میثاق حکمرانی پر مکالمہ

جب بھی اہل دانش یا حکومتی یا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات اسی طرز کی تجویز کو سامنے لاتی ہیں۔

salmanabidpk@gmail.com

کسی بھی معاشرے میں حکمرانی کا نظام اپنے سیاسی، سماجی، جمہوری، آئینی اور انتظامی ارتقائی عمل اورعوامی اور ریاستی مفادکو سامنے رکھ کرخود کو زیادہ موثر، شفافیت و جوابدہی کے ماتحت کرتا ہے۔اسی سوچ اور فکر کے ساتھ سیاسی اور جمہوری نظام عوام میں اپنی سیاسی، اخلاقی، آئینی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ہمارا مسئلہ عوام حکومت اور ریاست کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ اس خلیج نے عملی طورپر ریاست، عوام اور حکومت کے درمیان ایک ایسی بداعتمادی کی فضا قائم کی ہوئی ہے کہ تمام فریقین ٹکراؤ کی سیاست کا شکار ہیں۔

کوئی بھی نظام جامد نہیں ہوتا۔ اس میں نئی نئی تبدیلیوں کی حالات و واقعات اور دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی مدد سے ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے جب بھی نظام میں بہتری کے لیے کوئی نئی بحث سامنے آتی ہے یا کوئی فرد یا ادارہ نئی تجویز کو مباحثہ کے لیے پیش کرتا ہے تو اس پر فوری طور پر دروازہ بند کرنے کے بجائے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مکالمہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مکالمہ کا بنیادی جزو کھلا ذہن ہوتا ہے اور جب تک ہم نئی بحثوں کے لیے اپنے دلوں کو کشادہ نہیں کریں گے تو نیا علم اور نئی طرز کی حکمرانی کے نظام میں تبدیلیوں کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے موجودہ حالات میں بگاڑ کے تناظر میں جو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں پارلیمانی، عدالتی،انتظامی قیادت بشمول فوج اور ایجنسیوں کے درمیان ریاستی و حکومتی امور چلانے کے لیے عملی پالیسی فریم ورک بنانے، باہمی اعتمادکو پیدا کرنے آئین کی حکمرانی و جمہوریت کی مضبوطی کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے اورفریقین کے درمیان مکالمہ کی جو تجویز دی ہے وہ ایک غیر معمولی قدم ہے۔اس تجویز کے پیچھے بنیادی طور پر ہمارے ریاستی اداروں اور حکومتی نظام میں جو ٹکراؤ کی کیفیت یا بری حکمرانی کی جو شکلیں ہیں اس کی واضح اور صاف عکاسی ہوتی ہے۔اس سے قبل یہ تجویز سابق چیرمین سینیٹ رضا ربانی بھی دے چکے ہیں، لیکن ان کی تجویز پر کوئی بڑی پذیرائی جمہوری قوتوں میں نہیں دیکھی جاسکی۔

جب بھی اہل دانش یا حکومتی یا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات اسی طرز کی تجویز کو سامنے لاتی ہیں تو ایک طبقہ اس بحث میں الجھ جاتا ہے کہ ہم بلاوجہ عدلیہ اور فوج کو سیاسی معاملات میں یا تو الجھا رہے ہیں یا ہم ان کو سیاسی نظام میں فریق کے طو رپر شامل کررہے ہیں حالانکہ مسئلہ کسی ایک فریق کا دوسرے فریق پر سیاسی برتری کا نہیں بلکہ عملی طور پر ریاستی و حکومتی نظام کو شفافیت کی طرف لانا ہے۔ کیونکہ آج پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ پر جو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس کا مقابلہ روایتی طرز سے نہیں بلکہ غیر معمولی اقدامات کی مدد سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس ریاستی نظام میں موجودہ بحران اورمشکلات کی اول تو سنگینی کا احساس کرنا ہوگا اور دوئم اس حکمت عملی سے گریز کرنا ہوگا کہ ہم کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ ڈسپرین کی گولی سے کریں۔ پاکستان عملا جس طرز کے بحران کا شکار ہے اس کے لیے ہمارے تمام ریاستی فریقین، اہل دانش اور پارلیمان کو کھلے ذہن کے ساتھ کچھ نئی سوچ اور فکر کو تقویت دینی ہوگی ۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام فریقین ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے مسئلہ کے حل کی طرف پیشرفت کریں۔


سیاسی اورجمہوری پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ ایسا فورم ہوتا ہے جو اس طرح کے مباحث کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔مگر یہاں معاملہ ایک بڑے پارلیمانی بحران کی عکاسی کرتا ہے ۔ پارلیمنٹ عملی طو رپرغیر فعال ہے اور سیاسی فریقین نے اس فورم کو نظام کی بہتری کے بجائے اس میں بگاڑ کا ماحول اور لڑائی کا فورم بنادیا ہے۔ قائد ایوان سمیت کئی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا پارلیمنٹ میں آنا بھی پسند نہیں کرتے اوران کی عدم دلچسپی نے پارلیمانی نظام کو غیر موثر کردیا ہے۔اسی طرح کے سیاسی خلا میں بعض اہم باتیں پارلیمنٹ یا سیاسی قوتوں سے نہیں بلکہ غیر سیاسی لوگوں یا دیگر فریقین کی جانب سے آتی ہیں۔سیاسی فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب وہ اپنی حکمرانی کے نظام کی مدد سے کچھ بہتر بنانے کے بجائے ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کرتے ہیں تو پھر ان کی اہمیت پر بھی سوالیہ نشان لگتے ہیں۔

ماضی میں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن نے جمہوری استحکام کے لیے میثاق جمہوریت کا معاہدہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے دونوں جماعتوں نے اس میثاق جمہوریت کو اپنے اقتدار کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔اگر واقعی یہ دونوں بڑی جماعتیں خلوص کے ساتھ میثاق جمہوریت کے اس معاہدہ کو آگے بڑھاتے اور دیگر سیاسی فریقین کو بھی اس کا حصہ بناتے تو آج ہماری جمہوری سیاست کافی بہتر ہوتی ۔جب سیاسی فریقین عملی طور پر جمہوریت اور سیاست کو محض اپنے اقتدار کے کھیل کا حصہ بنائیں گے تو جمہوری نظام کو موثر بنانے کے لیے جو اصلاحات کا عمل درکار ہوتا ہے وہ غیر موثر ہوجاتا ہے۔جمہوری نظام بنیادی طور پر اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھتا ہے مگر ہم نے اول تو اصلاحات کی نہیں اوراگر کی ہیں تو اس میں سیاسی کمٹمنٹ کا فقدان اور نمائشی عمل زیادہ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اہم بات کی ہے کہ ہمیں سول بالادستی اورجمہوری استحکام کے لیے احتساب کا عمل لازم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں احتساب کے لیے کوئی تیار نہیں۔بداعتمادی کی حالت یہ ہے کہ جن لوگوں کو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑرہا ہے وہ اس عمل کو عدلیہ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گٹھ جوڑ سے جوڑتے ہیں ۔احتساب کو شفاف بنانے کے لیے سیاسی نظام میں ہمیں جو موثر قانون سازی یا ترامیم درکار ہوتی اس سے سیاسی قیادت گریز کرتی ہے۔بلاتفریق احتساب کیسے ممکن ہوگا اس پر سب فریقین خاموش رہ کر نظام کو اور زیادہ آلودہ کرتے ہیں۔اس وقت بھی ہمارا سیاسی نظام اورکرپشن اوربدعنوانی پر مبنی سیاست کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے اور اس میں جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

ایک مسئلہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ملک کو اس وقت ایک بڑے سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر واقعی جمہوری نظام کی بنیاد پر نظام کو چلانا ہے تو اصلاحات کا عمل تیزبھی کرنا ہوگااوراسے موثر اور شفاف بھی بنانا ہوگا۔اس لیے اگر موجودہ نظام میں بگاڑ کے تناظر میں ایک نئے مکالمہ یا نئے مباحثہ کی ضرورت ہے تو اس سے کسی بھی طور پر گریز نہیں کیا جانا چاہیے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے اورہر ادارے کی اپنی وجوہ ہیں اوراب یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ان کے بقول حکومتی معاملات میں فوج اورایجنسیوں کے کردار پر بات چیت بھی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے درست نشاندہی کی ہے۔کیونکہ ہمارے سیاسی نظام میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے مسئلہ رہے ہیں اور اس مسئلہ سے سیاسی نظام میں تعطل بھی پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں جمہوری عمل مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔

مسئلہ محض بڑے بڑے سیاسی اور آئینی سمیت انتظامی مسائل ہی نہیں بلکہ پورا حکمرانی کا نظام جو عوام کے بنیادی حقوق سے جڑا ہے اس میں بڑا بگاڑ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حکمرانی کا نظام عام آدمی سے زیادہ ایک طبقاتی نظام یعنی طاقتور افراد کے ماتحت اوران کے حقوق کو یقینی بنانا جب کہ عام آدمی کے استحصال سے جڑا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو تجویز چیف جسٹس نے دی ہے اس پر واقعی تمام فریقین میں ایک بڑے مکالمہ کی ضرورت ہے۔اس کی ابتدا حکومت کو ہی کرنی ہے اور اگر وزیر اعظم اور صدر ڈاکٹر عارف علوی اس مکالمہ کوتمام فریقین کی مدد سے آگے بڑھائیںتو اس سے اس مکالمہ کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔کیونکہ ہمیں ایک باہمی اتفاق رائے درکا ہے اور تمام فریقین کے درمیان حکمرانی کے نظام میں ایک نئی جہت اور نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ہر فریق کو دوسرے فریق کے موقف کو سمجھ کر نئی حکمت عملی بنانی چاہیے اورایسی حکمت عملی جس پر سب یک آواز ہوسکیں، یہ ہی قومی مفاد ہوگا اوراسے ہی مقدم ہونا چاہیے۔
Load Next Story