ملالہ کا خوف…

میری نظر میں جس نے بھی یہ تقریر دیکھی ہو گی اس بچی کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہا ہو گا۔



تقریباً نو ماہ قبل ایک ہولناک حادثے کا شکار ہونے والی پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی 12جولائی کو 16سال کی ہو گئی۔ اقوامِ متحدہ نے بارہ جولائی کو ''ورلڈ ملالہ ڈے'' یا عالمی یومِ ملالہ قرار دیا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا میں ہر بچے کے لیے تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اس دن ملالہ نے تقریباً ایک سو ممالک سے آئے ہوئے ایک ہزار سے زائد مندوبین سے اقوام متحدہ میں خطاب کیا۔ اس موقعے پر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور دنیا بھر میں تعلیم کے سفیر، گورڈن براؤن اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون بھی موجود تھے۔ اس تقریر کو دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا۔

میری نظر میں جس نے بھی یہ تقریر دیکھی ہو گی اس بچی کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہا ہو گا۔ اگر کسی کو اس بچی کی تقریر سے تکلیف ہوئی ہے تو یہ اسی سوچ کے حامل لوگ ہیں جنہوں نے ملالہ کی زندگی ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی۔کوئی کہتا ہے کہ ملالہ کی تقریر لکھی ہوئی تھی بلکہ کسی گورے کی لکھی ہوئی تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ ملالہ کو خوامخواہ شہرت دی گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ ملالہ کا یوں منظر عام پر آنا ''عالم اسلام'' کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے برطانوی شہریت اسی وجہ سے دی گئی کیونکہ یہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کی گھٹیا سوچ پر اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ انھی نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں نے آج وطن عزیز کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔

ان کی وجہ سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کر دیے گئے، ثقافتی پروگرامز نہ ہونے کے برابر، فنکاروں پر ایسا خوف سوار کہ وہ بیرون ملک جا کر کام ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے، سیاحت جو پہلے ہی بیمار چل رہی تھی اسے قبرستان کی راہ دکھا دی۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے ملک آنے کو تیار نہیں۔ کشکول توڑنے کے دعویداروں نے پورا دامن ہی ان لوگوں کے سامنے پھیلا دیا بلکہ ان کے قدموں میں گر پڑے جنھیں وہ ملک دشمن کہا کرتے تھے۔عقل کے اندھوں نے اگر ملالہ کی تقریر غور سے دیکھی ہو تو نظر آ جاتا کہ وہ کتنی با اعتماد اور پر عزم تھی۔ ماہرین کے مطابق اگر آپ کسی کو بھی اچھی سے اچھی تقریر لکھ کر دے دیں لیکن جب تک پڑھنے والے میں اعتماد اور جذبہ نہیں ہو گا تو وہ تقریر قطعاً بے اثر ہو گی۔ اصل میں یہ لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بانی پاکستان کو بھی منفی خطابات سے نوازا، ان کی نظر میں عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے والا بھٹو بھی غلط ٹھہرا۔ انھیں عورت کی حکمرانی تو پہلے دن سے ہضم نہ ہوئی اور موقع پاتے ہی اسے منظر عام سے ہٹا دیا۔

سونے پہ سہاگہ، ملالہ نے اپنی تقریر کا آغاز بھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ذکر سے کر دیا۔ اب ان لوگوں کو یہ بات کیسے پسند آتی کہ شہید بینظیر بھٹو، جنہوں نے مظلوم عوام اور بالخصوص پاکستان کی خواتین کے حالات کو بہتر بنانے کی تاریخی جدوجہد کی، ان کا نام ایک بار پھر بین الاقوامی فورم پر گونج اٹھے۔ اس بات نے تو ان لوگوں کے ہوش ہی اڑا دیے۔ انھی جیسی سوچ رکھنے والی نام نہاد سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شاید ملالہ کے خطاب پر بادل نخواستہ کوئی بیان دے دیتے لیکن ملالہ کے منہ سے شہید بینظیر کا نام سن کر ان کے اندر کا دیرینہ بغض ایک بار پھر جاگ اُٹھا۔ سوشل میڈیا پر ملالہ کی تقریر کے بعد جو طنزیہ مکالمات جاری کیے گئے تھے وہ عوام کے شدید رد عمل کے بعد ہٹا دیے گئے۔

ان حرکات سے ان کی جمہوریت، علم کے فروغ، خواتین کے احترام اور ان کی ترقی کے بارے میں منافقانہ رویے کی جھلک بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ جس تعلیم کے حصول پر ہمارا ربِ کریم زور دیتا ہے اس کی مخالفت کرنے والوں کے تشدد کی وجہ سے آج ملالہ کو عالمی فورم پر خطاب کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے والوں کو ملالہ اور اس جیسی بچیوں نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ان کے عزائم اور علم کے ہتھیار نے انتہا پسندوں کے اسلحے کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ آج یہ ملالہ سے بے حد خوفزہ ہیں کہ ایک معصوم بچی نے ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے۔ اُس نے بتا دیا کہ'' ایک طالبعلم، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا تبدیل کر سکتے ہیں۔'' آج ملالہ نے انتہا پسندوں کو شکست دے دیدی، ہم اپنی قوم کی بہادر بیٹی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ابھی یہ جنگ پوری طرح ختم نہیں ہوئی، ابھی بہت ساری ''ملالاؤں'' کو علم کے دشمنوں کی قید سے آزاد کروانا ہے۔ اس جنگ میں ہم سب ملالہ کے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ علم کی جیت ہو گی اور پاکستان کا مستقبل ملالہ جیسے بچوں کے ہاتھوں ہی سنورے گا۔

اک اشک ندامت کا نکل جائے تو اچھا

انسان کسی طرح سنبھل جائے تو اچھا

انصاف کا پانا یہاں آساں نہیں یارو

اب ملک کا قانون بدل جائے تو اچھا

مظلوم کی فریاد کو سن لے ارے ظالم

پتھر سا ترا دل بھی پگھل جائے تو اچھا

غفلت میں گزرتی ہے اگر چڑھتی جوانی

دو دن میں جوانی تری ڈھل جائے تو اچھا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں