انقلاب اور رد انقلاب

آج نہیں توکل یہاں بھی ضرور انقلاب برپا ہوکر رہے گا۔

zb0322-2284142@gmail.com

آج کل عالمی صورتحال ، انقلاب اور رد انقلاب کی صورتحال سے گذر رہی ہے ۔ ایک جانب تو فرانس ، جرمنی ، امریکا، برطانیہ ، ہندوستان اور چین سمیت دائیں بازو مسلط ہے، جو ہر سطح پر عوام کا خون نچوڑ رہا ہے۔ امریکا میکسیکوکی سرحد پر باڑ لگانے کی کوششوں میں جتا ہوا ہے۔

اسکینڈینوین ممالک پر نسل پرست مسلط ہیں، برطانیہ میں مزدور دشمن حکومت قائم ہے ، فرانس کی حکومت عوام پر جبرکر رہی ہے، جرمنی میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، ہندوستان میں تنگ نظر رجعتی حکومت عوام پر مسلط ہے جب کہ چین میں ارب پتیوں کی حکومت ہے اور بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ یمن پر سعودی امریکی اتحاد بمباری کر رہا ہے۔

شام پر امریکا کی بجائے اب ترکی حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے ۔ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اورامریکا قتل وغارت گری میں مصروف ہے ۔ اس بد ترین صورتحال میں صرف تاریکی نہیں بلکہ اجالے بھی جا بجا نظر آرہے ہیں ۔ مثال کے طور پر میکسیکو میں بائیں بازوکا صدر منتخب ہوا ہے۔ میکسیکوکی سرحد پر دیوار تعمیرکر نے کے لیے پانچ ارب ڈالرکی منظوری کے خلاف کانگریس نے ووٹ ڈال کر فی الحال ٹرمپ کا منصوبہ ناکام بنا دیا ۔

ادھر میکسیکو کے صدر نے امریکا کوکہا ہے کہ آپ دیوار بھلے قائم کریں اس کے عوض ہمیں ٹیکساس لوٹا دیں ۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا ۔ لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کوربون آیندہ انتخابات میں جیتنے کے درپے ہیں ۔ سوئیٹزر لینڈ میں عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پہ نکل آئے ہیں ۔ جرمنی کے محنت کش گاہے بہ گاہے اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے کرتے رہتے ہیں ۔

چند برس قبل ہندوستان کے سترہ کروڑ مزدوروں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کی ۔ ستمبر 2017 ء سے فروری 2018 تک چین کے محنت کشوں نے 900 سے زیادہ دھرنے،کام کی جگہ پہ ناکہ بندی اور مظاہرے کیے۔ 2015ء سے 2017 کے دوران 6694 ہڑتالیں رپورٹ ہوئیں ، جن میں تمام شعبوں کے مزدور شامل تھے ۔ فرانس انقلابوں کی ماں کہلاتا ہے ۔ 1789، 1793، 1848، 1871، 1968 اور اب 2018ء میں مسلسل سات ہفتوں سے سات ہڑتالیں ہوئیں ۔ دنیا میں ہڑتالیں مسلسل ہوتی ہیں ، یہاں تک کہ جنوبی کوریا میں تقریبا ایک دہائی قبل چار ماہ تک ہڑتال ہوئی ۔

سیکیورٹی پریس کراچی میں 105روزکی کامیاب ہڑتال ہوئی، لیکن مسلسل ہر ہفتے فرانس کے لاکھوں عوام کا سڑکوں پہ امنڈ آنا ایک انوکھا تجربہ ہے ۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں کمی کی جائے، ہیلتھ کیئرکو بہتر کیا جا ئے، ٹیکس کم کیا جائے، پینشن میں اضافہ کیا جائے اور تعلیم کے شعبے میں بجٹ کا اضافہ کیا جائے۔ اس مظاہرے میں مظاہرین نے پیٹرول بم کا استعمال کیا، پتھرائواور ڈنڈوں کا بھی استعمال کیا ، متعدد جگہوں پہ آگ لگائی ۔


سیکڑوں مظاہرین کی گرفتاریاں ہوئیں ، ہلاکتیں ہوئیں اور زخمی ہوئے۔ اس ہڑتال کی خصوصیت یہ ہے کہ کوئی جماعت ہے اور نہ کوئی لیڈر ۔ حکومت خود پریشان ہے کہ بات کریں توکس سے ۔ سوڈان میں چھوٹے ٹائونوں میں روٹی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہوئے، واضح رہے کہ 1989ء میں جنرل عمر حسن البشیر نے فوجی بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا جو اب تک اقتدار پر براجمان ہیں ۔

یہ مظاہرہ حکومت کے خاتمے کے مطالبے تک پہنچ گیا ، مظاہرین کا نعرہ ہے کہ ''ہمیں آزادی، انصاف اور امن چاہیے'' مظاہرین نے حکمران جماعت نیشنل کانگریس کے مرکزی دفتر پر آگ لگا دی ، ان مظاہروں میں اب تک 37 افراد جان سے جاتے رہے ۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف ہو یا نوکر شاہی ان سب کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ اسپین کے صوبہ کیٹالونیہ میں عوام نے ازخود خودمختاری کے لیے ریفرنڈم کروائے۔

92 فیصد عوام نے خود مختاری کے حق میں ووٹ ڈالے لیکن میڈرڈ کی سپریم کورٹ نے آزادی دینے سے انکارکردیا اور عوامی فیصلے کو مسترد کردیا ۔اس کے خلاف ان دنوں بارسلونا میں عوام کا سمندر امنڈ آیا ، وہ عوامی ریفرنڈم کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فرانس کی ہڑتالوں سے متاثر ہوکر برسلز اور یورپ کے متعدد شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور وہ اردن اورسوڈان تک جا پہنچے۔

اردن ، جہاں بادشاہت ہے وہاں بھی عوام حکومت کی جانب سے بلا جواز ٹیکس عاید کرنے کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے اور ان پر عائد کیے گئے ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مغربی افریقی ملک تیونس میں وراثت میں خواتین کو برابر کا حق دینے کا قانون منظور ہونے پر لا کھوں عوام خوشی کا اظہارکرنے کے لیے سڑکوں پہ نکل آئے۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری بحران کا شکار ہے اور ترقی کے جن کو اب سنبھالے نہیں سنبھالا جا رہا ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، افلاس بھوک ، جہالت اور خود کشیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

ایک جانب دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد ہیں جب کہ اسی دنیا میں صرف بھوک سے روزانہ ایک لاکھ آدمی اپنی جان گنوا رہے ہیں۔ان حالات سے تنگ آکر عوام بغاوتیںکریں گے اور بار بار بغاوت سے انقلاب برپا ہوتا ہے اور پھر یہ امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج کی جانب رخ کرتا ہے ۔ ان حالات کے مد نظر اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ جس طرح غلامی اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوا ، اسی طرح سرمایہ داری کا بھی خاتمہ باالخیر ہوگا ۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ ، چین، فرانس، انڈیا اور جنوبی امریکا میں جس طرح کی کمیونسٹ تحریک چل پڑی ہے اب یہ رکے گی نہیں ، اس لیے کہ عوام تنگ آچکے ہیں ، بقول شیخ سعدی '' تنگ آمد بجنگ آمد'' پاکستان میں بھی جگہ جگہ عوام کی تحریکیں ابھر رہی ہیں ۔ بلوچستان کے محنت کش، خیبر پختون خوا کے نوجوان ، گلگت بلتستان کے عوام ،کراچی کے مزدور، پنجاب اور اندرون سندھ کے کسان اپنے مسائل کے لیے سڑکوں پہ آ رہے ہیں، اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ آج نہیں توکل یہاں بھی ضرور انقلاب برپا ہوکر رہے گا۔آئیے! اس بات کا عہد کریں کہ کل کے آنے والے انقلاب کی تیاری کریں اورکمرکس لیں ۔ مستقبل محنت کشوں کا ہے اور سرمایہ داروں و جاگیرداروں کی موت ہے۔
Load Next Story