بے ہنگم ٹریفک اور بائیکرز کا قانون
ہم ٹریفک پولیس، عام شہری اور ملک کے حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن خود قانون کو عزت دینے کےلیے تیار نہیں
ویسے تو قانون پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن چونکہ پاکستان میں ''قانون اندھا ہے'' اس لیے اس حوالے سے کچھ کہنا بھی گویا جرم کے مترادف ہے، خاص کر ٹریفک قوانین پر لکھنا تو صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔ اور بات کی جائے کراچی میں بے ہنگم ٹریفک اور بے لگام بائیکرز کی تو اس کےلیے شہر قائد کی سڑکوں پر کھڑے قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں تک وطن عزیز میں قانون کی پاسداری کا تعلق ہے، تو اس میں کوتاہی نہ صرف عوام کی جانب سے برتی جاتی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت ملک کے تقریباً تمام ادارے ہی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس حوالے سے ہماری تاریخ سانحہ ماڈل ٹاؤن، نقیب اللہ قتل کیس اور حال ہی میں پیش آنے والے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ جیسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ویسے تو پاکستانی شہری اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے ہیں اور جب ریاست انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اس کا حل نکال لیتے ہیں جسے عام اصطلاح میں ''جگاڑ'' یا ''شارٹ کٹ'' کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کون کروائے گا؟ اگر یہ امید قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لگائی جائے تو بے وقوفی ہی ہوگی کیوں کہ وہ تو قانون توڑنے والوں سے نہ صرف سختی سے نمٹے ہیں بلکہ موقع پر ہی سزا سنا دیتے ہیں، اب چاہے وہ ٹریفک توڑنے پر عام شہری سے پیسے بٹورنا ہو یا محض دہشت گردی کے الزام پر بغیر تحقیق شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا۔ بہرحال، ہمارا آج کا اصل موضوع یہ نہیں لہذا اس پر کسی اور موقعے پر لب کشائی کریں گے۔
آج ہم بات کریں گے ٹریفک قوانین کی اور خود کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کریں گے کہ بطور شہری ہم کتنے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں اور ان حادثات میں زیادہ تر غلطیاں موٹرسائیکل سواروں کی ہوتی ہیں، جن کی جلد بازی کے باعث آئے دن حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک کے دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ البتہ سندھ ٹریفک پولیس نے ٹریفک کنٹرول کرنے اور حادثات کو کم کرنے کےلیے بائیکرز سے متعلق اہم اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے شاہراہ فیصل پر بائیکرز کےلیے ایک علیحدہ لین بناکر خود کو اس سے بری الذمہ کرلیا۔
میرا اصل مقصد سندھ ٹریفک پولیس کی جانب سے بنائی گئی اس بائیکرز لائن میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے جو ٹریفک حادثات میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کے دوران گاڑیوں کا ایک دوسری کو غلط طور پر کراس کرنا عام ہے؛ اور یہی حادثات کا سبب بنتا ہے۔ چونکہ موٹرسائیکل سوار ہمیشہ آگ پر سوار رہتے ہیں اس لیے وہ عموماً ہر دوسری گاڑی کو اوورٹیک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے حادثات سے بچنے کی خاطر ان کےلیے ایک الگ لین بنائی گئی تاکہ وہ اس پر چلتے ہوئے دوسروں کو زحمت نہ دیں اور دوسری گاڑیاں بھی بائیکرز کے جابجا کٹ سے محفوظ رہیں۔ لیکن شہریوں نے ٹریفک پولیس کے اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا۔ سچ کہوں تو اس پر عمل نہ کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔
پہلے تو ٹریفک پولیس کی جانب سے کسی قسم کا مانیٹرنگ سسٹم نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے بائیکرز بہ آسانی دوسری لین پر موٹرسائیکل دوڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ بیشتر لوگ اس اقدام سے ناواقف ہیں جس کی وجہ کسی قسم کی آگاہی فراہم نہ کرنا ہے۔ دوسری جانب یہ سب کرنے کےلیے کسی قسم کی تحقیق نہیں کی گئی، بس شاہراہ فیصل پر ایک زرد (یلو) لائن بناکر اس پر 'بائیکرز لین' لکھ دیا گیا اور اس کےلیے آخری ٹریک رکھا گیا جو عموماً پاکستان سمیت دنیا بھر میں ''بس لین'' کےلیے مختص ہوتا ہے۔
میں خود بھی رائیڈر ہوں اور شاہراہ فیصل پر تقریباً روز کا آنا جانا ہے؛ اور میں چاہتے ہوئے بھی اس 'بائیکرز لین' کو فالو نہیں کرپاتا کیوں کہ شاہراہ پر آخری ٹریک اور ''بس لین'' کی وجہ سے جابجا ٹریفک سگنل پر شہری بس اور رکشہ کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وقفے وقفے سے بس اور رکشے اس لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر خراب گاڑیاں بھی اسی لین میں موجود رہتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود ٹریفک پولیس کی گاڑی اور پولیس موبائل بھی ''شکار'' کی تلاش میں اسی لین پر کھڑی رہتی ہیں۔ اب ایسے میں بائیکرز جو ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں، شاہراہ فیصل پر بھی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بار بار رفتار کم کرکے دوسری لین میں جانا پڑتا ہے جس میں پیچھے سے تیزرفتار گاڑی سے ٹکر کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث بائیکرز اس لین کو فالو نہیں کرتے اور دیگر لینز پر دندناتے پھررہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی لین پر پیٹرول پمپس، جابجا دوسرے روڈ کےلیے مڑنے والی تیز رفتار گاڑیاں بھی حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
اس حوالے سے میں نے ایک ٹریفک پولیس افسر سے بھی سوال کیا کہ جب یہ لائن بنائی گئی ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا اور خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان کیوں نہیں کیا جاتا تو انہوں نے بھی میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جس بائیکر کو بھی پکڑیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ اس ٹریک پر بار بار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب ایسے میں ہم کتنوں کا چالان کریں گے کیوں کہ مشکل سے 5 فیصد لوگ ہی اس لین پر چل رہے ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک سندھ ٹریفک پولیس کا یہ اقدام انتہائی احسن ہے لیکن اس کےلیے ''بس لین'' کے بجائے اس کے ساتھ دوسری لین کو مختص کیا جاتا تو انہیں اس میں کامیابی کا زیادہ امکان تھا کیوں کہ اس سے بسیں بھی اپنی لین میں رہتے ہوئے رواں دواں رہتی ہیں اور ایک بائیکرز بھی بغیر کسی روک ٹوک اپنی لائن پر چل رہے ہوتے جب کہ فاسٹ ٹریک کو چھوڑ کر ایک اور ٹریک دیگر تمام گاڑیوں کےلیے بہت ہوتا ہے۔ یوں نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر نہیں ہوتی بلکہ حادثات کے امکانات بھی کم ہوجاتے۔
شاہراہ فیصل پر ہی واپسی والے روڈ پر کارساز کے مقام پر روڈ کا کنارہ کاٹا گیا جس کے باعث بائیک لین، بس لین کے بجائے دوسرے ٹریک پر منتقل ہوگئی جس پر بائیکرز آسانی سے سفر کررہے ہوتے ہیں لیکن یہ ایک کلومیٹر فاصلہ بھی نہیں بنتا۔ تاہم اس سے میری بات درست ثابت ہوتی ہے، اگر ایسے ہی بائیکرز لین کو دوسری لین پر منتقل کردیا جائے تو ٹریفک اور حادثات کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہم تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار حکومتوں اور اداروں کو قرار دے کر خود اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے۔ پاکستانی قوم عدم برداشت کی وجہ سے ٹریفک میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر درگرز کرنے کے بجائے لڑنے لگ جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس، عام شہری اور ملک کے حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن خود قانون کو عزت دینے کےلیے تیار نہیں۔ اگر ہم واقعی ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں کسی عمران خان، آصف زرداری یا نوازشریف کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اور صرف خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ قوانین بنانے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسا قانون بنائیں جس سے شہریوں کےلیے آسانی ہو اور پھر انہیں سختی سے اس پر عمل کےلیے مجبور کیا جائے، وگرنہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جہاں تک وطن عزیز میں قانون کی پاسداری کا تعلق ہے، تو اس میں کوتاہی نہ صرف عوام کی جانب سے برتی جاتی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت ملک کے تقریباً تمام ادارے ہی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس حوالے سے ہماری تاریخ سانحہ ماڈل ٹاؤن، نقیب اللہ قتل کیس اور حال ہی میں پیش آنے والے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ جیسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ویسے تو پاکستانی شہری اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے ہیں اور جب ریاست انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اس کا حل نکال لیتے ہیں جسے عام اصطلاح میں ''جگاڑ'' یا ''شارٹ کٹ'' کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کون کروائے گا؟ اگر یہ امید قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لگائی جائے تو بے وقوفی ہی ہوگی کیوں کہ وہ تو قانون توڑنے والوں سے نہ صرف سختی سے نمٹے ہیں بلکہ موقع پر ہی سزا سنا دیتے ہیں، اب چاہے وہ ٹریفک توڑنے پر عام شہری سے پیسے بٹورنا ہو یا محض دہشت گردی کے الزام پر بغیر تحقیق شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا۔ بہرحال، ہمارا آج کا اصل موضوع یہ نہیں لہذا اس پر کسی اور موقعے پر لب کشائی کریں گے۔
آج ہم بات کریں گے ٹریفک قوانین کی اور خود کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کریں گے کہ بطور شہری ہم کتنے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں اور ان حادثات میں زیادہ تر غلطیاں موٹرسائیکل سواروں کی ہوتی ہیں، جن کی جلد بازی کے باعث آئے دن حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک کے دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ البتہ سندھ ٹریفک پولیس نے ٹریفک کنٹرول کرنے اور حادثات کو کم کرنے کےلیے بائیکرز سے متعلق اہم اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے شاہراہ فیصل پر بائیکرز کےلیے ایک علیحدہ لین بناکر خود کو اس سے بری الذمہ کرلیا۔
میرا اصل مقصد سندھ ٹریفک پولیس کی جانب سے بنائی گئی اس بائیکرز لائن میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے جو ٹریفک حادثات میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کے دوران گاڑیوں کا ایک دوسری کو غلط طور پر کراس کرنا عام ہے؛ اور یہی حادثات کا سبب بنتا ہے۔ چونکہ موٹرسائیکل سوار ہمیشہ آگ پر سوار رہتے ہیں اس لیے وہ عموماً ہر دوسری گاڑی کو اوورٹیک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے حادثات سے بچنے کی خاطر ان کےلیے ایک الگ لین بنائی گئی تاکہ وہ اس پر چلتے ہوئے دوسروں کو زحمت نہ دیں اور دوسری گاڑیاں بھی بائیکرز کے جابجا کٹ سے محفوظ رہیں۔ لیکن شہریوں نے ٹریفک پولیس کے اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا۔ سچ کہوں تو اس پر عمل نہ کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔
پہلے تو ٹریفک پولیس کی جانب سے کسی قسم کا مانیٹرنگ سسٹم نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے بائیکرز بہ آسانی دوسری لین پر موٹرسائیکل دوڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ بیشتر لوگ اس اقدام سے ناواقف ہیں جس کی وجہ کسی قسم کی آگاہی فراہم نہ کرنا ہے۔ دوسری جانب یہ سب کرنے کےلیے کسی قسم کی تحقیق نہیں کی گئی، بس شاہراہ فیصل پر ایک زرد (یلو) لائن بناکر اس پر 'بائیکرز لین' لکھ دیا گیا اور اس کےلیے آخری ٹریک رکھا گیا جو عموماً پاکستان سمیت دنیا بھر میں ''بس لین'' کےلیے مختص ہوتا ہے۔
میں خود بھی رائیڈر ہوں اور شاہراہ فیصل پر تقریباً روز کا آنا جانا ہے؛ اور میں چاہتے ہوئے بھی اس 'بائیکرز لین' کو فالو نہیں کرپاتا کیوں کہ شاہراہ پر آخری ٹریک اور ''بس لین'' کی وجہ سے جابجا ٹریفک سگنل پر شہری بس اور رکشہ کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وقفے وقفے سے بس اور رکشے اس لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر خراب گاڑیاں بھی اسی لین میں موجود رہتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود ٹریفک پولیس کی گاڑی اور پولیس موبائل بھی ''شکار'' کی تلاش میں اسی لین پر کھڑی رہتی ہیں۔ اب ایسے میں بائیکرز جو ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں، شاہراہ فیصل پر بھی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بار بار رفتار کم کرکے دوسری لین میں جانا پڑتا ہے جس میں پیچھے سے تیزرفتار گاڑی سے ٹکر کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث بائیکرز اس لین کو فالو نہیں کرتے اور دیگر لینز پر دندناتے پھررہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی لین پر پیٹرول پمپس، جابجا دوسرے روڈ کےلیے مڑنے والی تیز رفتار گاڑیاں بھی حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
اس حوالے سے میں نے ایک ٹریفک پولیس افسر سے بھی سوال کیا کہ جب یہ لائن بنائی گئی ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا اور خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان کیوں نہیں کیا جاتا تو انہوں نے بھی میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جس بائیکر کو بھی پکڑیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ اس ٹریک پر بار بار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب ایسے میں ہم کتنوں کا چالان کریں گے کیوں کہ مشکل سے 5 فیصد لوگ ہی اس لین پر چل رہے ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک سندھ ٹریفک پولیس کا یہ اقدام انتہائی احسن ہے لیکن اس کےلیے ''بس لین'' کے بجائے اس کے ساتھ دوسری لین کو مختص کیا جاتا تو انہیں اس میں کامیابی کا زیادہ امکان تھا کیوں کہ اس سے بسیں بھی اپنی لین میں رہتے ہوئے رواں دواں رہتی ہیں اور ایک بائیکرز بھی بغیر کسی روک ٹوک اپنی لائن پر چل رہے ہوتے جب کہ فاسٹ ٹریک کو چھوڑ کر ایک اور ٹریک دیگر تمام گاڑیوں کےلیے بہت ہوتا ہے۔ یوں نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر نہیں ہوتی بلکہ حادثات کے امکانات بھی کم ہوجاتے۔
شاہراہ فیصل پر ہی واپسی والے روڈ پر کارساز کے مقام پر روڈ کا کنارہ کاٹا گیا جس کے باعث بائیک لین، بس لین کے بجائے دوسرے ٹریک پر منتقل ہوگئی جس پر بائیکرز آسانی سے سفر کررہے ہوتے ہیں لیکن یہ ایک کلومیٹر فاصلہ بھی نہیں بنتا۔ تاہم اس سے میری بات درست ثابت ہوتی ہے، اگر ایسے ہی بائیکرز لین کو دوسری لین پر منتقل کردیا جائے تو ٹریفک اور حادثات کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہم تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار حکومتوں اور اداروں کو قرار دے کر خود اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے۔ پاکستانی قوم عدم برداشت کی وجہ سے ٹریفک میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر درگرز کرنے کے بجائے لڑنے لگ جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس، عام شہری اور ملک کے حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن خود قانون کو عزت دینے کےلیے تیار نہیں۔ اگر ہم واقعی ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں کسی عمران خان، آصف زرداری یا نوازشریف کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اور صرف خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ قوانین بنانے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسا قانون بنائیں جس سے شہریوں کےلیے آسانی ہو اور پھر انہیں سختی سے اس پر عمل کےلیے مجبور کیا جائے، وگرنہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔