برج والا سے واشنگٹن
نواز شریف کے دور میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا تو یہ پابندیاں مزید بڑھا دی گئیں
دور سے نظر آنے والی چیزیں اور افراد تب تک ہی خوبصورت اور اچھے لگتے ہیں جب تک وہ دور ہوتے ہیں۔ قریب آنے کے بعد بہت ساری اشیاء اپنی کشش، بہت سارے مقامات اپنی خوبصورتی اور بہت سارے افراد اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ یورپ اور امریکا کا بھی یہی حال ہے۔ جو افراد کام کاج یا ملازمت کے سلسلے میں وہاں آتے جاتے رہتے ہیں وہ ان علاقوں کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور جو لوگ محض سنی سنائی باتوں یا اخبارات کے ذریعے اس ملک کے بارے میں کوئی اندازہ لگاتے ہیں ان کے خیالات میں بہت فرق ہوتا ہے۔
کچھ پاکستانیوں کی امریکا میں مقرر ہونے والے سفیروں کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ دونوں ممالک کے سیاسی حلقوں پر بھی اثر اندازہوتے ہیں مگر انھیں یہ علم نہیں ہوتا کہ سفیرکا کام اس سے بالکل مختلف ہے ۔ ضرورت پڑنے پر مختلف ممالک کے سفیروں کو دوسرے ممالک میں اتنی عزت سے نوازا جاتا ہے کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ اُن کی اتنی حیثیت بھی نہیں ہوتی کہ سفارت خانے کی بلڈنگ سے باہر نکل سکیں۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کے مطابق '' جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس چلی گئیں تو امریکا نے پاکستان سے اپنی آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان پر پریسلر امینڈمنٹ کے ذریعے بہت ساری پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ امریکا چاہتا تھا کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام بند کر دے اور طالبان کو قابو میں رکھے '' جس کے بعد امریکا میں متعین ہمارے سفیرکے ساتھ بھی وہاں کی حکومت کا رویہ بدل گیا۔
نواز شریف کے دور میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا تو یہ پابندیاں مزید بڑھا دی گئیں، مگر دونوں ممالک ہر محاذ پر ایک دوسرے کے ضرورت مند رہے۔اس ضرورت مندی میں ایک دو دفعہ پاکستان کا پلڑا بھاری تو ہوا مگر اس سے زیادہ بھاری ہونا اس لیے ممکن نہیں تھا کہ امریکا اور پاکستان میں ہر لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے افغانستان کو باعزت طریقے سے خیر آباد کہنے کے لیے امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑگئی ہے مگر کچھ لو اورکچھ دو کے بغیر یہ سلسلہ آگے بڑھنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کے مطابق '' افغان جہاد کے زمانے میں جب امریکا اور پاکستان شیر و شکر تھے پاکستان کے سیکریٹری دفاع جلال حیدر زیدی کو امریکا میں ادھر ادھر جانے کے لیے ائیر فورس کا جہاز دیا جاتا تھا مگر جب امریکا نے آنکھ بدلی تو انھیں ائیر پورٹ سے لانے کے لیے سوائے ایک دوست اور پی آئی اے کے منیجر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا۔''
امریکا ہو یا کوئی دوسرا ملک ہمارے سفیروں کے ساتھ پیش آنے والے رویے سے ہی وہاں کی حکومت کے رویے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چند دن قبل نئی دہلی میں پاکستانی سفیر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ بھارتی حکومت ہماری حکومت کے ساتھ کیسے تعلقات کی خواہاں ہے۔
امریکا ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے سفیر بہتر تعلقات کے لیے راستہ تو ہموارکرتے ہیں ، مگر کچھ ہی عرصے کے بعد خارجہ پالیسی میں آنے والے موڑ بے اعتمادی کی اتنی بھول بھلیوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ ان کے کیے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کے مطابق'' پاکستان سے امریکی سفیرکا عہدہ سنبھالنے کے لیے آنے والوں میں مختلف خوبیاں پائی جاتی تھیں اور وہ امریکا سے تعلقات کی بہتری کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ زور بھی لگاتے رہے اس کے باوجود امریکا سے تعلقات میںہمارے سفیروں کا کوئی زیادہ ہاتھ نہیں ہوتا ۔عابدہ حسین تعلقات کی بہتری کے لیے روزانہ امریکیوں کو کھانے پر بلاتی تھیں اور ملیحہ لودھی دن رات کام کرتی تھیں ، مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ریاض کھوکھر بھی انتہائی دبنگ اور ماہر سفیر تھے ، مگر ان کی وجہ سے بھی کوئی فرق دکھائی نہ دیا ۔''
''بُرج والا توں واشنگٹن'' معروف ادیب، استاد، سیاسی وسماجی کارکن اور صحافی ڈاکٹر منظور اعجاز کی آپ بیتی ہے جو نئے سال کی ابتدا میں چھپ کر بازار میں آئی ۔ ڈاکٹر صاحب پچھلے چالیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں اور ان کا نام ایسے حلقوں میں انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے جو اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کی آبیاری کے ساتھ تحقیقی اور تنقیدی سرگرمیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی آپ بیتی کی ابتدا ساہیوال کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہوتی ہے جہاں زندگی کے ابتدائی تیس برس گزارنے کے بعد وہ امریکا روانہ ہو جاتے ہیں۔
اپنے ملک اور اگلے چالیس برسوں کے دوران امریکا میں ان کے ساتھ جو تلخ و شیریں واقعات پیش آتے ہیں وہ اس کتاب میں انتہائی سلاست اور روانی کے ساتھ انھوں نے درج کر دیے ۔ ان کی یاداشتوں میں حلقہ ارباب ذوق، انجمن ترقی پسند مصنفین اور پنجابی ادبی سنگت کی تاریخ بھی محفوظ ہے، منیرؔ نیازی کی شاعری کا سر سری تنقیدی جائزہ بھی ملتا ہے، نجم حسین سید کی شاعری اور ڈراموں کا معاشرتی، سیاسی اور فلسفیانہ ادراک بھی ہے اور پنجاب میں جاگیر دارانہ نظام کی ٹوٹ پھوٹ ، فرسودہ رسم و رواج کے خاتمے، دستکاروں کا روایتی کام کاج سے چھٹکارا ،کھیت مزدوروں کی جگہ مشینوں کی آمد اور روایتی تعلیم کی جگہ سوشل میڈیا تک پہنچنے کا سفر بھی دکھائی دیتا ہے۔
طویل مدت کے بعد پنجابی زبان میں آنے والی اس اہم کتاب کے مصنف ادبی اور صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج تو نہیں مگر اس سے قبل بہت کم افراد اس بات سے واقف تھے کہ وہ بچپن میں ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود زندگی کی تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور ستر سال گزرنے کے بعد بھی روز اول کی طرح تازہ دم ہیں ۔ ان کے بقول اگر وہ معذور نہ ہوتے تو انھیں بھی اپنے بھائیوں کی طرح کھیتوں کی دیکھ بھال کے لیے تعلیم سے محروم رہنا پڑتا ۔
ڈاکٹر منظور اعجاز کا صرف یہی کمال نہیں کہ انھوں نے اپنی جدو جہد میں معذوری کو رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ پنجاب کی تہذیب و ثقافت اور اس دھرتی پر جنم لینے والے صوفیائے کرام کی شاعری کو محفوظ کرنے اور دنیا بھر کے پنجابی ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے ''اپنا'' Academy of thePunjab in North America کے نام سے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا ادارہ بھی قائم کیا جو اپنی ویب سائٹ پرنئے اور پرانے مصنفین کے ساتھ لوک گائیکی کی بہت ساری آوازوں کو بھی محفوظ کر چکا ہے۔2006ء میں انھوں'' وچار'' ڈاٹ کام کے نام سے ایک اور ویب سائٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد پنجابی زبان میں تازہ خبریں، مضامین، فیچر اور مقالے پیش کرنا تھا۔ یہ سلسلہ بھی کافی کامیاب رہا اور اس کے تحت پنجابی ، سندھی اور انگریزی کہ آٹھ اہم کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔
ڈاکٹر منظور اعجاز طویل مدت سے پاکستان کے اہم انگریزی اور اردو اخبارات میں کالم لکھتے چلے آ رہے ہیں اور امریکا میں مقیم ایشیائی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی تنظیموں کے نمایندوں کے ساتھ بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔ ماضی میں پاکستان سے امریکا جانے والے دیگر سر کردہ سیاسی لیڈروں کے علاوہ رسول بخش پلیجو، بینظیربھٹو اور عمران خان کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتیں رہیں اور اس کتاب میں ان شخصیتوں کے سیاسی نظریات پر ان کا تنقیدی جائزہ بھی موجود ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں جب ہم ان کی کتاب میں درج یہ جملہ پڑھتے ہیں '' لکھتے وقت آج کل جیسی پابندی پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں دیکھی ۔ اب تو یہ زیادہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا نہ لکھا جائے۔'' تو ذہن میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔