اے قائد اعظمؒ فریاد ہے فریاد
اے میرے قائد اعظم آپ نے کراچی کو امن اور ترقی کا گہوارا سمجھ کر اس کو دارالسلطنت قرار دیاتھا
کس سے فریاد کریں، کس کے در پہ جائیں، نہ مینڈیٹ والے، نہ تفنگ والے، نہ عوام کے محافظ پولیس اور رینجرز کے دستے، نہ سڑکوں پر نعرہ زن لوگ، نہ عوام کی فلاح کا نعرہ لگانے والے، نہ اسلام کا بول بالا کرنے والے، نہ رمضان کا تقدس کرنے والے، ہم خانماں خراب جائیں تو جائیں کہاں؟ کاٹھیا واڑ، مالبہار، مارواڑ اور رن کچھ کی سرزمین کو ہمارے اجداد نے 1947میں دو قومی نظریہ کی پاسداری میں چھوڑا کہ اپنے ہم عقیدہ لوگوں میں جارہے ہیں، میرے قائد آپ زندہ تھے تو لوگوں نے اپنے در کھول دیے اور ہم یہاں خیمہ زن ہوگئے۔
تنکا تنکا جمع کیا، آشیاں بن گیا، بلوچوں نے پاسداری کی، جن کی تاریخ عالم میں پذیرائی ہے، ہم آئے تو اپنی زبان کے ساتھ رسم ورواج کے علاوہ اپنی علاقائی ہنر مندی بھی لائے، ہم میں میمن بھی تھے اور خوجے بھی جو صدیوں سے آباد تھے اور کچھ وہ جو بمبئی سے آئے سائٹ ایریا میں پاکستان کی پہلی بڑی ٹیکسٹائل مل ولیکا مل لگی جس کا قائد اعظمؒ نے افتتاح کیا، کراچی جو کبھی غریب پرور شہر تھا اور آج بھی ہے جہاں کی ثقافت رنگا رنگ جیسے چمن کے مانند مختلف زبانیں بولنے والے جیسے گلستان میں بلبل ہو غزل خواں ۔
7 لاکھ کا شہر جلد ہی 60لاکھ کا شہر بنا ملک کے طول وعرض سے لوگ آتے رہے اور اپنے اپنے جوہر دکھاتے رہے سڑک پر سونے والے دروازے کھول کر سونے والے چھوٹی دیواروں والے سب بے خبر سوتے تھے مگر 1985کے بعد رفتہ رفتہ شہر کے سماجی ثقافتی اور سیاسی حالات بدلتے گئے مگر پڑوسی پڑوسی پر حملہ آور نہ تھا یہ کیسا دور ہے جب ہم کاٹھیاواڑ سے نقل مکانی کررہے تھے، پڑوسی رورہے تھے گو کہ وہ ہندو تھے مگر تنگ دستی اور غربت کے اس دور میں جو اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے ہم جڑے ہوئے ہیں آج عزت وناموس، مال واسباب اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور حکومت وقت خاموش تماشائی ہے۔ یہ سوات تو نہیں جہاں طالبان کا قبضہ ہوگیا ہو ، درحقیقت طالبان بھی اس قدر سفاک نہیں ہوسکتے کہ وہ پڑوسی پر حملہ آور ہوں۔
اے میرے قائد اعظم آپ نے کراچی کو امن اور ترقی کا گہوارا سمجھ کر اس کو دارالسلطنت قرار دیاتھا یہاں کی وسعت کو دیکھ کر آپ نے جو ترقیاتی انداز لگایاتھا وہ درست ثابت ہوا اور کراچی بالآخر صنعتی شہر اور ملک کا معاشی دارالسلطنت بن گیا مگر کیا کریں سیاسی گروہ بندی، نسلی گروہی سیاست، غیر فطری ووٹ بینک کی قبضہ گیر قسم کی تیاری نے ملک کو آج اس مقام پر کھڑا کردیاہے کہ ایک طرف رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تھی اور ہم اپنے گھروں کو اس وقت چھوڑرہے تھے جب موذن مساجد میں اذان دے رہے تھے اور حی علی الفلاح کی آواز بلند ہورہی تھی یہ قافلہ جو تقریباً30ہزار نفوس پر مشتمل تھا بدین اور ٹھٹھہ کے ویرانوں کی طرف روانہ تھا ایسا لگا کہ زمین ہل گئی اور زمانہ ہل گیا خواتین بزرگ بچے ان میں زیادہ تر تھے ، آخر ہمارا قصور کیا تھا۔
ان تکلیف دہ مناظر سے ہمارے پر امن بلوچ بھائی بھی روئے بنا نہ رہ سکے ، بلوچ کچھی کوئی جھگڑا نہیں ہے بھائی ! مگر حکمرانوں کے سر پر جوں نہ رینگی، زبانی بیانی جمع خرچ ، کمیٹیوں کا قیام ، اب تو مسلم لیگ کی مرکز میں حکومت بھی ہے جو قائد اعظم کی پیروکار کہلاتی ہے وہ بھی محض تقریروں سے عوام کا پیٹ بھررہی ہے، آواز سے بجلی گیس بنارہی ہے غریبوں کو افلاس کے کنویں سے نکال رہی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کون سا دھڑا ہے اسلام اور مسلم لیگ کے نام پر حکومت قائم ہے مگر خوف خدا، اخوت اور انسانی ہمدردی کا نام لینے والا کون ہے؟ کون کرے گا ہماری جائیداد اور 55،60سال کی ریاضت کا حساب، ہر ایک تنکا آشیاں کا بکھرچکا ہے یہاں کوئی نسلی جنگ نہیں مینڈیٹ کس کا اور کب تک کس کا رہے گا؟ خدشہ کہ کوئی تبدیلی نہ رونما ہو یہ انجانے خوف اور پھر سب سے بڑھ کر بھتہ مافیا ایسی بد امنی اور پرخطر راستوں کا یہ شہر ہے اور پھر اس کے بعد حکومتی حلقوں کا خیال کہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری ہوگی، سرمایہ کاری نہیں ہر روز مزید بے روزگاری ہوگی اور فساد کا علاقہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔
ابھی تک قدیم کراچی کے جن علاقوں میں کشیدگی، گولیوں کی آوازیں ہیں ان میں ہنگورہ آباد، بہار کالونی ، آگرہ تاج، نیاآباد،کلری ، مچھی میانی مارکیٹ، لیاری خصوصاً، الفلاح روڈ، مندرہ محلہ، بغدادی، پھول پتی لائن، ہشت چوک ، کمہارواڑہ، رانگی واڑہ، چاکی واڑہ ، لیمارکیٹ کے اطراف کا علاقہ میٹھادر اور کھارادر کا وہ علاقہ بھی قابل ذکر ہے جو قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے آخر کس کو ہم وکیل کریں اور کس در پر منصفی کے لیے جائیں بظاہر یہ کورٹ، تھانہ، پولیس اور رینجرز سب ہی عوام کے تحفظ کے لیے موجود ہیں مگر یہ نمائش ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب ان علاقوں کے لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی اگر یہ کشیدگی اور پھیلے گی تو پھر پورا ملک اس کی لپیٹ میں اس لیے آجائے گا کہ پٹرول اور بعض ضروریات کی یہ گزرگاہ بند ہوجائے گی۔
ماڑی پور روڈ اور حب ریور روڈ بند ہوجائے گا، ماردھاڑ سے بھرپور فلم بننے کو ہے، کیونکہ کچھی قوم کے زیادہ تر مرد یہیں رہ گئے ہیں اور بہت سے میمن برادری کے مرد بھی کھارادر اور میٹھادر میں موجود ہیں گویا ایک مورچہ بند لڑائی کے سامان مہیا کیے جارہے ہیں ، بابا لاڈلا کے ستم رسیدہ غفار ذکری آخر کار چینل پر لائے گئے، مگر سیاست دان لب کشائی سے گریزاں ہیں کیونکہ حق نہیں بلکہ ووٹ بینک کا مسئلہ ان کے لیے اہم ہے تمام سیاسی پارٹیوں کو حقیقت کا علم ہے مگر سیاست میں ہمیشہ سچائی اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ملک میں فقدان ہے ہر بات پر مصالحت ایک سیاسی اصول بن گیا ہے۔ افسوس قائد اعظم تو اصولوں کے پابند تھے اگر قائد اعظم جو اہر لعل نہرو کینبٹ مشن کی بات مان لیتے تو آج پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ اس نیشنل اسمبلی کو تو حق سچائی اور ہمت پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ رہے، خدانخواستہ ملک نہ رہا تو پھر کس کی بنیاد پر مصالحت اور مصلحت کی جائے گی در اصل مصلحت اور مصالحت میں بڑا فرق ہے دونوں الگ الگ موقع پر استعمال ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ راست گوئی میں کوئی چیز آڑے آرہی ہو تو مصلحت سے کام لیاجائے، آج کل لیاری کے لوگ قائد اعظم اور اؓپنے اجداد کو یاد کررہے ہیں اور ایک زبردست بحث قیام پاکستان، دو قومی نظریہ اور آج کل کے حالات پر جاری ہے کیونکہ ایسا نہیں کہ کچھی میمن قوم میں صرف تجارت پیشہ اور مزدور پیشہ لوگ ہیں صاحبان علم بھی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے بلوچوں میں صاحبان علم ودانش اور وسیع النظر موجود ہیں، آل پارٹیز کانفرنس کاشور ہے ڈرون حملوں پر بات ہورہی ہے پہلے محدود پیمانے پر جو کچھ لیاری میں ہورہاہے اس کا دیر پا حل نکالنے کا خیال اول ہونا چاہیے تھا کیونکہ کراچی کی علاقائی آگ کو مزید پھیلنے کا موقع ملنے کو ہے، ہر علاقے سے گولہ بارود کی بو آرہی ہے معاملات صف بندی کی طرف جارہے ہیں اور ایک بڑی نسلی فساد کی جانب یہ حالات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اگر فوری طورپر اس پر قابو نہ پایاگیا تو پھر کراچی جس کی آبادی اب ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے کیا کچھ ہونے کو ہے ایک طرف اﷲ اور رسول کی باتیں ہورہی ہیں دوسری طرف ہزاروں لوگوں کا کراچی کا چھوڑنا ایک بڑے المیہ کا پیش خیمہ ہے ٹھٹھہ اور بدین پر نہ کوئی خیمہ ہے اور نہ کوئی این جی او جو ان بے خانماں لوگوں کی داد رسی کو پہنچ جائیں کیونکہ کام میں فوٹو سیشن ضروری ہے اور نام ونمود بھی لہٰذا کوئی اب تک ان خاک نشینوں تک نہیں پہنچا اور جب کوئی رسائی کو نہیں پہنچا تو کوئی بات نہیں ایسے لوگوں کے لیے روح قائد خود پہنچے گی اور استفسار کرے گی کہ تم کیوں بے گھر ہوئے؟ کیا میرا دو قومی نظریہ اتنا کمزور تھا کہ بنگلہ دیش بننے کے باوجود حاکم کچھ نہ سمجھ سکا لیاری میں آج بھی ہر لب پر قائد اعظم کا نام ہے۔ وہ کچھ اس طرح سوچ رہے ہیں کہ کیا ابوالکلام درست سوچ رہے تھے اور ہم گمراہ تھے کہ ہم قائد !
تیری الفت میں گھر لٹا بیٹھے
تیری الفت میں ناصبور ہوئے
(پروفیسر مجتبیٰ حسین)
اب ہماری فریاد صرف قائد اعظم سے ہے یا اپنے اجداد سے کہ وہ ہم کو اسلام کے نام پر لائے اور پہلی رمضان کو ہم کراچی سے کوچ کررہے ہیں، لیڈروں کا صرف ایک مقصد رقم بٹورو رقم بٹورو عوام کو لوٹو مستقبل کے خوبصورت خواب دکھاؤ ہر طرف ڈرون حملوں کا شور ہے کچھی برادری پر ڈراؤنے حملے کون روکے گا۔ یا یہ بھی کوئی خفیہ ڈیل کا حصہ ہے یا پھر بیرونی سازش جو تمام معاملات کا حل ۔