فرعون سے ایک ملاقات
فرعون بولا ’’ اگر میں تمہیں کھانے کی دعوت دوں تو قبول کروگے ‘‘ ؟
PESHAWAR:
میں پسینے میں تربتر ہونے کے باوجود گہری نیند میں غرق تھا اور خواب میں کسی ایسی تقریب میں بطور مہمان شریک تھا جہاں انواع اقسام کے بے شمار پکوان اور ڈشیں موجود تھیں ۔ میں نے بریانی کی پہلی ڈش ابھی اپنی جانب کھینچی ہی تھی کہ میرے پاؤں کسی انسان جسم سے ٹکرائے اور میری آنکھ کھل گئی ۔ نیم غنودگی کے عالم میں مجھے اپنی چارپائی کی پائینتی پر کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا ۔ لوڈشیڈنگ، گرمی اور مالک مکان کا غصہ تینوں جوبن پر تھے ۔ اول الذکر بدانتظامی کا نتیجہ تھی، ثانی الذکر پرکسی کا اختیار نہیں تھا اور موخر الذکر کا غصہ اس کے بخیل اور کمینہ ہونے کی دلیل تھا ۔ اﷲ جانے پنکھا لوڈشیڈنگ کے باعث بند تھا یا پھر مالک مکان محض دو ماہ کا کرایہ نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی اوچھی حرکتوں پر اتر آیا تھا ۔
میں نے لوڈشیڈنگ ، گرمی اور لینڈ لارڈ تینوں پر لعنت بھیجی اور دوبارہ سونے کی کوشش کی تو میری پائینتی پر بیٹھے ہوئے شخص نے آہستگی سے میرا پاؤں ہلا کر مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا پاؤں چھڑایا اور کروٹ بدل کر پھر اونگھنے لگا ۔ خالی پیٹ ویسے بھی بڑی مشکل سے نیند آتی ہے ۔ وہ آدمی اب اٹھ کر میرے سرہانے آ بیٹھا اور منمنا کر بولا '' بھائی اخبار نویس ! اب اٹھ بھی جاؤ، میں بڑی دور سے آیا ہوں اور میرا نام فرعون ہے ۔'' میں نے جھنجھلا کر جواب دیا '' تم فرعون ہو ، شداد ہو یا نمرود ہو ، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں فوراً یہاں سے دفع ہوجاؤ مجھے بڑے زور کی بھوک لگی ہے اور کل صبح کے بعد سے میں نے اب تک کچھ نہیں کھایا ہے اور کھایا اس لئے نہیں ہے کہ میری جیب خالی ہے۔ ''
فرعون بولا '' اگر میں تمہیں کھانے کی دعوت دوں تو قبول کروگے '' ؟ میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور فرعون سے کہا '' اس وقت تو مجھے اگر کھانے کی دعوت موت کے فرشتے کی طرف سے بھی ملے تو میں یقیناً قبول کرلوں گا۔ '' پھر پیروں میں جوتے ڈال کر میں نے فرعون کاہاتھ پکڑ کر کھینچا اور بولا '' آؤ چلیں '' ۔ ہم دونوں باہر آگئے اور قریبی ہوٹل کا رخ کیا ۔ پھر ایک کھانے کی خالی میز پر آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔ میں نے مشکوک نظروں سے فرعون کو گھورتے ہوئے پوچھا '' جیب میں پیسے تو ہیں نا '' ؟ فرعون جیب تھپتھپا کر بولا '' بے فکر رہو ، ہمیں دنیا میں چند گھنٹے گزارنے کی اجازت ملنے کے ساتھ ہی ٹی اے اور ڈی اے الائونس کی مد میں کافی بھاری رقم ملتی ہے '' یہ سن کر میں نے کئی مہنگی ڈشوں کے آڈر دیئے اور روٹی کی جگہ تافتان کھانے کا فیصلہ کیا ۔
اس کے بعد میں بڑے خلوص کے ساتھ تن من اور دھن سے کھانے پر ٹوٹ پڑا ، ( تن من اپنا اور دھن فرعون کا ) جبکہ فرعون بے دلی سے ہاتھ چلاتا رہا ۔ ظاہر ہے یہ سب پیٹ بھرے لوگوں والی حرکتیں تھیں ۔ کھانے کے بعد ویٹر سے میں نے مہنگے برانڈ کے سگریٹ کا ایک پیکٹ منگوا کر ایک سگریٹ سلگائی اور پیکٹ فرعون کی جانب بڑھا کر اسے یوں سگریٹ آفر کی جیسے یہ پیکٹ میری ملکیت ہو ۔ فرعون نے شکریے کے ساتھ انکار کردیا۔ میں نے سگریٹ کا گہرا کش لگا کر پوچھا '' اب بتاؤ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟ تم تو ہزاروں سال قبل وفات پاچکے ہو یہاں کیا لینے آئے ہو '' ؟ فرعون نے جواب دیا '' مجھے تمہارے ملک کے بارے میں اوپر سے خبریں ملتی رہتی تھیں اور میری معلومات بھی ایسے ہی اپ ڈیٹ رہتی تھیں ، جیسے کہ تمہارے فیس بک پر تم لوگوں کا اسٹیٹس لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے '' ۔
'' وہ کیسے '' ؟ میں نے پوچھا ۔ فرعون بولا '' بھئی صرف کراچی سے ہی تقریباً ہر گھنٹے بعد دو چار بندے ٹارگٹ کلنک کا شکار ہوکر روزآنہ اوپر آجا تے ہیں ۔ بم دھماکوں اور ڈرون حملوں کے شکار الگ ہیں ۔ اصلی اور جعلی پولیس مقابلوں میں مرنے والے ، موبائل اور موٹر سائیکل چھینے جانے پر مزاحمت کرنے کی پاداش میں اوپر پہنچنے والے، ڈکیتی کے دوران مارے جانے والے اور خاندانی دشمنی کے شکار ہونے والوں کو تو میں نے کبھی منہ ہی نہیں لگایا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی ٹارگٹ کلر آج تک اوپر نہیں آیا ۔ لہذا مجھے یہ سب دیکھ کر اپنا دور حکمرانی یاد آگیا ۔
میں نے سوچا خود جا کر ایسے ملک کو دیکھنا چاہیے ،جہاں میرے بنائے ہوئے قوانین اور میرا طرز حکومت ابھی تک نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے ۔ بالکل ہماری طرح تمہارا ایک حکمران جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے لیکن قوانین اور طرز حکمرانی تبدیل نہیں ہوتا ۔ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوکہ فرعون کوئی ایک بادشاہ نہیں تھا ۔ اور نہ ہی یہ کوئی نام تھا ۔ بلکہ یہ ایک لقب تھا جو بھی مسند اقتدار پر بیٹھتا وہ یہ لقب اختیار کرلیتا ۔ یوں تم کہہ سکتے ہو کہ فراعین مصر میں سے ، ایک فرعون تمہاری ریاست میں تم سے ملنے اور تمہاری ریاست کی سیر کرنے آیا ہے '' اتنی طویل تمہید کے بعد جب فرعون چپ ہوا تو میںنے پوچھا '' تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہمارے ملک میں تمہارے بنائے ہوئے قوانین ابھی تک چل رہے ہیں '' ؟ سامنے کی بات ہے ، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی اور موبائل فونز بند کرنا ۔
تمہارے خیال میں ان قوانین کا بانی کون تھا '' ؟ فرعون نے جوابی سوال داغ دیا ۔ میں نے دوسری سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا '' ذرا وضاحت کرو کہ یہ قوانین تمہارے بنائے ہوئے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ جبکہ تمہارے زمانے میں نہ موٹر سائیکل تھی اور نہ ہی موبائل فونز؟ '' اس دوران فرعون نے کھانے کے بل کی ادائیگی کر دی تھی ، لہذا میں مزید مطمئن ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ٹانگیں یوں پسار لیں ، جیسے فرعون کو کھانا میں نے کھلایا ہے ۔ فرعون نے وضاحت کی '' دیکھو بھائی اخبار نویس ! جب میرے نجومیوںنے مجھے یہ اطلاع دی کہ آج رات کسی مقام پر موسیٰ پیدا ہونے والا ہے ، جو بڑا ہوکر میری سلطنت اور میری خدائی کے دعوے کو چیلنج کرے گا تو میں نے حکم جاری کیا کہ آج رات جتنے بھی لڑکے پیدا ہوں ان سب کو فی الفور قتل کردیا جائے ۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔
میرے وزیروں اور مشیروں کا خیال تھا کہ کسی ایک بچے کو تلاش کرنے کی زحمت اٹھانے کے بجائے یہ ایک آسان حل تھا ۔ اس قتل عام میں موسیٰ بھی مارا جائے گا اور ہماری موسیٰ سے جان چھوٹ جائے گی ، لیکن میری خدائی چونکہ جھوٹی تھی اور اوپر والے '' اصلی '' خدا نے نہ صرف موسیٰ کو زندہ رکھنا تھا بلکہ ان کے ہاتھوں مجھے بھی اپنے انجام تک پہنچنا تھا ، لہذا اوپر والے نے موسیٰ کی نہ صرف جان بچائی بلکہ اسے میرے ہی محل میں پروان چڑھایا ۔ مطلب یہ کہ جس بچے کو قتل کرنے کی غرض سے ہزاروں بچے قتل کیے گئے ، وہ تو محفوظ رہا ، لیکن ہزاروں بچے ناحق مارے گئے ۔ اگر تم غور کرو تو موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی اور موبائل فون کی بندش سے ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد تو محفوظ رہتے ہیں ، لیکن عام آدمی بلاوجہ نہ صرف پریشان ہوتا بلکہ ادھ موا ہوجاتا ہے۔
اسی طرح میری سواری جب باہر نکلتی تھی تو میرا بھاری حفاظتی دستہ اس راستے پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں دیتا تھا ، جہاں سے مجھے گزرنا ہوتا تھا ۔ عام آدمی کی مجال ہی نہ تھی کہ وہ مجھے دیکھ بھی سکے ، ملاقات کرنا تو دور کی بات ٹہری ۔ اب تم کہو گے کہ اس زمانے میں بلٹ پروف گاڑیاں کہاں ہوتی تھیں ؟ تو میرے عزیز !عرض یہ ہے کہ بات موٹر سائیکل ، بلٹ پروف گاڑی یا موبائل فون کی نہیں بلکہ اس قانون کی ہے ، جو میرے زمانے میں رائج تھا اور اس کی روح کے مطابق اس پر یہاںاب بھی عمل درآمد جاری ہے ۔''
میں چونک کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا کیونکہ فرعون کی دلیل میرے دل کو لگی تھی پھر موضوع بدلنے کی غرض سے میں نے پوچھا'' تم یہاں کیسے آگئے '' ؟ فرعون مسکرا کر بولا '' پروفیسر گھڑوچیا کی مہربانی سے ، وہ واقعی روحوں کو طلب کرنے کا علم جانتا ہے اور یہ علم سینہ بہ سینہ اسے اپنے اجداد سے منتقل ہوتا آیا ہے '' میں نے دل ہی دل میں پروفیسر گھڑوچیا کو ایک موٹی سی گالی دی ۔ اسی دوران فرعون نے چونک کر ہوٹل کی وال کلاک کی طرف دیکھا اور بولا '' سوری ! میرے آٹھ گھنٹے پورے ہوگئے ۔ میرے جانے کا وقت ہوگیا ہے '' ۔ یہ کہہ کر وہ یکایک غائب ہوگیا ۔ میں نے شکر ادا کیا کہ کھانے کا بل اس نے پہلے ہی ادا کردیا تھا ۔ پروفیسر گھڑوچیا کون ہے ؟ میںبے روزگار اور بھوکا کیوں تھا ؟ ان سب سوالات کے جوابات کسی اور کالم میں عرض کروں گا ۔