پاکستان میں کرکٹ نے ہاکی کو گول کردیا شہباز سینیئر
ہمارا موجودہ کوچنگ سسٹم درست نہیں،سابق سیکرٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سابق سیکرٹری شہباز سینیئر کہتے ہیں کہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران ہاکی ہمارے نوجوانوں میں مقبول نہیں رہی اور اب نوجوان ہاکی کی جگہ کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں شہباز سینیئر کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں اگر کسی بھی کھیل کے لیےجذبہ اور جنون ختم ہوجائے تو اس کا ٹاپ لیول پر رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بچوں کے کرکٹ کی طرف رجحان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کھیل میں آکر مالی طورپر فائدے میں رہیں گے، اگر کوئی اچھا کرکٹر ہے تو وہ ٹیم میں جگہ حاصل نہیں بھی کرتا تو وہ کسی نہ کسی محکمے میں ملازمت حاصل کرلے گا، ملک اور بیرون ملک بہت سی لیگز ہورہی ہیں، وہاں جاکر کھیل لے گا۔ اس کے پاس بہت سے ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں جاکر وہ کھیل سکتا ہے۔
شہباز سینیئر کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہاکی کی بات ہے تو اس کے لیے ملکی ہاکی میں پیسہ نہ ہونے کے برابر ہے، حکومتی فنڈنگ ویسی نہیں جیسی ہونے کی ضرورت ہے، ہاکی فیڈریشن کے پاس کوئی ایسا نظام یا پراپرٹی نہیں، جہاں ایسا سینٹر بناکر تعلیم، خوراک، جم، سوئمنگ پول اور کوچنگ سمیت پلیئرز کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جاسکے۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ جس میں جونیئر لیول سے سینیئر لیول تک کوالیفائیڈ کوچز اور ٹرینرز دستیاب ہوں، تمام کیمپ ایک جگہ پورے سال کے لیے پلان کرسکیں، اس وقت تک رزلٹ ملنا ناممکن ہیں۔ موجودہ صورت حال میں نوجوان ٹیم سے نتائج کی زیادہ امید نہیں رکھنا چاہیے۔
ہاکی اولمپئنز کی جانب سے تنقید کے سوال پر ورلڈ کپ 1994 کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے کپتان کا موقف تھا کہ ہم ایک دوسرے پر اتنا زیادہ کیچڑ اچھالتے ہیں کہ کسی کی عزت نہیں رہتی۔ انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسی ہاکی نے انہیں اس مقام تک پہنچایاہے۔ ہاکی ان کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں، ان کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ اپنی وہ رائے دیں جس سے قومی کھیل کی نیک نامی اور توقیر میں اضافہ ہو۔
یورپین ٹیموں کے سسٹم پر بات کرتے ہوئے شہباز سینیئر نے اس بات کی تائید کی کہ ان کا اور ہمارا سسٹم بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں ہر شہر میں الگ الگ انداز اور طریقہ کار سے ہاکی ہورہی ہے جب کہ گوروں میں ایسا نہیں، وہ ایک ہی طرح کی ہاکی کھیل رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
حکومتی رویے پر نالاں مستعفی ہونے والے سابق سیکریٹری پی ایچ ایف نے گلہ کیا کہ وزرات بین الصوبائی رابطہ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا۔ جس کی وجہ سے تمام تر تنقید ہاکی فیڈریشن کو برداشت کرنا پڑی۔ اس سے ملک نام بدنام ہونے کے ساتھ کھیل کا بھی نقصان ہورہاہے۔ بہت کوشش کی کہ حکومت کو اس بات کا احساس دلائیں کہ ان کی دلچسپی اس جانب بہت ضروری ہے۔ پاکستان ہاکی کو سالانہ 20 کروڑ روپے سے زیادہ کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
شہباز سینیئر نے کہا کہجاپان،بیلجیم، انڈیا، ملائیشیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان ملکوں میں کس طرح ڈویلپمنٹ پر کام کیا۔ ہمیں ان ملکوں سے نصف بجٹ دے دیں، دوسال میں ہاکی کو دوبارہ کھڑا کرسکتےہیں۔ حکومت اگر ہاکی کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے تواس میں وہ ٹیکنوکریٹس لائے جو ان کے لیے نعرے لگانے والے نہ ہوں۔ اولمپئنز کی مشاورت سے ایسی اصلاحات بنائی جائیں جن سے مستقبل میں حالات بہت بہتر ہوسکیں۔ ہمارا موجودہ کوچنگ سسٹم درست نہیں، اب جدید ہاکی میں 2 کوچنگ کورس کرنے سے کام نہیں بنے گا۔ک وچ ایجوکیشن کی طرف پوری توجہ دینا ہوگی،اس کے سب تقاضوں کو اپنانا ہوگا۔جتنے گورے کوچز ہیں وہ کلب لیول سے کوچنگ کرنے کے ساتھ اپنی ایجوکیشن کو بڑھا کر اوپر آتے ہیں۔ ہمیں ان نوجوان کوچز پر فوکس کرنا ہوگا جن میں کوچنگ کی صلاحیت کے ساتھ انگلش میں بھی عبور ہو۔ہمیں کسی ایک کلب، صوبے یا گروپ کے بجائے پاکستان سے پیار کرنے والے نیک نیت لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں شہباز سینیئر کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں اگر کسی بھی کھیل کے لیےجذبہ اور جنون ختم ہوجائے تو اس کا ٹاپ لیول پر رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بچوں کے کرکٹ کی طرف رجحان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کھیل میں آکر مالی طورپر فائدے میں رہیں گے، اگر کوئی اچھا کرکٹر ہے تو وہ ٹیم میں جگہ حاصل نہیں بھی کرتا تو وہ کسی نہ کسی محکمے میں ملازمت حاصل کرلے گا، ملک اور بیرون ملک بہت سی لیگز ہورہی ہیں، وہاں جاکر کھیل لے گا۔ اس کے پاس بہت سے ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں جاکر وہ کھیل سکتا ہے۔
شہباز سینیئر کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہاکی کی بات ہے تو اس کے لیے ملکی ہاکی میں پیسہ نہ ہونے کے برابر ہے، حکومتی فنڈنگ ویسی نہیں جیسی ہونے کی ضرورت ہے، ہاکی فیڈریشن کے پاس کوئی ایسا نظام یا پراپرٹی نہیں، جہاں ایسا سینٹر بناکر تعلیم، خوراک، جم، سوئمنگ پول اور کوچنگ سمیت پلیئرز کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جاسکے۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ جس میں جونیئر لیول سے سینیئر لیول تک کوالیفائیڈ کوچز اور ٹرینرز دستیاب ہوں، تمام کیمپ ایک جگہ پورے سال کے لیے پلان کرسکیں، اس وقت تک رزلٹ ملنا ناممکن ہیں۔ موجودہ صورت حال میں نوجوان ٹیم سے نتائج کی زیادہ امید نہیں رکھنا چاہیے۔
ہاکی اولمپئنز کی جانب سے تنقید کے سوال پر ورلڈ کپ 1994 کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے کپتان کا موقف تھا کہ ہم ایک دوسرے پر اتنا زیادہ کیچڑ اچھالتے ہیں کہ کسی کی عزت نہیں رہتی۔ انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسی ہاکی نے انہیں اس مقام تک پہنچایاہے۔ ہاکی ان کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں، ان کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ اپنی وہ رائے دیں جس سے قومی کھیل کی نیک نامی اور توقیر میں اضافہ ہو۔
یورپین ٹیموں کے سسٹم پر بات کرتے ہوئے شہباز سینیئر نے اس بات کی تائید کی کہ ان کا اور ہمارا سسٹم بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں ہر شہر میں الگ الگ انداز اور طریقہ کار سے ہاکی ہورہی ہے جب کہ گوروں میں ایسا نہیں، وہ ایک ہی طرح کی ہاکی کھیل رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
حکومتی رویے پر نالاں مستعفی ہونے والے سابق سیکریٹری پی ایچ ایف نے گلہ کیا کہ وزرات بین الصوبائی رابطہ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا۔ جس کی وجہ سے تمام تر تنقید ہاکی فیڈریشن کو برداشت کرنا پڑی۔ اس سے ملک نام بدنام ہونے کے ساتھ کھیل کا بھی نقصان ہورہاہے۔ بہت کوشش کی کہ حکومت کو اس بات کا احساس دلائیں کہ ان کی دلچسپی اس جانب بہت ضروری ہے۔ پاکستان ہاکی کو سالانہ 20 کروڑ روپے سے زیادہ کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
شہباز سینیئر نے کہا کہجاپان،بیلجیم، انڈیا، ملائیشیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان ملکوں میں کس طرح ڈویلپمنٹ پر کام کیا۔ ہمیں ان ملکوں سے نصف بجٹ دے دیں، دوسال میں ہاکی کو دوبارہ کھڑا کرسکتےہیں۔ حکومت اگر ہاکی کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے تواس میں وہ ٹیکنوکریٹس لائے جو ان کے لیے نعرے لگانے والے نہ ہوں۔ اولمپئنز کی مشاورت سے ایسی اصلاحات بنائی جائیں جن سے مستقبل میں حالات بہت بہتر ہوسکیں۔ ہمارا موجودہ کوچنگ سسٹم درست نہیں، اب جدید ہاکی میں 2 کوچنگ کورس کرنے سے کام نہیں بنے گا۔ک وچ ایجوکیشن کی طرف پوری توجہ دینا ہوگی،اس کے سب تقاضوں کو اپنانا ہوگا۔جتنے گورے کوچز ہیں وہ کلب لیول سے کوچنگ کرنے کے ساتھ اپنی ایجوکیشن کو بڑھا کر اوپر آتے ہیں۔ ہمیں ان نوجوان کوچز پر فوکس کرنا ہوگا جن میں کوچنگ کی صلاحیت کے ساتھ انگلش میں بھی عبور ہو۔ہمیں کسی ایک کلب، صوبے یا گروپ کے بجائے پاکستان سے پیار کرنے والے نیک نیت لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔