حقیقی اور کنٹرولڈ جمہوریت
بنیاد پرستی کی وباء اس شدت سے پھیلی کہ امریکا یورپ سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔
برطانیہ کے ایک جریدے نے دنیا بھر کے ملکوں کا جمہوریت کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔ اس کا اپنی جائزہ رپورٹ میں کہنا ہے کہ دنیا کے صرف 20 ممالک میں مکمل جمہوریت ہے۔
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے تحقیقی انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق دنیا کی صرف ساڑھے چار فیصد آبادی مکمل جمہوریت میں رہتی ہے۔ حالانکہ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے۔ اندازہ کریں کہاں دنیا کی اتنی بڑی آبادی اور کہاں اتنے محدود لوگ جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں اور وہ بھی ہزاروں سال کی جدوجہد کے بعد۔
اس رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا اور یورپ کے کچھ ممالک میں بھی جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جمہوری ممالک میں 112 ویں اور بھارت 41 ویں درجہ پر ہے جب کہ 57 ممالک ایسے ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے تاہم وہ تقریباً جمہوریت کے قریب ہیں۔
39 ممالک کو نیم جمہوریت میں شمار کیا گیا ہے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں۔ سول سوسائٹی اور قانون کی عمل داری بھی کافی کمزور ہے۔ انڈیکس کے مطابق 53 ممالک میں جمہوریت کا ہی وجود نہیں۔ ظاہر ہے 21 ویں صدی میں ہونے کے باوجود یہ وہ ممالک ہیں جہاں بادشاہت اور آمریت ہے یعنی یہ وہ نظام ہیں جو سیکڑوں سال کے تسلسل سے آج بھی جاری ہیں۔ یہ وہ نظام ہیں جہاں فرد واحد خاندان یا محدود گروہ ریاستی اقتدار پر قابض ہے۔
اس کا کہنا ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے الفاظ ہی کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سوچئے زمانہ قدیم میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ آج بھی ان 53 ممالک میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان بے چاروں کے لیے تو زمانہ ٹھہر گیا ہے۔اس تحقیق میں دنیا کے دس بہترین جمہوری ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں ناروے کا نمبر پہلا ہے۔ اس کے بعد آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ بالترتیب ہیں۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کو خطرات کا سامنا ہے۔ یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ ماضی میں جمہوریت کو خطرات کا سامنا تھا لیکن اب یہ خطرات ماضی کی نسبت بڑھ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ ایک طرف ناروے سمیت دنیا کے دس ممالک ہیں جہاں کی آبادی بہترین جمہوریت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ وہ جمہوری نظام جس کے حصول کے لیے بنی نوع انسان نے آگ و خون کا سمندر عبور کیا۔
ایسا نظام جس میں سب لوگ برابر ہوں،کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو۔ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام نہ بنا سکے۔ نظریے کے نام پر، نسل زبان مذہب کے نام پر۔ لیکن آج بھی اتنی قربانیوں کے باوجود دنیا کے چند ملکوں میں صحیح جمہوریت ہے جس سے دنیا کی صرف چند فیصد آبادی مستفید ہو رہی ہے۔ انسان نے زمین پر جس خیالی جنت کا خواب دیکھا تھا یہ اس کی مکمل تو نہیں کسی حد تک عملی شکل ہے۔
لیکن تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ان دس ممالک کی بہترین جمہوریت اور خوش حالی کا دارومدار تیسری دنیا کے غریب پس ماندہ ممالک کے وسائل کی بلاواسطہ یا بالواسطہ لوٹ مار پر ہے۔
حقیقی آئیڈیل جمہوریت تو وہ ہو گی جس میں پوری دنیا کے وسائل مساوی طور پر دنیا کی آبادی پر تقسیم کیے جائیں لیکن اس کا حصول صرف ''عوامی جمہوریت'' سے ممکن ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت سے نہیں جو پاکستان بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔ جس میں پارلیمنٹ میں عوام کے نمایندہ ارب پتی کھرب پتی نہیں بلکہ مزدور محنت کش، لوئر کلاس پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اکانومسٹ کی تجزیاتی تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو درپیش خطرات ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جہاں سامراجی مفادات ہونگے وہاں وہاں حقیقی جمہوریت نہیں ہونے دی جائے گی۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کے خطے کو دیکھ لیں جہاں بادشاہت اور آمریت کے سوا کچھ نہیں۔ سیکڑوں (ہزاروں سال) سے اس خطے کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں۔
سامراجی مفادات کا تقاضا ہے کہ حقیقی جمہوریت قائم نہ ہونے دی جائے تاکہ عوام کا اقتدار قائم نہ ہونے پائے۔ جمہوریت کو خطرات اس لیے بھی بڑھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ عوام کا شعور بھی بلند ہو رہا ہے چنانچہ سامراجی مفادات کے خلاف مزاحمت بھی اسی شدت سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کو ہی دیکھ لیں جہاں بیشتر وقت آمریت رہی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ضیاء الحق دور کے آخر میں کنٹرولڈ جمہوریت کا تجربہ کیا گیا ۔ چنانچہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں دی گئی جو مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ کے وفادار اور آزمائے ہوئے تھے۔یہ سامراجی مفادات ہی ہوتے ہیں جو دہشت گردی تخلیق کرتے ہیں، دہشت گردی دنیا میں پھیلاتے ہیں اور اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
اس دفعہ مذہب کو اس بڑے پیمانے پر (سامراج نے) دہشتگردی کے لیے استعمال کیا کہ امریکا یورپ سمیت پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ملک میں مسلم شدت پسندی کو روکنے کے لیے ہندو بنیاد پرستی کو بی جے پی کی شکل میں ''پروموٹ'' کرنا پڑ گیا۔ چنانچہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت زوال پذیر ہو گئی۔ مشرقی وسطیٰ میں ابھرنے والی شدت پسندی جس کا آغاز ایران سے ہوا اتنی خوفناک تھی کہ پوری دنیا کو اپنی اپنی پڑگئی۔
مذہبی جنونیت کا مقابلہ مذہبی جنونیت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرستی کی وباء اس شدت سے پھیلی کہ امریکا یورپ سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ بھارتی کشمیر میں ظلم و ستم عروج پر ہے لیکن مغرب خاموش تماشائی ہے کیونکہ پاکستان اور اسرائیل کے بعد اب کسی اور کو مذہب کے نام پر ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی ہمارے خطے کی مزید تقسیم جو ابھی ادھوری ہے، نسل زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ہو گی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ مارچ کرے گا جس کا آغاز فروری کے آخر سے ہو جائے گا۔
سیل فون:0346-4527997۔
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے تحقیقی انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق دنیا کی صرف ساڑھے چار فیصد آبادی مکمل جمہوریت میں رہتی ہے۔ حالانکہ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے۔ اندازہ کریں کہاں دنیا کی اتنی بڑی آبادی اور کہاں اتنے محدود لوگ جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں اور وہ بھی ہزاروں سال کی جدوجہد کے بعد۔
اس رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا اور یورپ کے کچھ ممالک میں بھی جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جمہوری ممالک میں 112 ویں اور بھارت 41 ویں درجہ پر ہے جب کہ 57 ممالک ایسے ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے تاہم وہ تقریباً جمہوریت کے قریب ہیں۔
39 ممالک کو نیم جمہوریت میں شمار کیا گیا ہے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں۔ سول سوسائٹی اور قانون کی عمل داری بھی کافی کمزور ہے۔ انڈیکس کے مطابق 53 ممالک میں جمہوریت کا ہی وجود نہیں۔ ظاہر ہے 21 ویں صدی میں ہونے کے باوجود یہ وہ ممالک ہیں جہاں بادشاہت اور آمریت ہے یعنی یہ وہ نظام ہیں جو سیکڑوں سال کے تسلسل سے آج بھی جاری ہیں۔ یہ وہ نظام ہیں جہاں فرد واحد خاندان یا محدود گروہ ریاستی اقتدار پر قابض ہے۔
اس کا کہنا ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے الفاظ ہی کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سوچئے زمانہ قدیم میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ آج بھی ان 53 ممالک میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان بے چاروں کے لیے تو زمانہ ٹھہر گیا ہے۔اس تحقیق میں دنیا کے دس بہترین جمہوری ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں ناروے کا نمبر پہلا ہے۔ اس کے بعد آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ بالترتیب ہیں۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کو خطرات کا سامنا ہے۔ یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ ماضی میں جمہوریت کو خطرات کا سامنا تھا لیکن اب یہ خطرات ماضی کی نسبت بڑھ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ ایک طرف ناروے سمیت دنیا کے دس ممالک ہیں جہاں کی آبادی بہترین جمہوریت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ وہ جمہوری نظام جس کے حصول کے لیے بنی نوع انسان نے آگ و خون کا سمندر عبور کیا۔
ایسا نظام جس میں سب لوگ برابر ہوں،کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو۔ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام نہ بنا سکے۔ نظریے کے نام پر، نسل زبان مذہب کے نام پر۔ لیکن آج بھی اتنی قربانیوں کے باوجود دنیا کے چند ملکوں میں صحیح جمہوریت ہے جس سے دنیا کی صرف چند فیصد آبادی مستفید ہو رہی ہے۔ انسان نے زمین پر جس خیالی جنت کا خواب دیکھا تھا یہ اس کی مکمل تو نہیں کسی حد تک عملی شکل ہے۔
لیکن تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ان دس ممالک کی بہترین جمہوریت اور خوش حالی کا دارومدار تیسری دنیا کے غریب پس ماندہ ممالک کے وسائل کی بلاواسطہ یا بالواسطہ لوٹ مار پر ہے۔
حقیقی آئیڈیل جمہوریت تو وہ ہو گی جس میں پوری دنیا کے وسائل مساوی طور پر دنیا کی آبادی پر تقسیم کیے جائیں لیکن اس کا حصول صرف ''عوامی جمہوریت'' سے ممکن ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت سے نہیں جو پاکستان بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔ جس میں پارلیمنٹ میں عوام کے نمایندہ ارب پتی کھرب پتی نہیں بلکہ مزدور محنت کش، لوئر کلاس پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اکانومسٹ کی تجزیاتی تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو درپیش خطرات ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جہاں سامراجی مفادات ہونگے وہاں وہاں حقیقی جمہوریت نہیں ہونے دی جائے گی۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کے خطے کو دیکھ لیں جہاں بادشاہت اور آمریت کے سوا کچھ نہیں۔ سیکڑوں (ہزاروں سال) سے اس خطے کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں۔
سامراجی مفادات کا تقاضا ہے کہ حقیقی جمہوریت قائم نہ ہونے دی جائے تاکہ عوام کا اقتدار قائم نہ ہونے پائے۔ جمہوریت کو خطرات اس لیے بھی بڑھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ عوام کا شعور بھی بلند ہو رہا ہے چنانچہ سامراجی مفادات کے خلاف مزاحمت بھی اسی شدت سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کو ہی دیکھ لیں جہاں بیشتر وقت آمریت رہی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ضیاء الحق دور کے آخر میں کنٹرولڈ جمہوریت کا تجربہ کیا گیا ۔ چنانچہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں دی گئی جو مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ کے وفادار اور آزمائے ہوئے تھے۔یہ سامراجی مفادات ہی ہوتے ہیں جو دہشت گردی تخلیق کرتے ہیں، دہشت گردی دنیا میں پھیلاتے ہیں اور اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
اس دفعہ مذہب کو اس بڑے پیمانے پر (سامراج نے) دہشتگردی کے لیے استعمال کیا کہ امریکا یورپ سمیت پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ملک میں مسلم شدت پسندی کو روکنے کے لیے ہندو بنیاد پرستی کو بی جے پی کی شکل میں ''پروموٹ'' کرنا پڑ گیا۔ چنانچہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت زوال پذیر ہو گئی۔ مشرقی وسطیٰ میں ابھرنے والی شدت پسندی جس کا آغاز ایران سے ہوا اتنی خوفناک تھی کہ پوری دنیا کو اپنی اپنی پڑگئی۔
مذہبی جنونیت کا مقابلہ مذہبی جنونیت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرستی کی وباء اس شدت سے پھیلی کہ امریکا یورپ سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ بھارتی کشمیر میں ظلم و ستم عروج پر ہے لیکن مغرب خاموش تماشائی ہے کیونکہ پاکستان اور اسرائیل کے بعد اب کسی اور کو مذہب کے نام پر ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی ہمارے خطے کی مزید تقسیم جو ابھی ادھوری ہے، نسل زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ہو گی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ مارچ کرے گا جس کا آغاز فروری کے آخر سے ہو جائے گا۔
سیل فون:0346-4527997۔