تازہ کہانی

شیر، چیتے، ہاتھی، گینڈے جیسے زور آور اپنے بچوں کے ساتھ جنگل میں گھوم پھر رہے ہیں

آوازوں کا جنگل ہے، ہوائیں کبھی تیز چلتی ہیں تو شائیں شائیں کے غول درختوں کی شاخوں کو جھلاتے گزرتے چلے جاتے ہیں، پتوں کی سر سراہٹیں ہیں، درختوں کی شاخوں سے جھڑ کر جنگل کے فرش پر گرے پتے تیز ہوا کے ساتھ ادھر سے ادھر اڑتے چلے جا رہے ہیں، ان اڑتے پتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، بس یہی ان کا ٹھکانہ ہے، ہوا نے اڑایا ، اور جدھر چاہا ، اڑا کر لے گئی ، نہ کوئی ساتھی نہ کوئی منزل ۔ تیز ہوا چل رہی ہے جنگل میں تیز ہواؤں کا شور ہے، اس کے علاوہ اورکوئی آواز نہیں ہے۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں پر سمیٹے بیٹھے ہیں، ہوائیں ہیں کہ ان کے بسیروں کو تنکا تنکا بکھیرنے پر تلی ہیں ۔ ایک تنکا ہلتا ہے تو اندر بیٹھا پرندہ اپنی چونچ سے اسے ٹھکانے پر بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض گھونسلوں میں انڈوں سے نکلنے والے بچے بھی ہیں۔ ماں باپ انھیں بھی پروں میں سمیٹے ہوئے ہیں، ذرا سی غفلت نومولود بچوں کو خاک میں ملا دے گی۔

کئی روز گزرگئے تیز ہواؤں کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ۔گھونسلوں میں دانہ دنکا ختم ہو چکا ۔ بچے بھوک سے نڈھال ہیں، باہر تیز ہوائیں رستہ روکے ہوئے ہیں، ماں باپ ذرا ذرا گردن اٹھا کر باہر دیکھتے ہیں اور پھر دبک جاتے ہیں۔

اب تو بھوک اور پیاس سے بچے مرن کنارے پہنچ چکے ہیں، باپ کو ہمت کرنا ہو گی، ماں کا بچوں کے ساتھ رہنا ضروری ہے، باپ گھونسلے سے نکلتا ہے کہ بھوکے بچوں کے لیے دانہ دنکا لائے، وہ باہر نکلتا ہے اور گولی کی طرح سنسناتی ہوا اسے اڑا لے جاتی ہے۔ اب گھونسلے میں بچے ہیں اور ماں ہے۔ ماں بھی بھوک اور پیاس سے مرتے بچوں کو کب تک دیکھتی۔ آخر وہ بھی گھونسلے سے نکلتی ہے اور تیز ہوا کی ہو جاتی ہے۔

آخری دموں پر بچے گھونسلے میں پڑے ہیں، باہر اسی طرح ظالم تیز ہواؤں کا شور ہے، جنگل کا فرش صاف ہے، درختوں کے جھڑے پتے بھی کونوں کھدروں میں سمٹ گئے ہیں ۔ ننھے کمزور پرندوں کا یہی حال ہے، جنگل کا یہی قانون ہے ۔ کمزور، ناتواں کا مقدر بھوک ہے، پیاس اور اس اذیت میں موت ہی اس کا سہارا بن کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

کچھاروں میں شیر ، چیتے محفوظ رہتے ہیں ، جب راشن ختم ہو جاتا ہے تو وہ بے دھڑک اپنی کچھاروں سے نکلتے ہیں ، تیز ہوائیں ان کے سامنے زیر نظر آتی ہیں، دم بھر میں انھیں اپنا راشن نظر آجاتا ہے اور پھر جنگل میں تیز ہواؤں ، بھاگتے ہرنوں اور ان کے تعاقب میں شیر اور چیتے اور بالآخر طاقتور کمزور کو دبوچ لیتا ہے، طاقتور اپنے مضبوط جبڑوں میں کمزور کی پتلی گردن دبوچے ہوئے اپنی کچھارکی طرف جا رہا ہے، کمزور کی پتلی پتلی ٹانگیں لٹک رہی ہیں، گردن کا گرم گرم تازہ خون طاقتور کے جبڑوں کو سیراب کر رہا ہے۔ کچھار میں ماں اور بچے شکار کے منتظر ہیں ۔ شکار آ جانے پر سب مل کر اپنے پیٹ بھرتے ہیں اور خواب غفلت اوڑھ کر سو جاتے ہیں ۔

تیز ہواؤں کا زور ٹوٹتا ہے تو ہواؤں کے ساتھ اڑ جانے والے پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں ۔ گھونسلے بکھرے ہوئے ہیں، تنکے گرے ہوئے ہیں اور جہاں کہیں بچے تھے ان کے آثار سے پڑے ہوئے ہیں کہیں کہیں وہ شاخ بھی باقی نہیں رہی کہ جس پہ گھونسلا تھا۔


نہ شاخ ہی رہی باقی، نہ آشیانہ ہے

بہت سکون سے اب گردشِ زمانہ ہے

شیر، چیتے، ہاتھی، گینڈے جیسے زور آور اپنے بچوں کے ساتھ جنگل میں گھوم پھر رہے ہیں، مستیاں کر رہے ہیں، درختوں کی شاخوں پر بندر بھی جھول رہے ہیں کبھی اس شاخ سے اس شاخ پر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ بلوں میں دبکے خرگوش ، چوہے ، سانپ بھی باہر نکل آئے ہیں اور کمزور، ناتواں پرندے اپنے بکھرے گھونسلوں کے تنکوں کو پھر سے ترتیب دے رہے ہیں ۔ اپنے جینے کا سامان کر رہے ہیں، اپنے بچوں کا دھیان انھیں ستا رہا ہے۔ کیسے اپنے بچوں کو تند و تیز ہواؤں سے محفوظ رکھ سکیں، ان کے دانے دنکے کا محفوظ انتظام کیسے کریں، ان کی زندگیوں کو کیونکر بچا سکیں۔ چڑا اور چڑی اپنے ٹوٹے پھوٹے گھونسلے کی شاخ پر بیٹھے یہی کچھ سوچ رہے ہیں ۔

جنگل میں وقتی طور پر تیز ہواؤں کا زور ٹوٹ گیا تھا ، مگر ہواؤں کا راج مستقل تھا ، درخت کی شاخ پر بیٹھے ننھے پرندوں کے پَر ہوا میں اڑ اڑ جاتے تھے، ننھے کمزور پرندے شاخ پر بیٹھے ڈول ڈول جاتے تھے ۔ جنگل میں ظالم ہواؤں کا راج تھا ، یہی ہوائیں ''فیصلہ'' کرتی تھیں ۔ زور آور چراغ رہ جاتے اور کمزور ''دیے'' بجھ جاتے اور ہوائیں چلتی رہتیں، چراغ جلیں یا دیے بجھیں۔

جب شیر کا پیٹ بھرا ہو تو ان کے ارد گرد '' شکار '' آزاد گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور شیر '' بھرے پیٹ '' کے خمار میں مست رہتا ہے، مگر اس تیز ہواؤں والے جنگل کے شیر اور طرح کے تھے، یہ بھرے پیٹ کے نشے میں مزید شکار کر کے خوش ہوتے تھے۔ اس جنگل کے شیروں کا پیٹ بھرتا ہی نہیں تھا۔ '' شکار '' کرکر کے ان کے پیٹ پھیل کر جھیل بن چکے تھے۔ شکار پڑا سڑ رہا ہے، سڑتا رہے، مگر شکار کرنا ضرور ہے۔ اس جنگل کے شیر جیسے آدم خور بن چکے تھے۔ ان ظالم شیروں کے ''بلا جواز شکار'' کے باعث ہرا بھرا جنگل ویران ہوگیا، پرندے درخت چھوڑگئے، چرند ''شکار'' کا شکار ہوگئے، اب تو جنگل سنسان ہے وہ کلابیں بھرتے ہرن جانے کہاں گئے، وہ ہری نیلی آنکھوں والے خرگوش کدھر گئے، وہ درختوں کی شاخوں پر جھولتے، پھل کھاتے، شرارتیں کرتے بندر کس جنگل کو سدھارے۔ اب تو یہ جنگل ہے اور خونی شیر ہیں۔ جنگل کی خوشبو کی جگہ سڑاندھ ہے، ہریالی دیکھنے کو نہیں ہے اور اگر کہیں ہے تو خون میں لت پت ہے اور کچھ باقی ہے تو شیروں کی دھاڑیں ہیں ۔

کیسا ہرا بھرا جنگل تھا پھولوں سے لدا پھندا ، نہریں، ندی ، نالے ، آبشاریں ، لذیذ پھلوں سے جھکی ڈالیاں اب تو پانی کے لالے پڑ گئے۔ نہریں ، ندی ، نالے، آبشاریں سب ناپید ہوگئے، پیاسے ہونٹوں پر جمی پڑپڑیوں کی طرح پانی کی گزرگاہیں ہو گئیں ۔ جنگل کی اس درجہ بربادی کے بعد بھی ''خونخواری'' جاری ہے۔
Load Next Story