٹوٹل حاصل کرنا مشکل نہیں، تھوڑے ہی وقفے میں چند اوورز کے دوران تسلسل کے ساتھ وکٹیں گرتی ہیں اور سارا پلان دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، جب پاور ہٹنگ کی ضرورت ہو، بیٹسمین ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پویلین لوٹتے جائیں تو بڑے سکور کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔

پی ایس ایل میں صلاحیتوں کی جھلک دکھانے والے آصف علی ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگاتے نظر آئے لیکن ان کو جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز سے ڈراپ کردیا گیا، چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بقول ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں رہا، سابق کپتان سے اگر پوچھا جائے کہ بابراعظم کے سوا کس نے مسلسل رنز کئے ہیں تو شاید کوئی جواب نہیں دے سکیں گے، آصف علی جس نمبر پر بیٹنگ کیلئے بھیجے جاتے ٹیم کو چھکوں اور چوکوں کی ضرورت ہوتی، اس طرح کی صورتحال میں کسی بیٹسمین کی فی اننگز اوسط کتنی بہتر ہو سکتی ہے اس کااندازہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بخوبی کر سکتے ہیں۔

بہرحال آصف علی کا اعتماد متزلزل کرتے ہوئے سلیکشن کمیٹی نے حسین طلعت کو شامل کیا ہے، ان کی حالیہ فارم یو اے ای کے میدانوں پر نظر آئی تھی، انگلینڈ کی کنڈیشنز میں کیسا پرفارم کرتے ہیں، فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا، ایک سپیشلسٹ بیٹسمین کو ڈراپ کرکے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کیلئے آل راؤنڈرز کی فہرست میں ایک اور اضافہ کرنے کا مقصد سمجھ نہیں آتا،اگر آصف علی کو ڈراپ کیا تھا تو ٹاپ آرڈر میں ان فارم عابد علی کو آزما لیا جاتا لیکن لگتا ہے کہ نوجواب بیٹسمین کی باری ورلڈکپ کے بعد ہی آئے گی۔

پاکستان کا سپن کا شعبہ کو مضبوط نظر آتا ہے، عماد وسیم اور شاداب خان کے ساتھ محمد حفیظ اور شعیب ملک بھی ضرورت پڑنے پر بولنگ کر سکتے ہیں، تاہم پیس بیٹری کی کمزوریاں آشکار ہوئی ہیں، محمد عمر کی پیس کے ساتھ سوئنگ میں بھی واضح کمی آچکی، حسن علی چیمپئنز ٹرافی کی فارم برقرار نہیں رکھ پائے، عثمان شنواری کیریئر کے دوران کئی بار فٹنس مسائل کا شکار رہے ہیں، شاہین شاہ آفریدی کا تجربہ کم لیکن حیران کن کارکردگی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کو مسلسل ون ڈے میچز کھلانے کی ضرورت ہے۔

بیک اپ میں موجود جنید خان کی فارم اور فٹنس پر چیف سلیکٹر خود ہی سوالیہ نشان لگا چکے ہیں، ماضی میں کئی بار اس طرح کے صدمات برداشت کرنے کے بعد کم بیک کرنے والے پیسر بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں زبردست پرفارمنس دے رہے ہیں، ون ڈے کرکٹ میں ناقص کارکردگی کے باوجود ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے والے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے فیورٹ محمد عامر کو ورلڈ کپ پلان سے باہر کردیا جائے تو جنید خان کی اسکواڈ میں جگہ بن سکتی ہے، میر حمزہ اور وقاص مقصود انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ نہیں رکھتے۔

پی ایس ایل میں ایک دو نئے چہرے بھی سامنے آسکتے ہیں،ان کو میگا ایونٹ کیلئے منتخب کرنا بڑے حوصلے کاکام ہوگا، پاکستان کا ناکام تجربات کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا لیکن ورلڈکپ تیاریوں پر سوالیہ نشان کئی موجود ہیں،کمزور مہم جان ڈالنے کیلئے سلیکٹرز اور مینجمنٹ کو بڑی سوچ بچار کے ساتھ اہم فیصلے کرنا ہیں،فی الحال تو بہتری کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں