ذمے دار کون…
ملک کی اعلیٰ عدالتیں شور مچا رہی ہیں کہ ہمارے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا
QUETTA:
ہمارے بھولے بھالے ٹی وی اینکر پرسن اپنے پروگراموں میں بلائے گئے مہمانان گرامی سے بڑی معصوم صورت بنا کر پوچھتے ہیں کہ ''آخر کراچی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟'' جہاں تک میرا خیال ہے کہ جب کسی موضوع پر کوئی ٹاک شو کسی بھی چینل پر پیش کیا جاتا ہے تو اس پروگرام کا میزبان اس موضوع پر مکمل ہوم ورک کر کے آتا ہے۔ اس موضوع یا مسئلے کے تمام پہلوؤں سے وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے تب ہی تو وہ مہمانوں کے جوابات کو درمیان ہی میں کاٹ کر اپنا اگلا سوال کر دیتا ہے اور بے چارہ مہمان اپنی پہلی بات کو پورا بھی نہیں کر پاتا کہ اگلے سوال کا اس پر اچانک حملہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔ بہرحال بات ہو رہی تھی کراچی میں ہر روز بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال کی، جس کے بارے میں ہمارے صحافی، دانشور اور تمام ذمے داران بے خبری کا شکار نظر آتے ہیں (اگرچہ یہ درست ہے نہیں سب جانتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے)۔کراچی کو ایک طرف رکھیے، ذرا پاکستان کے موجودہ منظر پر نظر ڈالیے۔ جس ملک کے تمام ادارے ناکارہ ہوں، نااہل افراد کے رحم و کرم پر ہوں، جہاں امن و امان قائم کرنے والے ادارے سفارشی، غیر تربیت یافتہ اور ابن الوقت افراد پر مشتمل ہوں، وہاں امن قائم ہو گا یا صورت حال مزید ابتر ہو گی؟
ملک کی اعلیٰ عدالتیں شور مچا رہی ہیں کہ ہمارے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، ہر کوئی اپنی من مانی پر تلا ہوا ہے اور کوئی بھی صورت حال کی سنگینی پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہا۔۔۔۔ گزشتہ ہفتے کے بلکہ صرف دو تین دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے کتنے اداروں کے ملازمین کئی کئی ماہ کی تنخواہ نہ ملنے پر سرتاپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، رمضان المبارک کے مہینے میں بھی ان کے گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں، عید کی خوشیوں کا تو کوئی تصور ہی نہیں، استاد جیسے محترم افراد خود سوزی کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں لیاری کی بدترین صورت حال پر ایک پولیس اہلکار کی گرفتاری عمل میں آئی جس نے (اخبارات کے مطابق) بھتہ خوری کا اقرار کرتے ہوئے پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ حکام کو اس میں سے حصے پہنچانے کے علاوہ ٹی وی چینلز کے کئی ذمے داروں کو بھی حق دار قرار دیا، اس مبینہ ملزم کی دو کالمی تصویر اخبار میں چھپی، اس میں چہرے پر سولی پر چڑھائے جانے والے مجرموں والی نقاب چڑھی ہوئی تھی اور خبر کا انداز کچھ یوں تھا کہ ملزم کے بتائے ہوئے ناموں کو اگر منظر عام پر لایا گیا تو کئی اعلیٰ شخصیات کے ناموں پر حرف آئے گا اس لیے وہ نام پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔۔۔۔ اب ذرا سوچیے کہ جو جرائم کے اصل محرک ہیں ان کی عزت کا تو اتنا خیال لیکن جو بے گناہ ہر روز اس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ان کا کسی کو کوئی احساس تک نہیں۔۔۔۔ ہر روز صرف کراچی میں کئی درجن گھروں میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے۔
ہر طرف موت کا رقص اور بدامنی کا راج ہے کسی ایک ادارے کی کارکردگی قابل تعریف تو درکنار قابل ذکر بھی نہیں۔ شہر میں گلی گلی کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، برسات کا موسم شروع ہے، ایسے میں لوگ باران رحمت کی دعا کرتے بھی ڈرتے ہیں کہ اگر بارش ہو گئی تو اس کچرے سے جو بیماریاں پھوٹیں گی تو پھر کیا صورت حال ہو گی۔ وہ عوام جو کئی کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں جن کے گھروں میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ بھلا خدانخواستہ اگر بچے بیمار پڑ جائیں تو علاج کیسے کرائیں گے؟ اگر کچھ کر کے اسپتال لے بھی گئے تو ان کی صورت حال بھی یہ ہے کہ بغیر سفارش اور رشوت کے ڈاکٹر تک پہنچنا محال ہے۔ آلات و دواؤں کی قلت کے باعث علاج بھی ممکن اور محفوظ نہیں۔کراچی جو کبھی صنعتی و تجارتی، ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا آج یہاں نہ صنعتیں نہ تجارتیں، نہ ثقافت اور نہ ادب، کوئی بھی محفوظ و فعال نہیں، آج اس شہر کی سب سے بڑی صنعت بھتہ خوری، بہترین تجارت اغوا برائے تاوان ہے۔
ادبی شخصیات جو کسی شہر بلکہ ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں جو کسی کے نقصان کا باعث نہیں ہوتیں وہ بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بن رہی ہیں، ماضی کی چیدہ چیدہ شخصیات کو چھوڑ کر حال ہی میں پروفیسر سبط جعفری اور پروفیسر اظفر رضوی کے سانحے تو ابھی بالکل تازہ ہیں۔۔۔۔ شہر قائد کا عالمی مشاعرہ پوری دنیا کا مرکز نگاہ ہوتا تھا جو نیشنل اسٹیڈیم کے کھلے پارکنگ ایریا میں کئی سال بڑے اہتمام سے منعقد ہوا، پھر آہستہ آہستہ محدود جگہوں پر ہوتا ہوا تین سال قبل ایکسپو سینٹر کے ہال کے بعد ایک اور بار کلفٹن دو تلوار کے قریب پارک میں ہوا اور اسی سلسلے کے ایک دوسرے عالمی مشاعرے میں دہشت گردی کے بعد اب شاید یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے، یعنی شہری ہر طرح کی مثبت ادبی و ثقافتی سرگرمیوں سے محروم کر دیے گئے۔۔۔۔ جہاں پہلے ہی ادب کا ذوق نہ ہونے کے برابر تھا وہاں اب بالکل سناٹا چھا جانے سے نئی نسل تو سرے سے ادب سے دور ہو گئی ہے۔۔۔۔ اور جو قوم اپنے ادب و زبان سے ہی بے بہرہ ہو اس کا مستقبل کیا ہوتا ہے شاید یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔۔ یوں بھی زندگی خوف و ناامیدی کی نذر ہو کر رہ گئی ہے، ایسے میں جب جان کے لالے پڑے ہوں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں کس کا دل لگتا ہے؟۔۔۔۔ مگر طالبانِ علم و آگہی اور باذوق لوگ اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتے ہیں اور آج بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر علم و ادب کی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔
تعلیمی اداروں کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے ختم ہونے کے باعث آج کا طالب علم یوں بھی اپنی تاریخ، ادب، زبان، رسم و رواج سے دور ہے، آج کا طالب علم حیرت سے پوچھتا ہے کہ مباحثے کیا ہوتے ہیں، بیت بازی کس کو کہتے ہیں اور مشاعرہ کس چڑیا کا نام ہے۔۔۔۔ ایک زمانہ تھا کہ طلبا اچھے اور معیاری اشعار یاد کرنا قابل فخر سمجھتے تھے، گفتگو میں برمحل اشعار اور محاوروں کا استعمال کرتے تھے، روایتی اور جدید شعراء کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔۔۔۔ ماضی میں جب ہم جھانکتے ہیں تو دور طالب علمی اس قدر دلکش نظر آتا ہے کہ طلبا اسکول و کالج سے غیر حاضر ہونا بھی گناہ سمجھتے تھے۔۔۔۔ ہم خود بیماری میں بھی اسکول جانے کی ضد کرتے تھے کہ کوئی بھی دن ایسا نہ ہوتا تھا کہ یادگار نہ ہو اور کوئی بھی ہم نصابی یا غیر نصابی تقریب سے ہم محروم نہ رہ جائیں۔
آج کا طالب علم تعلیمی ادارے میں آ بھی جائے تو کلاس سے کنارہ کرتا ہے اس کو یہ تک اچھی طرح معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے نظام میں کیا کیا شامل ہے اور کیا کچھ پڑھ لیا گیا ہے اور یا باقی ہے۔۔۔۔ غرض یہ کہ کس کس بات کا ذکر کیا جائے، کس کس صورت حال کا رونا رویا جائے۔۔۔۔ آج ماضی کا حسن اور بے فکری خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کا نوجوان کتاب سے اس قدر دور ہے کہ نصاب کی کتاب بھی صرف پاس ہونے کے لیے پڑھتا ہے۔۔۔۔ کوئی کسی بھی Activity میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں از خود آمادہ نہیں، اساتذہ زبردستی کسی نہ کسی طرح اگر ان کو آمادہ کر لیں تو قید بامشقت سمجھ کر اس کام کو کر لیتے ہیں۔۔۔۔ آپس میں علمی گفتگو کے بجائے فلمی گفتگو اور مکالموں کا تبادلہ کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ آج ڈگری یافتہ افراد کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے جہالت اور تنگ نظری اتنی ہی عام ہو گئی ہے۔۔۔۔ باتیں تو اور بھی بہت ہیں جو کئی صفحات پر بھی پوری نہ ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں فوراً تلاش کرنا چاہیے ورنہ صورت حال بہتر ہونے کا امکان بھی ختم ہو جائے گا۔