فرانزک آڈٹ کی ضرورت
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سی ٹی ڈی کی کارکردگی اچھی نہیں ہے
سانحہ ساہیوال نے سب کو رلا دیا ہے۔ کوئی بھی اس کا دفاع نہیں کر سکتا۔ لیکن میں آج سانحہ ساہیوال پر نہیں لکھنا چاہتا۔ ایک تولکھنے کی ہمت بھی نہیں دوسرا جب سب مذمت کر رہے ہیں تو اختلاف کس بات کا۔ تاہم میں سی ٹی ڈی پر لکھنا چاہتا ہوں۔ پنجاب حکومت بھی دبے الفاظ میں سی ٹی ڈی کی حمایت کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے ٹوئٹ میں جہاں واقعے کی مذمت کی ہے وہاں دہشت گردی کے خلاف سی ٹی ڈی کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سی ٹی ڈی کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ لیکن میرا یہ بھی موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ انھیں ہر کام جائز ناجائز طریقے سے کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ پنجاب میں درجنوں نہیں سیکڑوں بلکہ سیکڑوں سے بھی زیادہ مثالیں موجود ہیں جہاں صرف شک کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ کئی کئی ماہ غائب رکھا گیا ہے۔ اور پھر جب کچھ نہیں ملا تو کبھی پولیس کے حوالہ کرنے کی کوشش کی ہے، کبھی جھوٹے کیسز بنائے ہیں اور لوگوں کو ایسے کیسز میں بھی ملوث کیا ہے جن سے ان کا تعلق نہیں بنتا تھا۔
اس کی شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ سی ٹی ڈی میں لوگ پولیس سے آئے ہیں۔ جو لوگ سی ٹی ڈی کی سربراہی کرتے ہیں وہ بھی پولیس سے آتے ہیں۔ اور اس طرح اس فورس کے کام کرنے میں پولیس کا انداز اور پولیس کلچر موجود ہے۔ اس لیے میں اس کودہشت گردی سے لڑنے والی بہترین پیشہ ورانہ فورس نہیں سمجھتا بلکہ اس کو پولیس کی ہی ایک دوسری شکل سمجھتا ہوں۔ یہاں کام کرنے کا اسٹائل پولیس جیسا ہے۔ مقدمات کی تفتیش کا اسٹائل پولیس جیسا ہے۔ رشوت کا معیار بھی پولیس جیسا ہے۔ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی سوچ بھی پولیس جیسی ہے۔
لیکن بات یہ ہے کہ ان کے پاس اختیارات پولیس سے زیادہ ہیں۔ اس لیے سی ٹی ڈی نے کہیں نہ کہیں معاشرہ میں پولیس سے بھی زیادہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔میں ایسا کوئی سانحہ ساہیوال کی وجہ سے نہیں کہہ رہا۔بس اتنا ہے کہ سانحہ ساہیوال نے مجھے اپنے یہ تمام مشاہدات اور رائے لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ میری یہ رائے کیسے بنی ہے۔ کیا میں نے سنی سنائی باتوں پر یہ رائے بنائی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے میں سی ٹی ڈی کی چند کارروائیوں کا چشم دید گواہ ہوں ۔ جس کی وجہ سے میں نے یہ رائے بنائی ہے۔ لاہور کے علاقہ اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد جس طرح اندھا دھند لوگوں کو پکڑا گیا اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ان میں سے اکثر کیا سارے بے گناہ تھے۔ بس داڑھی والے مولویوں کو پکڑنا شروع کر دیا گیا۔ ہر مدرسہ سے کسی نہ کسی مولوی کو پکڑنا شروع کر دیا گیا۔ چلیں آپ نے تفتیش کے لیے لوگوں کو پکڑا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ جنگ میں سب جائز ہے۔ یہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔
تفتیش کے لیے لوگوں کو نہیں پکڑیں گے تو کیسے تفتیش ہو گی۔ اندھیرے میں تیر چلانے پڑیں گے تب ہی کوئی بٹیرا ہاتھ آئے گا۔ ایک مولوی صاحب کی بیگم اور بچے کئی ماہ میرے گھر آتے رہے کہ ہمارے والد کو سفید کپڑوں میں ایک گاڑی لے گئی ہے۔ کچھ پتہ نہیں لگ رہا۔ آپ صحافی ہیں کم از کم اتنا تو پتہ کروا دیں کونسی ایجنسی اٹھا کر لے گئی ہے۔ کیا الزام ہے۔ بہت مشکل سے پتہ چلا کہ وہ کس کے پاس ہیں۔ بس نہ ملنے کی اجازت۔ نہ کوئی کچھ بتانے کو تیار۔ ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ شاید وہ دھماکا انھوں نے ہی کیا۔ تقریباً ایک سال بعد جب متعلقہ ادارے کو کچھ نہیں ملا اور انھیں اندازہ ہوگیا کہ مولوی صاحب سے ملنا بھی کچھ نہیں۔ غریب آدمی ہے۔ تو ایک فرسودہ مقدمہ بنا دیا گیا کہ انھیں ایک پارک سے پکڑا ہے یہ وہاں بیٹھے دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
نہ کسی دہشت گردی کے منصوبے کی تفصیل، نہ کوئی سر پیر۔عدالت نے ایسے فرسودہ مقدمہ پر ضمانت دے دی اور اس طرح مولوی صاحب ایک سال بعد گھر آئے۔ایسی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ ایک ایکسائز اہلکار کو ایک ٹرک ٹرانسفر کرنے پر گرفتار کر لیا۔ وہ ایک سال جیل میں رہا۔ ایک سال بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ بیچارے ایکسائز اہلکار پر دہشت گردی کا کوئی کیس نہیں بنتا۔ لیکن کئی ماہ کی بے گناہ گرفتاری۔ ایک سال کی جیل اور نوکری کا نقصان کون پورا کرے گا۔ سی ٹی ڈی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ اس لیے اس کو بڑی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر آج سی ٹی ڈی کی تمام گرفتاریوں کا فرانزک آڈٹ کیا جائے تو بلا شبہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ دہشت گرد کم پکڑے ہیں معصوم لوگوں کو زیادہ پکڑا گیا ہے۔ ایک پیشہ ورانہ فورس کا معیار ہی یہ ہے کہ اس کے کتنے کیس کامیاب ہوئے۔ اس کے کتنے آپریشن کامیاب ہوئے۔ اس کی انٹیلی جنس کتنی مضبوط ہے۔
اگر سی ٹی ڈی نے پولیس کے اسٹائل میں ہی کام کرنا ہے تو یہ فورس الگ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ پولیس کے پاس ہر شہر میں پولیس مقابلے کے ماہرین موجود ہیں۔
آج جب ملک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی عدالتوں کی مزید ضرورت ہے کہ نہیں۔ تو سی ٹی ڈی کی آج تک کی کارکردگی کا فرانزک آڈٹ بھی ہونا چاہیے۔ اس بات کا پتہ لگنا چاہیے کہ دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میںکتنے گناہ گار اور کتنے بے گناہ تھے جو پکڑے اور مارے گئے۔ یہ ایک خلیل کے خاندان کی کہانی نہیں۔ اگر یہ فرانزک آڈٹ کیا جائے تو ہر کیس میں کوئی نہ کوئی خلیل ملے گا۔ ہر کیس میں زیادتی کی ایسی داستانیں ملیں گی ۔ میرے نادان دوست یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسا ہوجاتا ہے۔
دیکھیں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے گوانتانامو جیسی جیلیں بنائی ہیں۔لیکن میری رائے میں یہ ایک فرسودہ اور جاہلانہ دلیل ہے۔ اگر کسی کو بے گناہ پکڑا بھی گیا ہے تو ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اتنی قانون کی پاسداری ہونی چاہیے کہ وہ تسلیم کریں کہ ہم نے اس کو بے گناہ پکڑا تھا یہ بے قصور ہے۔ جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے عدالت کے حوالہ کرنا کوئی شرافت نہیں۔ کہ جاؤ عدالت سے بری ہو جاؤ۔ اگر کسی کو بے گناہ پکڑا گیا ہے تومعاشرہ میں اس کی عزت وقار اور زندگی کو بحال کرنا حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہونی چاہیے۔ لوگوں کو زندہ لاش بنا کر واپس معاشرہ میں پھینک دینا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔آج وقت آگیا ہے کہ معاملات کہ بہتر کیا جائے۔ ریاست دل بڑا کرے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے بجائے انھیں تسلیم کرے تاکہ لوگوں کے زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جا سکے۔ ابھی تک حکومت پنجاب کا موقف تو ان پر نمک ڈالنے کے مترادف ہے۔