بحیثیت مسلمان ہماری ترجیحات

آج امت مسلمہ ترجیحات دین کے ضمن میں وہم، ظن اور گمان کی پیروی کا شکار ہو گئی ہے۔


[email protected]

بلاشبہ آج امت مسلمہ و عالم اسلام کو بے شمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے اور ہماری بے بسی، لاچارگی اور کسمپرسی تمام عالم پر عیاں ہے آج تمام عالم اسلام میں ایک بہترین اور قابل لیڈر شپ کا بھی شدید فقدان ہے تاہم اس کے باوجود مسلم امہ بہترین دانشوروں سے محروم نہیں۔ یہ اور بات ہے ہم اپنے دانشوروں کی حکمت و دانائی اور بصیرت و دانش مندی سے استفادہ نہیں کرتے بہرحال ایسے ہی چند دانشوروں میں ایک اہم نام علامہ یوسف القرضاوی کا بھی ہے، عالم اسلام کی چند اہم علمی شخصیات میں شیخ قرضاوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور آپ اس دور کے ان علماء میں سے ہیں جو مجتہد عصر کا درجہ رکھتے ہیں۔

آج مسلم امہ میں بے شمار مسائل پر باہمی طور پر عدم اتفاق اور تفرقہ درحقیقت دین اسلام کی عدم معفرت اور عقل و شعور و ادراک نیز حکمت و بصیرت کے فقدان کے سبب ہے۔ ہم اپنی زندگی میں ترجیحات دین کا تعین ہی نہیں کر پاتے اور نہ ہی مدارج دین کی اصل سے واقف ہیں لہٰذا پھر معرفت دین کا عدم ادراک اور اپنے اپنے گمان و خیال کے سبب بعض اہم دینی معاملات و مسائل کو خصوصیت و افضلیت و اولیت کے ساتھ مد مقابل کے سامنے پیش کرنا اور پھر ہٹ دھرمی سے اس پر قائم رہتے ہیں دوسروں کے سروں پر تھونپنا اور جانوں پر مسلط کرنا نہ صرف ترجیحات دین کی اصل سے پہلو تہی کرنا ہے بلکہ دین میں بگاڑ کا حقیقی سبب بھی ہے۔

آج امت مسلمہ ترجیحات دین کے ضمن میں وہم، ظن اور گمان کی پیروی کا شکار ہو گئی ہے۔ فی زمانہ کلمہ گو مسلمانوں میں ایک اچھی بھلی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا کلمہ پڑھنا انھیں دین پر عمل کے لیے نہیں ابھارتا، وہ نماز تک کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن جو لوگ، حضرات و خواتین دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں ان کی مشکل یہ ہے کہ انھیں دین کا جتنا علم ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور اہم اور غیر اہم کی تمیز کے بغیر جوش ایمانی میں اس پر اقرار بھی کرتے ہیں، خواہ اس سے کچھ بھی مسائل پیدا ہو رہے ہوں۔ اس طرح دین پر عمل جو ایک فطری اور آسان کام ہے مشکلات و مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ دینی احکامات کا تعلق زندگی کے ہر دائرے سے ہے۔ عمل کرتے ہوئے روزمرہ زندگی میں ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ دین کے دو ہی راستے نظر آتے ہیں، کس پر عمل کیا جائے؟ کسے ترجیح دی جائے؟

ایک بنیادی رہنمائی تو ہر ایک کو یہ ہے کہ نفل کو فرض پر ترجیح نہ دی جائے۔ نفل ترک ہو جائے، فرض ترک نہ ہو لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں بے شمار ایسے مسلمان ہیں جو ان معمولی ترجیحات سے بھی واقف نہیں نماز عید کے لیے عید گاہ میں تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آئیں گے جب کہ اسی دن کی فجر کی نماز میں مسلمان گنتی کی تعداد میں نظر آئیں گے حالانکہ نماز فجر فرض اور نماز عید واجب ہے! ہمارے کئی بھائی ایسے بھی ہیں جو آپ کو متواتر فرائض نماز سے غیر حاضر نظر آئیں گے تاہم شب معراج، شب برأت اور شب قدر میں پوری پوری رات شب بیداری میں مصروف نظر آئیں گے ایسے بھی ہیں جو پوری پوری نعتیہ محافل میں شرکت کے بعد عین اس وقت جب نماز فجر کا وقت قریب ہوتا ہے سونے کے لیے اپنے نرم گرم بستروں میں چلے جاتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو پوری رات جاگ کر عبادت کرتے ہیں لیکن عین نماز فجر کے وقت اتنے تھک کے چور ہو چکے ہوتے ہیں کہ فجر قضا ہو جاتی ہے۔

اگرچہ حدیث شریف کے مطابق جس مسلمان نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور پھر فجر باجماعت ادا کی تو اسے ساری رات عبادت کا ثواب حاصل ہوتا ہے لیکن بیشتر لاعلمی میں غلط ترجیحات کا تعین کرتے ہیں، یہ حدیث بھی دیکھئے انتہائی قابل غور ہے کہ مومن اچھے اخلاق کی بدولت دن میں روزہ دار اور رات میں شب بیدار کے برابر کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بروز قیامت میرے سب سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والا ہو گا لیکن آج ہماری حالتیں بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نفلی حج اور یکے بعد دیگرے عمرے کا رواج عام ہو چکا ہے جب کہ دوسری جانب معاشرے میں بھوک، غربت و افلاس اور جہالت عام ہے اور دین کے اجتماعی تقاضے پورے کرنے کے لیے وسائل فراہم نہیں ہو پاتے۔

یہ موضوع بھی ترجیحات سے متعلق ہے، زندگی کے ہر ہر قدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہے اور مسلم امہ اپنی ان ہی ترجیحات کا جائزہ لے کر اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کر سکتی ہے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو اس طرح تحریکات اسلامی اپنے روز مرہ کے مسائل اور بالخصوص سیاسی حالات میں الجھنے کے سبب اپنی اصل اور بنیاد سے جس پر زیادہ توجہ اور ترجیحی بنیاد پر کام کرنا چاہیے لاپرواہ ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور شخصی یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ سیاسی عمل کے شور و غل اور ابلاغ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر سیرت و کردار کے بنیادی کام سے غافل کر دیتے ہیں۔

تبدیلی فرد کا اصل معیار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن و سنت سے براہ راست تعلق اللہ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ترجیحات پر مسلسل غور و فکر اور تجزیہ و تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوں اور نہ ایک میکانیکی نظام ہی میں تبدیل ہو نیز نہ ہی مذہب کے نام پر اس انتہا پسندی کو فروغ ملے جس نے پوری دنیا میں اسلام کی سچی تصویر پر پردہ ڈال دیا اور اصل خوشنما چہرے کو بدنما اور مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ آج کل ماہ رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہے اس ماہ مبارک کے حوالے سے بھی ایک اہم عبادت تروایح میں تعداد کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر مسلک کا پیروکار اپنی بات پر اتنا زور دیتا ہے کہ بعض اوقات نوبت لڑائی جھگڑے اور تصادم و قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے حالانکہ تراویح میں رکعتوں کی تعداد کا مسئلہ ایک فروعی مسئلہ ہے جب کہ کسی مسلمان کو عمداً قتل کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ اس پر خلود فی النار کی وعید سنائی گئی ہے۔

معاشرتی اعتبار سے بھی ذرا ہماری ترجیحات دیکھئے کہ جب بھی کوئی مذہبی موقع یا تہوار آتا ہے مثلاً رمضان المبارک، عید الفطر، عیدالاضحی، حج وغیرہ تو گویا عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا ایک دیو قامت جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے اور سب کچھ عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتا ہے یہ معاشرتی اعتبار سے ہمارے شایان شان نہیں۔ ترجیحات دین کے ضمن میں علامہ یوسف القرضاوی اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں انتہائی اہمیت کا حامل ترجیحات دین کا مسئلہ ہے۔ امت مسلمہ میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر مختلف معاملات و نظریات کے پیمانوں میں جو عظیم خلل پیدا ہوا ہے اور ان کو ایک دوسرے پر مقدم یا موخر کرنے کے حوالے سے جو غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ان مسائل کا حل درحقیقت ترجیحات دین کے درست تعین میں پوشیدہ ہے۔

یہ بات طے کرنا ایک مشکل مسئلہ بن گیا ہے کہ احکام الٰہی اور فرامین نبویؐ کی سیڑھی میں کس چیز کا کیا مقام ہے، ان میں سے کس کام کو مقدم کیا جائے اور کس کو موخر کیا جائے کس کو پہلے نمبر پر رکھا جائے اور کس کا نمبر دوسرا ہو۔ خاص طور پر آج کل تو ترجیحات کا تعین کرنے میں بہت افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ اس چیز کے لیے میں پہلے ''مراتب اعمال'' کی اصلاح استعمال کیا کرتا تھا اب کئی سالوں سے میں اس کے لیے ''ترجیحات کا مسئلہ'' کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں کیونکہ یہ لفظ زیادہ جامع، وسیع اور موضوع پر زیادہ بہتر طریقے سے دلالت کرتا ہے۔ ترجیحات دین کا معاملہ دراصل ایسی ترجیحات سے بحث کرتا ہے جن کا شریعت نے زندگی کے مختلف امور کے بارے میں تعین کیا ہے اور ان کی پشت پر قومی دلائل موجود ہیں ممکن ہے کہ اسلامی فکر کی درستی، طریق کار کے تعین اور اس مسئلے کے حل کے لیے بنیاد فراہم کرنے میں یہ گزارشات کوئی کردار ادا کر سکیں۔

جو لوگ اسلامی دعوت کے میدان میں کام کرتے ہیں ممکن ہے ان کے لیے اس میں کوئی رہنمائی کا سامان فراہم ہو اور ان کے دلوں میں یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہو کہ کس چیز کو شریعت نے مقدم رکھا ہے اور کسے موخر کیا ہے، کس چیز کے بارے میں اس نے سختی سے اختیار کی ہے اور کس کے بارے میں نرمی سے کام لیا ہے، کون سا معاملہ ہے جسے شریعت نے اہم قرار دیا ہے اور کون سا ایسا ہے جسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، امید ہے کہ اسلام کی حقیقی معرفت اور ترجیحات دین کا فہم، شعور و آگہی سے افراط کا راستہ اختیار کرنے والوں کے افراط اور دوسری طرف تفریط کرنے والوں کی تفریط میں کمی واقع ہو گی اور دین کے لیے برسر پیکار افراد کے درمیان نقطہ نظر اور طریق کار میں پیدا ہونے والے اختلافات بھی کم ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں