سانحہ ساہیوال… شفاف تحقیقات کی ضرورت
ساہیوال میں ہونے والے سانحے نے پولیس کی کارکردگی اورمقابلے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کئی سوالات پیداکردیے ہیں۔
پنجاب کے شہر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی پولیس (اینٹی ٹیررسٹ ڈیپارٹمنٹ) کی ایک کار پر فائرنگ سے لاہور کے رہائشی میاں بیوی اور ان کی بیٹی سمیت چار افراد جاں بحق ہوگئے، گاڑی میں موجود ایک بچہ زخمی ہوا جب کہ 2 معصوم بچے بچ گئے۔ اس سانحہ کے بارے میں پولیس کا جو موقف سامنے آیا ہے، اس کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق دہشتگرد تنظیم سے تھا اور یہ سانحہ فیصل آباد واقعے کا تسلسل تھا۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے، اطلاعات کے مطابق اس مشکوک مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو پولیس نے حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیرصدارت اتوار کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں اس سانحے کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
ساہیوال سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پولیس کا جو موقف سامنے آیا ہے، وہ بھی تضادات سے بھرپور ہے۔ ساہیوال میں ہونے والے اس سانحے نے پولیس کی کارکردگی اور مقابلے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پولیس لاہور سے مطلوبہ افراد کا پیچھا کر رہی تھی تو پھر ساہیوال کے علاقہ میں جا کر یہ واقعہ کیوں رونما ہوا، اگر مبینہ دہشتگردوں کے بارے میں کوئی اطلاع تھی تو ساہیوال پولیس اس سے بے خبر کیوں تھی۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پنجاب حکومت اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائے تاکہ اصل محرکات کا پتہ چل سکے، پنجاب میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سخت تشویش ہے، پولیس نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ساہیوال میں ایک خاندان کے پولیس کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
خبروں کے مطابق آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او ساہیوال اور سی ٹی ڈی پنجاب سے انکوائری رپورٹ طلب کی تھی جس پر سی ٹی ڈی پنجاب نے اس سانحے کی ابتدائی رپورٹ آئی جی پنجاب کو پیش کر دی، سی ٹی ڈی کی اس رپورٹ میں ہلاک شدگان کو کالعدم تنظیم داعش کے دہشتگرد قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ساہیوال میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشتگرد ہلاک ہو گئے اور ان کے قبضے سے خود کش جیکٹیں، ہینڈ گرنیڈز اور دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا گیا۔ آئی جی پنجاب کو بتایا گیا کہ دہشتگرد پولیس چیکنگ سے بچنے کے لیے اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی ٹیم نے کار اور موٹر سائیکل پر سوار دہشتگردوں کو روکا تو انھوں نے فائرنگ شروع کر دی جس پر سی ٹی ڈی ٹیم نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی کارروائی کی، سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاں بحق ہونے والے اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے، ان کے تین ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے جن میں دہشتگرد شاہد جبار، عبد الرحمان اور ایک نامعلوم شخص شامل ہیں جن کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔
سی ٹی ڈی ذرایع کا کہنا ہے کہ مذکورہ دہشتگرد امریکن شہری وارن وائن سٹائن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث تھے۔یہ ساری کہانی روایتی پولیس کہانی لگتی ہے۔میڈیا میں جو کچھ سامنے آرہا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ کار سوار نہتے تھے اور انھوں نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور ان کے ساتھ بھی کوئی نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے رابطہ کیا اور ان سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ حقائق تک پہنچنے کے لیے واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرائی جائے۔
بلاشبہ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کے پیش نظر پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اب تک ہونے والی مختلف کارروائیوں اور آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد گرفتار اور ہلاک ہو چکے ہیں مگر ساہیوال میں ہونے والے اس افسوس ناک سانحے نے پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی کارروائی اور کارکردگی کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اگر بالفرض پولیس کی اطلاع کے مطابق کار میں کوئی دہشتگرد بھی موجود تھا تو اسے گرفتار کرنے کے مختلف آپشنز موجود تھے۔ پولیس اور دیگر اہلکار گاڑی کا مسلسل تعاقب کرتے اور مطلوبہ افراد کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھتے اور اس جگہ پہنچنے دیتے جو ان کی منزل تھا، اگر ان کی کوئی حرکت مشکوک معلوم ہوتی تو انھیں اس جگہ سے زندہ بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا، اگر مقابلہ بھی ہوتا تو کم از کم معصوم بچی اور اس کی ماں بچ جاتی۔
دوسری صورت یہ بھی تھی کہ اگر ساہیوال میں گاڑی کو روکا گیا تھا تو مطلوبہ افراد کو زندہ گرفتار کیا جاتا، ان سے تفتیش کی جاتی اور عدالت میں پیش کر کے قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی کیونکہ سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، ان میں مقتولین نہتے ہی نظر آتے ہیں، لہذا کسی قسم کے ان کاونٹر کی گنجائش نہیں بنتی۔
اس واقعے کی تحقیقات کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آئے گی لیکن اگر امریکا یا یورپ میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کی کوئی اطلاع ملتی تو وہاں کے قانون کے مطابق ان کا تعاقب کیا جاتا اور ان کی تمام حرکات وسکنات کا جائزہ لیا جاتا اور ٹھوس شواہد ملنے کے بعد انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی پولیس اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی اسی جدید انداز میں تربیت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح کے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے، اطلاعات کے مطابق اس مشکوک مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو پولیس نے حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیرصدارت اتوار کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں اس سانحے کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
ساہیوال سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پولیس کا جو موقف سامنے آیا ہے، وہ بھی تضادات سے بھرپور ہے۔ ساہیوال میں ہونے والے اس سانحے نے پولیس کی کارکردگی اور مقابلے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پولیس لاہور سے مطلوبہ افراد کا پیچھا کر رہی تھی تو پھر ساہیوال کے علاقہ میں جا کر یہ واقعہ کیوں رونما ہوا، اگر مبینہ دہشتگردوں کے بارے میں کوئی اطلاع تھی تو ساہیوال پولیس اس سے بے خبر کیوں تھی۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پنجاب حکومت اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائے تاکہ اصل محرکات کا پتہ چل سکے، پنجاب میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سخت تشویش ہے، پولیس نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ساہیوال میں ایک خاندان کے پولیس کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
خبروں کے مطابق آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او ساہیوال اور سی ٹی ڈی پنجاب سے انکوائری رپورٹ طلب کی تھی جس پر سی ٹی ڈی پنجاب نے اس سانحے کی ابتدائی رپورٹ آئی جی پنجاب کو پیش کر دی، سی ٹی ڈی کی اس رپورٹ میں ہلاک شدگان کو کالعدم تنظیم داعش کے دہشتگرد قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ساہیوال میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشتگرد ہلاک ہو گئے اور ان کے قبضے سے خود کش جیکٹیں، ہینڈ گرنیڈز اور دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا گیا۔ آئی جی پنجاب کو بتایا گیا کہ دہشتگرد پولیس چیکنگ سے بچنے کے لیے اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی ٹیم نے کار اور موٹر سائیکل پر سوار دہشتگردوں کو روکا تو انھوں نے فائرنگ شروع کر دی جس پر سی ٹی ڈی ٹیم نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی کارروائی کی، سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاں بحق ہونے والے اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے، ان کے تین ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے جن میں دہشتگرد شاہد جبار، عبد الرحمان اور ایک نامعلوم شخص شامل ہیں جن کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔
سی ٹی ڈی ذرایع کا کہنا ہے کہ مذکورہ دہشتگرد امریکن شہری وارن وائن سٹائن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث تھے۔یہ ساری کہانی روایتی پولیس کہانی لگتی ہے۔میڈیا میں جو کچھ سامنے آرہا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ کار سوار نہتے تھے اور انھوں نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور ان کے ساتھ بھی کوئی نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے رابطہ کیا اور ان سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ حقائق تک پہنچنے کے لیے واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرائی جائے۔
بلاشبہ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کے پیش نظر پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اب تک ہونے والی مختلف کارروائیوں اور آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد گرفتار اور ہلاک ہو چکے ہیں مگر ساہیوال میں ہونے والے اس افسوس ناک سانحے نے پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی کارروائی اور کارکردگی کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اگر بالفرض پولیس کی اطلاع کے مطابق کار میں کوئی دہشتگرد بھی موجود تھا تو اسے گرفتار کرنے کے مختلف آپشنز موجود تھے۔ پولیس اور دیگر اہلکار گاڑی کا مسلسل تعاقب کرتے اور مطلوبہ افراد کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھتے اور اس جگہ پہنچنے دیتے جو ان کی منزل تھا، اگر ان کی کوئی حرکت مشکوک معلوم ہوتی تو انھیں اس جگہ سے زندہ بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا، اگر مقابلہ بھی ہوتا تو کم از کم معصوم بچی اور اس کی ماں بچ جاتی۔
دوسری صورت یہ بھی تھی کہ اگر ساہیوال میں گاڑی کو روکا گیا تھا تو مطلوبہ افراد کو زندہ گرفتار کیا جاتا، ان سے تفتیش کی جاتی اور عدالت میں پیش کر کے قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی کیونکہ سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، ان میں مقتولین نہتے ہی نظر آتے ہیں، لہذا کسی قسم کے ان کاونٹر کی گنجائش نہیں بنتی۔
اس واقعے کی تحقیقات کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آئے گی لیکن اگر امریکا یا یورپ میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کی کوئی اطلاع ملتی تو وہاں کے قانون کے مطابق ان کا تعاقب کیا جاتا اور ان کی تمام حرکات وسکنات کا جائزہ لیا جاتا اور ٹھوس شواہد ملنے کے بعد انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی پولیس اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی اسی جدید انداز میں تربیت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح کے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔