سانحہ ساہیوال کے حقائق جلد سامنے لائے جائیں
بے داغ ماضی والے پردہشت گردی کا جھوٹا الزام لگایا گیا
سانحہ ساہیوال دراصل قانون کے رکھوالوں کی اپنے حدود سے تجاوزکرنے ، درندگی اور سفاکیت کی بد ترین مثال ہے ، یہ رد عمل اندوہناک سانحے کے بعد عوامی سطح پر پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ''سانحہ ساہیوال پر عوام کا غم وغصہ بالکل جائز ہے۔
وہ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ قطر کے دورے سے واپسی پر ساہیوال سانحے کے ذمے داران کو مثالی سزا دی جائے گی'' وطن عزیز میں ہر آنکھ اشکبار ہے، ملک بھر میں اس سانحے کے خلاف احتجاج جاری ہے، پنجاب بارکونسل نے صوبے بھر میں ہڑتال کی۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی میں 24گھنٹے بعد 2ارکان کا اضافہ کردیا ہے،ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام میں سانحہ ساہیوال میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے بدنصیب کنبے کے لواحقین ، رشتے داروں اورمحلے داروں نے مقتولین پردہشت گرد ہونے کا الزام جھوٹ قراردیتے ہوئے کہا کہ غریب آدمی کو راہ جاتے ہوئے ماردیا گیا، بے داغ ماضی والے پردہشت گردی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ۔
معصوم شہریوں کو دہشتگرد قراردینا کہاں کا انصاف ہے؟ اسلام آباد میں داخلہ امورکے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں چیئرمین کمیٹی رحمان ملک کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال سے متعلق تمام سوالات پر غورکرنا ہوگا جب کہ کمیٹی کے سوالات بھی جے آئی ٹی کو فراہم کیے جائیں۔حکومت نے پہلے کہا ملک میں داعش نہیں، اگر داعش نہیں ہے تو پھر ساہیوال میں یہ کیسے آگئی؟ کمیٹی نے سانحہ ساہیوال سے متعلق مختلف چینلز پر چلنے والی ساری فوٹیجز بھی طلب کرلیں۔ساہیوال میں پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال دراصل ماورائے آئین ، قانون اور عدالت کی ایک مثال ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ اس سانحے پر دیگر واقعات کی طرح پردہ ڈال دیا جائے،عوام پنجاب حکومت کے چند وزراء کی پریس کانفرنس اور سی ٹی ڈی کے بار بار موقف تبدیل کرنے کو شک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
عوام اور لواحقین کا موقف ہے کہ انھیں انصاف کی امید نہیں، ادارے حقائق سامنے لائیں، تحقیقات کے بغیرکسی کو دہشت گرد کیسے قرار دے دیا گیا؟ یہ وہ سوالات اور ابہام ہیں جنھیں دورکرنے کے لیے پنجاب حکومت رتی برابرکوشش نہیں کر رہی۔ بے گناہوں کو بغیرکسی ثبوت کے گولیوں سے بھون ڈالنا کہاں کا قانون ہے ، ان معصوم بچوں کی بے بسی اہل وطن سے دیکھی نہیں جا رہی ۔ والدین کے سایہ شفقت سے محروم بچے کیسے زندگی بسرکریں گے۔ انصاف فراہم کرنا پنجاب اور وفاقی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے۔ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لینے کے بعد اس میں اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا جانا چاہیے تاکہ آیندہ ایسے واقعات کا ارتکاب نہ ہو۔
وہ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ قطر کے دورے سے واپسی پر ساہیوال سانحے کے ذمے داران کو مثالی سزا دی جائے گی'' وطن عزیز میں ہر آنکھ اشکبار ہے، ملک بھر میں اس سانحے کے خلاف احتجاج جاری ہے، پنجاب بارکونسل نے صوبے بھر میں ہڑتال کی۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی میں 24گھنٹے بعد 2ارکان کا اضافہ کردیا ہے،ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام میں سانحہ ساہیوال میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے بدنصیب کنبے کے لواحقین ، رشتے داروں اورمحلے داروں نے مقتولین پردہشت گرد ہونے کا الزام جھوٹ قراردیتے ہوئے کہا کہ غریب آدمی کو راہ جاتے ہوئے ماردیا گیا، بے داغ ماضی والے پردہشت گردی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ۔
معصوم شہریوں کو دہشتگرد قراردینا کہاں کا انصاف ہے؟ اسلام آباد میں داخلہ امورکے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں چیئرمین کمیٹی رحمان ملک کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال سے متعلق تمام سوالات پر غورکرنا ہوگا جب کہ کمیٹی کے سوالات بھی جے آئی ٹی کو فراہم کیے جائیں۔حکومت نے پہلے کہا ملک میں داعش نہیں، اگر داعش نہیں ہے تو پھر ساہیوال میں یہ کیسے آگئی؟ کمیٹی نے سانحہ ساہیوال سے متعلق مختلف چینلز پر چلنے والی ساری فوٹیجز بھی طلب کرلیں۔ساہیوال میں پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال دراصل ماورائے آئین ، قانون اور عدالت کی ایک مثال ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ اس سانحے پر دیگر واقعات کی طرح پردہ ڈال دیا جائے،عوام پنجاب حکومت کے چند وزراء کی پریس کانفرنس اور سی ٹی ڈی کے بار بار موقف تبدیل کرنے کو شک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
عوام اور لواحقین کا موقف ہے کہ انھیں انصاف کی امید نہیں، ادارے حقائق سامنے لائیں، تحقیقات کے بغیرکسی کو دہشت گرد کیسے قرار دے دیا گیا؟ یہ وہ سوالات اور ابہام ہیں جنھیں دورکرنے کے لیے پنجاب حکومت رتی برابرکوشش نہیں کر رہی۔ بے گناہوں کو بغیرکسی ثبوت کے گولیوں سے بھون ڈالنا کہاں کا قانون ہے ، ان معصوم بچوں کی بے بسی اہل وطن سے دیکھی نہیں جا رہی ۔ والدین کے سایہ شفقت سے محروم بچے کیسے زندگی بسرکریں گے۔ انصاف فراہم کرنا پنجاب اور وفاقی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے۔ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لینے کے بعد اس میں اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا جانا چاہیے تاکہ آیندہ ایسے واقعات کا ارتکاب نہ ہو۔