وزیراعظم اس لیے نہیں بنایا جاتا کہ وہ صوابدیدی فنڈز کا بے دریغ استعمال کرے چیف جسٹس

صوابدیدی فنڈز سے بننے والے اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہے، سپریم کورٹ


ویب ڈیسک July 18, 2013
آئین میں کہاں لکھا ہے کہ من پسند افراد کو خوش کرنے کے لئے صوابدیدی فنڈز دیئے جائیں، چیف جسٹس. فوٹو: فائل

صوابدیدی فنڈز کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ کسی کو وزیراعظم کے مسند پر اس لئے نہیں بٹھایا جاتا کہ وہ صوابدیدی فنڈز کا بے دریغ استعمال کرے۔ عوامی پیسہ ضائع ہو رہا ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزیر اعظم کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ نو آبادیاتی نظام میں بادشاہ کو سلام کرنے والو ں کو لفافہ مل جاتا تھا، آج بھی صدر ، گورنر، وزیراعظم اور وزرائے اعلٰی ملاقات کرنے والے ارکان کو ترقیاتی فنڈز کا تحفہ دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازوں کو ترقیاتی فنڈز دینے سے مسائل پیدا ہو ں گے، وزیراعظم کو اس لیے نہیں بٹھایا جاتا کہ وہ اس طرح بے دریغ فنڈز کا استعمال کریں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں ،قومی خزانہ کی اس طرح بندر بانٹ ہو گی تو اس کے لے کھڑا ہونا پڑے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز کا فائدہ عوام کو نہ ملے تو مطلب فنڈز کا غلط استعمال ہونا ہے، جسٹس جواد کے کہا کہ صوابدیدی فنڈز سے بننے والے اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہے، جس پر وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ رکن اسمبلی فوزیہ بہرام نے بھینسوں کا سوئمنگ پول بنانے کے لیے 48لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز لیے، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بھینسوں کو بھی تیراکی آتی ہے جو ان کے لیے سوئمنگ پول بنایا گیا ،حکومتی رویے کا یہ حال ہے کہ غریبوں کی جیب سے پیسہ نکالو اور امیروں کو دو۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد سے مخاطب ہوتے ہوئےکہا کہ آپ کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں 22 ارب دیئے گئے آپ اس کو 52ارب روپے تک لے گئے جبکہ ساڑھے 6 ارب روپے سے زائد رقم ان لوگوں کو دی جو ارکان پارلیمنٹ نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ من پسند افراد کو خوش کرنے کے لئے صوابدیدی فنڈز دیئے جائیں، ترقیاتی فنڈز کے نام پر یہ رقم اس لیے خرچ کی گئی کہ الیکشن سر پر تھے ،میڈیا نے بھی اسے قبل از انتخابات دھاندلی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ عوام کا پیسہ ہے خدارا اسے اس طرح نہ لٹائیں ، جس پر ایڈوکیٹ وسیم سجاد نے کہا کہ جو طریقہ کار پہلے سے چلا آ رہا تھا، سابق وزیراعظم نے بھی اسی پر عملدرآمد کیا، عدالت اس حوالے سے کوئی گائیڈ لائن جاری کردے، عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں