دھنک پر قدم
انھیں جیسے تضادات امریکا میں نظر آئے ویسے اور کہیں نہیں دیکھے۔
بیگم اختر ریاض الدین انگریزی ادب پڑھاتی ہیں، شہرت اردو ادب میں ملی۔ سفر نامے لکھے، بہت پسند کیے گئے۔ اسلوب کی تعریفیں ہوئیں۔ مولانا صلاح الدین لکھتے ہیں۔ ''ان کے طرز بیان میں ایک ماہرانہ گرفت اور ایک فنکارانہ آراستگی اپنے عروج پر نظر آتی ہے اور وہ ہلکا ہلکا مزاح جو ان کی نگارش گوہریں میں ایک سلکِ ریشمیں کی طرح بل کھاتا چلا جاتا ہے اس کی سب سے دلکش خصوصیت کا امتیاز رکھتا ہے۔ پھر وہ جس بے ساختگی اور بے تکلفی سے آپ کو جاپان کے خیابانوں اور گیشاخانوں، صنعت و تجارت کے ہنگامہ زاروں اور تعلیم و تربیت کے دبستانوں کی سیر کراتی ہیں، اسی خوبی سے آپ کا ہاتھ تھام کر روس کے برفستانوں اور عجائب خانوں اور مقبروں اور زیارت گاہوں میں لیے پھرتی ہیں۔''
اختر ریاض الدین کے سفرنامے ''دھنک پر قدم'' میں جو اب سے کوئی ساٹھ سال پہلے شایع ہوا تھا، چھ مقامات کی سیر کا بیان ہے۔ ان میں ایک سفر جزائر ہوائی کا تھا۔ لکھتی ہیں ''جزائر ہوائی، مٹی کی ننھی ننھی بوندوں کی طرح پچھلے چالیس ہزار سال سے بے کراں سمندر میں کئی دفعہ ابھرے اور کئی دفعہ ڈوبے، لیکن شاباش ہے وقت کو! اس کا صبر، اس کا ظرف غیر محدود ہے۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا اور یہ نامعلوم جزیرے جن کے سینے میں آگ اور جن کی سطح پر جزگیاہ کچھ نہ تھا، بتدریج اوراق ہستی پر اہمیت اختیار کرتے گئے۔''
ہوائی سات جزیروں پر مشتمل ہے۔ ایک جزیرہ اوواہو اس لیے مشہور ہے کہ اس کا مرکز ہنولولو ہے۔ اختر ریاض احمد لکھتی ہیں ''اگر کوئی مجھ سے ایک لفظ میں ان جزائر کی صفت بیان کرنے کو کہے تو میں کہوں گی، ملائم۔ ان کے باشندے ملیح و ملائم، ان کی زبان نرم و شیریں، ان کے گیت، ان کے رقص، ہلکے پھلکے۔ ان کی ساری کائناتی اور معاشرتی فضا سہل قدم۔ ان جزائر میں اونچی آواز سے بولنے کو جی نہیں چاہتا کہ کہیں ان کی ہم آہنگی چٹخ نہ جائے ۔کرخت لہجہ یا درشت الفاظ میں وہ انجان دہقان معلوم ہوں گے۔
یہ جزائر صرف مہر و محبت کے لیے تھے۔ ان کی خونیں اور تیرہ بخت تاریخ سے قطع نظر یہ آبی سلطنت انسان کو انسانیت کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں کوئی موسم کی بات نہیں کرتا کیونکہ ضرورت ہی نہیں۔ گرمی اور سردی کے درجہ حرارت میں صرف دو ڈگری کا فرق ہے۔ میرے لیے اس جزیرے کی سب سے بڑی خوبی اس کی آزادی تھی، ایک روحانی و ذہنی آزادی۔ یہاں نہ کوئی بیگم جانے، نہ مادام ۔ کسی کو آپ کے نام سے واسطہ نہیں۔ سب اپنی اپنی تفریح اپنی اپنی تفتیش میں مست۔ یہاں عمر کا فرق اور ذات پات کا امتیاز مٹ جاتا ہے۔''
بیگم اختر ریاض الدین لندن کے سفرکا ذکرکرتی ہیں۔ کہتی ہیں ''لندن! یہ کیا شے ہے! یہ پیچیدہ پراسرار سحر! یہ کالونسی دھواں مارا۔ بارش زدہ نیم تاریک شہر! بہ خوبی معاشرت کا دھڑکتا دل! اس کے فنون کی آن و عصمت۔ اس لندن کو کن الفاظ میں بیان کروں؟ اس کے ساتھ میری بچپن سے ہزاروں یادیں وابستہ ہیں۔''
اختر بتاتی ہیں کہ لندن سے ان کی ملاقات تین بار ہوئی۔ پہلی دفعہ محض ایک سیاح کی حیثیت سے، دوسری مرتبہ ایک مانوس شہری کی مانند اور آخری بار ایک عاشق دیرینہ کی طرح ۔ پہلی دفعہ لندن میں صرف آٹھ دن قیام رہا۔ اس دوران میں وہ سب دیکھا جو سب دیکھتے ہیں، ٹاور آف لندن کا کوہ نور ہیرا ، ٹرافیلگر اسکائر، سینٹ پال گرجا گھر، تھیٹر۔ دوسری بار جب اختر کے میاں، ریاض الدین صاحب امپریل ڈیفنس کالج کے کورس پر لندن گئے تو یہ ان کے ساتھ ایک سال وہیں رہیں۔ لکھتی ہیں ''یہ پورا سال میری زندگی کا سب سے یادگار سال ہے۔''
تیسری بار جب بیگم اختر ریاض الدین لندن گئیں تو لندن تو وہی تھا لیکن وہ بدلی ہوئی تھیں۔ یہ ستمبر 1946 کا زمانہ تھا جب جنگ نے دل و دماغ ماؤف کردیے تھے۔
ایک مرتبہ امریکا میں قیام کے دوران انھوں نے میک کو جانے کا پروگرام بنایا۔ یہ شہر انھیں اتنا اچھا لگا کہ دوبارہ جانے کی شدید تمنا رہی۔ لکھتی ہیں ''امریکا کی امارت اور سرد مہری کے بعد میکسیکو اور بھی مانوس اور نیم مشرقی معلوم ہوا۔ پھر اس کی فضا۔ زندگی کی رفتار امریکا سے کس قدر مختلف۔ یہاں سڑکوں پر لوگ چل رہے تھے، بھاگ نہیں رہے تھے۔ خوب گھومنے کے بعد شہر کا نقشہ بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا۔ یہ شہر جتنا بڑا ہے اتنا ہی ایک سیاح کے لیے آسان بھی ہے۔ جب تک کوئی مہا بدھو نہ ہو یہاں کھویا نہیں جاتا۔ بہت کم شہروں کی ترتیب میں تاریخ نے اتنا موثر حصہ لیا ہے۔'' اختر ریاض الدین کو لندن اور پیرس کی آوارہ گردی کے بعد اگر کہیں مزہ آیا تو میکسیکو میں۔ ویسے تو شہر میں بہت سے باغ ہیں لیکن چپل تو پیک پارک عوام کو بہت پسند ہے۔ یہ اسی نام کے قلعے اور محل کے اردگرد ہے۔ لکھتی ہیں ''میں نے کتنی شامیں یہاں گزاریں اور اب بھی اکثر شاموں کو بیٹھے بیٹھے میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور وہ پارک یاد آتا ہے۔''
اختر نے اپنے سفرنامے میں سان فرانسسکو کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک شہر نہیں، شخصیت ہے اور اس شخصیت کا مخصوص پہلو انفرادیت ہے۔ امریکا میں شمال سے جنوب تک ایک بیزار کن یکسانیت نظر آتی ہے۔ یہاں ایک تنوع ہے۔ اس کے جغرافیے میں تنوع ، معاشرے میں تنوع، شہری خدوخال میں جدت، باشندوں میں ہمہ گیر اختلاف ۔ یہ امریکا ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس شہر نے امریکا کی لاج رکھ لی ہے۔ یہ جتنا نیویارک کی فضا سے دور ہوتا جاتا ہے اتنا ہی انسانیت کے قریب آتا جاتا ہے۔ انسان کی طرح یہ بھی ایک وقت میں سب کچھ ہے۔ فراخ دل، یہودی صفت، حسین، غلیظ، روشن، تاریک۔
کبھی ہنگامہ خیز، کبھی خاموش۔ بیک وقت تخلیقی اور انحطاطی۔ متعصب مگر پھر بھی روادار۔ اس کی کون تشریح کرے۔ اس شہر کی تاریخ ضعیف ہے، یہ خود جوان ہے۔ یہ اپنے افسانوی گزشتہ ''طلائی تمدن'' کو مڑ مڑ کر دیکھتا ہے۔ خاموشی سے سنیں تو اس کے سمندری ساحلوں کی بلند موجوں میں کئی شور پنہاں ہیں۔ شروع میں آبی پرندوں کے غولوں کا، پھر ازلی باشندوں کے منتروں کا، کبھی برطانیہ کے ''سمندری کتوں'' کا کبھی قدیم مبلغوں کی کلیسائی گھنٹیوں کا۔ اس شہر کا سب سے نرالا راز یہ ہے کہ اس میں بے شمار ننھی پہاڑیاں ہیں اور ہر پہاڑی میں ایک مخصوص علاقہ بسا ہوا ہے۔''
آٹھ برسوں کے درمیان بیگم اختر ریاض الدین نے نیویارک کو تین دفعہ بخوبی دیکھا، پرکھا، برتا۔ لکھتی ہیں ''پہلی دفعہ ہمارا نیویارک سے تعارف کا شگون کچھ نیک نہ نکلا۔ سوائے موسم کے اور کسی نے ساتھ نہ دیا۔ کفایت شعاری کے مدنظر زیر زمین ٹرین سے سفر کیا تو ٹیوب اسٹیشن ایسے معلوم ہوئے گویا تاریک بھیانک زنداں۔ پھر طرح طرح کے نمونے آپ کے پیچھے سیٹی بجاتے اور آوازیں کستے ہیں۔مجھے لندن کی کسی ٹیوب میں ڈر نہ لگا۔ رات گیارہ بجے اکیلی آتی جاتی تھی۔ نیویارک میں میری سٹی گم ہوئی اور توبہ کی آیندہ ٹیکسی لوں گی ۔ نیویارک ایک بے سروپا دیو ہے۔ یہاں پہنچتے ہی انسان بوکھلا جاتا ہے۔ یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔''
اختر ریاض الدین تین دفعہ امریکا میں داخل ہوئیں اور نکلیں۔ اس درآمد برآمد میں انھوں نے امریکا کا ہر دفعہ ایک نیا رخ دیکھا۔ سب ہی ملکوں میں معاشی اور معاشرتی زندگی میں تضاد ہوتے ہیں لیکن انھیں جیسے تضادات امریکا میں نظر آئے ویسے اور کہیں نہیں دیکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ نوع انسان کی تاریخ میں پہلی قوم ہے جس کا بنیادی مسئلہ دولت کی کمی نہیں بلکہ افراط ہے۔ اکثر سیاح اس ملک سے خوشگوار یادیں بھی لاتے ہیں لیکن شخصیات اور ملک کی روش دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اختر ریاض الدین کو ہانگ کانگ جانے کا بھی موقع ملا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ کا ہانگ کانگ پر قبضہ تھا۔ لکھتی ہیں ''تیسرے پہر ہمارا ہوائی جہاز دو چار بادلوں کے جھرمٹ میں اترنا شروع ہوا ۔ جزیرے کے خط و خال ابھرے۔ کہیں کہیں دھوپ کے دھبے کہیں کہیں چھاؤں کی چھائیاں۔ پرسکون پانی، نیا ہوائی اڈہ عین دو پانیوں کے بیچ بنایا گیا ہے۔ جہاز اس طرح پانی کو چیرتا ہوا اترتا ہے گویا آب دوز کشتی ہے۔ کم ازکم اس کے پَر تو ضرور چھینٹے اڑاتے ہوں گے۔ ہوائی اڈہ کشادہ۔ کسٹم افسران، اسگملروں کے باوجود باتمیز اور پھرتیلے۔ ٹیکسی تیز اور سستی۔ مغربی ہوٹل مہنگے، چینی سرائے ٹکے سیر۔ بازار رات کے بارہ بجے تک کھلے ہوئے۔ سڑکوں پر ساری رات رونق، ایک جاندار اور جوشیلا شہر ہے یہ ہانگ کانگ۔ آپ اس سے کبھی بیزار نہیں ہوسکتے۔