فوج کو استغاثہ کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے سندھ ہائی کورٹ
تفتیشی افسران کی غفلت سے ملزمان بچ جاتے ہیں اور لوگ عدالتوں کو برا بھلا کہتے ہیں، عدالت
سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ فوج کو استغاثہ کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نظر اکبر کے روبرو شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔ سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی سزا کیخلاف اپیلوں پر وکلا کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے موقف دیا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق وقوعہ کے وقت شاہ رخ جتوئی کی عمر 18 سال سے زائد تھی، شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی اپیل مسترد کی جائے۔
مقتول کے لواحقین کے وکیل نے موقف دیا کہ میرے موکل نے ملزمان کو معاف کردیا ہے، اپیل منظور کی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مقتول کے اہل خانہ نے معاوضہ لیا ہے؟ وکیل مدعی مقدمہ نے بتایا کہ آن ریکارڈ تو فی سبیل اللہ معاف کیا ہے اگر آف دی ریکارڈ رقم لی ہو تو معلوم نہیں۔
جسٹس نظر اکبر نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل شاہ ذیب کے والد کہاں ہیں۔ محمود عالم رضوی نے موقف دیا کہ کچھ ماہ قبل ان کا انتقال ہوچکا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مدعی کے انتقال کے بعد آپ کیسے ان کی وکالت کرسکتے ہیں؟ محمود عالم رضوی نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ مدعی کی بیوہ سے رابطہ نہیں ہورہا میں جلد ان کی طرف سے وکالت نامہ جمع کرادوں گا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے تفتیشی افسران کی غفلت سے ملزمان بچ جاتے ہیں اور لوگ عدالتوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ جسٹس نظر اکبر نے ریمارکس دیئے تفتیش اور پراسیکیوشن فوج کے حوالے کردیں۔ ایسے حالات میں تو فوج کو پراسیکیوشن کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے۔
جسٹس نظر اکبر نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا کہ آپ پارلیمنٹ کو بتائیں کہ پراسیکیوشن میں کتنی خامیاں اور تفتیشی افسران کتنے نااہل ہیں۔ لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ واقعہ غلط طور پر دہشت گردی کا بنا کر پیش کیا گیا۔
عدالت نے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ شاہزیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر ہائیکورٹ سزا کے خلاف ملزمان کے اپیلوں پر سماعت کر رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نظر اکبر کے روبرو شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔ سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی سزا کیخلاف اپیلوں پر وکلا کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے موقف دیا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق وقوعہ کے وقت شاہ رخ جتوئی کی عمر 18 سال سے زائد تھی، شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی اپیل مسترد کی جائے۔
مقتول کے لواحقین کے وکیل نے موقف دیا کہ میرے موکل نے ملزمان کو معاف کردیا ہے، اپیل منظور کی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مقتول کے اہل خانہ نے معاوضہ لیا ہے؟ وکیل مدعی مقدمہ نے بتایا کہ آن ریکارڈ تو فی سبیل اللہ معاف کیا ہے اگر آف دی ریکارڈ رقم لی ہو تو معلوم نہیں۔
جسٹس نظر اکبر نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل شاہ ذیب کے والد کہاں ہیں۔ محمود عالم رضوی نے موقف دیا کہ کچھ ماہ قبل ان کا انتقال ہوچکا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مدعی کے انتقال کے بعد آپ کیسے ان کی وکالت کرسکتے ہیں؟ محمود عالم رضوی نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ مدعی کی بیوہ سے رابطہ نہیں ہورہا میں جلد ان کی طرف سے وکالت نامہ جمع کرادوں گا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے تفتیشی افسران کی غفلت سے ملزمان بچ جاتے ہیں اور لوگ عدالتوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ جسٹس نظر اکبر نے ریمارکس دیئے تفتیش اور پراسیکیوشن فوج کے حوالے کردیں۔ ایسے حالات میں تو فوج کو پراسیکیوشن کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے۔
جسٹس نظر اکبر نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا کہ آپ پارلیمنٹ کو بتائیں کہ پراسیکیوشن میں کتنی خامیاں اور تفتیشی افسران کتنے نااہل ہیں۔ لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ واقعہ غلط طور پر دہشت گردی کا بنا کر پیش کیا گیا۔
عدالت نے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ شاہزیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر ہائیکورٹ سزا کے خلاف ملزمان کے اپیلوں پر سماعت کر رہی ہے۔