افغان امن مذاکرات میں دراڑ کیوں حصہ آخر
جب تک امریکا مذاکرات میں روس، چین اور ایران کو نہیں بٹھاتا، آن بورڈ نہیں لیتا، افغان عمل کا سلسلہ آگے بڑھنا مشکل ہے
افغان طالبان اشرف غنی کی حکومت سے کسی طور پر بھی مذاکرات کےلیے آمادہ نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ
FAISALABAD:
امریکا کو چاہیے وہ افغان مسئلے کی گہرائی اور افغان عوام کے مطالبات سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس کی روشنی میں مذاکراتی وفد فروعی مسائل اور غیر ضروری باتوں سے گریز کر کے اصل اور بنیادی موضوع پر گفتگو کرے۔ یہ بات بھی سمجھیے کہ امارت اسلامیہ کی قیادت اور مذاکراتی ٹیم کے نمائندے چالیس سالہ جنگ اور انقلاب کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں ورغلانے کا خیال اپنے دماغوں سے نکال دینا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکی عوام کو اس جنگ کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا مذاکراتی وفد کو بھی چاہیے کہ وہ موقع ضائع نہ کرے اور مذاکرات میں امارت اسلامیہ کے سنجیدہ مؤقف سے فائدہ اٹھائے اور ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے ٹاسک کو بھی نقصان نہ پہنچائے۔ یہ سازش امریکا کے مفاد میں ہے، اور نہ ہی افغانستان کے مفاد میں...
طالبان نے سعودی عرب میں منعقد ہونے والے اجلاس سے انکار کے حوالے سے جو مؤقف اپنایا ہے، اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امریکا خود اور دوسرے ممالک کے ذریعے ہمیں دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے، تاکہ ہم افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کےلیے آمادہ ہوجائیں۔
طالبان کے اس آفیشل بیان میں سرسری طور پر اور کچھ باتیں اشارتاً بتائی ہیں جسے ہم قارئین کے سامنے واضح کرتے ہیں۔
سعودی اجلاس میں شرکت سے انکار کے دو پہلو ہیں:
پہلا یہ کہ طالبان کو سعودی عرب میں چوتھے اجلاس کے حوالے سے بتایا گیا۔ البتہ اتفاق رائے کا فقدان ضرور تھا کہ فریقین کو اس حوالے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ جب کہ مذاکراتی وفد نے دوسری غلطی یہ کردی کہ امریکا اور افغان حکومت کے مطالبہ پر سعودی عرب نے نہ صرف طالبان پر دباؤ بڑھایا، بلکہ اپنے طور پر اشرف غنی حکومت کے وفد کو ریاض کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دے ڈالی۔ جو فریقین کے مابین طے شدہ اصولوں سے انحراف کے مترادف فعل تھا۔
اس سے دو دن قبل طالبان سعودی عرب کے اس اجلاس کے لیے بادل نخواستہ تیار بھی تھے، اگر چہ ان کی اتفاق رائے اس میں شامل نہ تھی۔ لیکن جب طالبان کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ انہوں نے افغان وفد کو بھی خفیہ طور پر دعوت دی ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر ریاض کی میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا کہ سعودیہ اس معاملے میں مخلص دکھائی نہیں دے رہا۔ طالبان کا مؤقف تھا کہ وہ ریاض میں ہونے والے اجلاس میں بیٹھے ہوں اور اوپر سے افغان حکومت کا وفد آجائے، اس سچویشن کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اجلاس کا بائیکاٹ کردیں۔
تو بنیادی طور اس سعودی اجلاس میں دو غلطیاں مذاکراتی وفد سے سرزد ہوئیں کہ انہوں نے اجلاس کےلیے اتفاق رائے نہیں لی، جب کہ افغان وفد تک کو دعوت دے ڈالی۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے مذاکرات سے انکار کی۔ کیوں کہ افغان طالبان اشرف غنی کی حکومت سے کسی طور پر بھی مذاکرات کےلیے آمادہ نہیں۔
یوں بدقسمتی سے یہ اجلاس امریکا کی جانب سے ایجنڈے میں یکطرفہ اور اپنی پسند کے نکات شامل کرنے کی بھینٹ چڑھ گیا۔
مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ مذاکرات میں طے شدہ ایک نکتہ کو پس پشت ڈالا گیا تھا۔ وہ یہ کہ امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق طے شدہ معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس بناء پر جب عین اس وقت اجلاس کے ایجنڈے کی تفصیلات طالبان کے علم میں آئیں تو معلوم ہوا کہ اجلاس کے ایجنڈے میں امریکی فوجیوں کی واپسی پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اس کی جگہ ایجنڈے میں طالبان کی فائر بندی اور افغان آئین میں تبدیلیوں سمیت اس نوعیت کے دیگر معاملات شامل کرلیے گئے ہیں اور ان ایشوز پر ہی ڈسکشن کی جائے گی۔ جس پر طالبان نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ مذاکرات کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل طور پر انخلا کرے۔ اس سے قبل طالبان نے واضح پیغام دیا تھا کہ مذاکرات میں پیش رفت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک امریکا انخلا نہ کرے۔ بصورت دیگر مذاکرات تعطل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس بناء پر یہ سچویشن طالبان کےلیے نہایت مایوس کن تھی کہ چوتھے دور کے اجلاس کے ایجنڈے میں امریکا کے افغانستان سے نکلنے کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔ بلکہ فائر بندی کے معاملے کوایجنڈے کی ترجیح بنایا گیا تھا جو اس وقت کے حالات سے بالکل ناموافق ہے۔ باوجود یہ کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں امریکی نمائندے نے اتفاق کر لیا تھا کہ اگلے اجلاس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا ایشو کو بھی حسب سابق ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے گا۔ لیکن بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی مذاکراتی وفد نے وعدہ خلافی کی۔ جب کہ اس سے قبل ابوظہبی میں ہونے والی میٹنگ میں بھی اس ایشو کو زیر بحث نہیں لایا گیا تھا، اور طے پایا تھا کہ اگلے اجلاس میں یہ معاملہ ایجنڈے پر ہوگا۔ تاہم دوبارہ وعدہ خلافی کی گئی۔ جس کے نتیجے میں طالبان نے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔
اس وعدہ خلافی کا ذکر طالبان نے سرسری طور پر اپنے بیان میں بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ نومبر 2018ء میں دوحہ میں ہونے والی میٹنگ میں امریکا نے آمادگی ظاہر کی تھی کہ اگلے اجلاس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج نکالنے کے معاملے پر بھی بات ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود اس ایجنڈے کو پس پشت ڈال دیا گیا جو مفاہمت اور مذاکرات کے اس عمل میں ڈیڈ لاک کا سبب بنا۔
تیسری وجہ جو مذاکرات میں تعطلی کا سبب بن گئی جس نے افغان امن مذاکرات کی کامیابی پر غیر یقینی کے بادل چھانے کا اظہار کیا (اگر چہ یہ سبب بنیادی تو نہیں البتہ اعتماد کے فقدان کا سبب ضرور بنی) کہ امریکا نے بات چیت میں روس، چین اور ایران جیسے خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا۔ جب کہ اس وقت مذاکرات کہ اس عمل میں دونوں ممالک کا بڑا روک ہے اور ایک قسم کا اثر و رسوخ بھی ہے۔ کیوں کہ یہ ممالک افغانستان کے پڑوسی ممالک ہیں جسے طالبان مذاکرات کہ اس عمل سے باہر نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ بہت سی آراء اور مشورے طالبان ان دونوں ممالک کی طرف سے بھی لے رہے ہیں۔ اس بناء پر جب تک امریکا مذاکرات میں روس، چین اور ایران کو نہیں بٹھائے گا، ان کو بھی آن بورڈ نہیں لے گا، افغان عمل کا سلسلہ آگے چلنا مشکل ہے؛ اور یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار رہی گی۔ طالبان بھی یہی عندیہ دے رہے ہیں۔
کیوں کہ مذاکرات میں پیش رفت کےلیے طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی انخلا سے متعلق طالبان کے مطالبے کو ایران اور روس کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اور ساتھ ہی یہ دونوں ممالک افغانستان سے امریکا کے مستقل اڈوں کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ کیوں کہ ایران اور روس کو خدشہ ہے کہ اگر امریکا یہاں بیٹھا رہا تو افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں، بالخصوص وہ ممالک جنہیں وہ اپنا مخالف سمجھتا ہے، فساد پھیلاتا رہے گا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں مدد دینے والے ممالک کو طالبان نے بھی یہ باور کرایا ہے کہ امریکا، افغانستان سے اپنی فوج کو نکالنا چاہتا ہے، لیکن اپنے اڈے ختم کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ جس سے اس کی بدنیتی دکھائی دیتی ہے۔
مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے امریکا نے پھر سے مذاکرات کےلیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اپنے چار ملکی دوروں کے سلسلے میں منگل کو کابل پہنچے تھے۔
جس کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی 18 جنوری کو کابل سے پاکستان پہنچے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر کی معاون خصوصی برائے جنوبی و وسطی ایشیا لیزا کرٹس نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور آرمی چیف سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ سے خصوصی ملاقات کی۔ جس کا مقصد مذاکرات کی بحالی میں پاکستان سے مدد لینا ہے۔ اس ضمن میں اب تک ہونے والی پیش رفت پر وہ پاکستان سے بھی رائے لیں گے۔ اگر اس حوالے سے روس اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ مل کر طالبان کو قائل کریں تو شاید وہ مان جائیں۔ بصورت دیگر یہ ٹاسک مشکل ہے۔ جب کہ طالبان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک امریکی فوجیوں کے انخلا کا ایشو اگلے اجلاس کے ایجنڈے پر شامل نہیں کیا جائے گا، وہ شرکت نہیں کریں گے۔
زلمے خلیل زاد نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر راضی کرے جو مشکل ترین کام ہے۔ اس لیے پاکستان نے بھی اس سلسلے میں واضح مؤقف اپنایا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کی ذمہ داری تنہا اٹھانے کا فیصلہ نہیں کیا، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ امریکا پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ واشنگٹن امن کےلیے افغان طالبان کے تحفظات دور کرے اور اعتماد کی بحالی کےلیے اقدامات کرے۔ افغانستان میں بھارتی مداخلت روکی جائے۔ نئی دہلی کو افغان معاملات میں ٹانگ اڑانے کا موقع دیا گیا تو اس سے امن کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
حالیہ دنوں افغان مفاہمتی عمل کےلیے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے وفد کے ہمراہ جنرل باجوہ، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دیگر حکام سے جمعہ کو وزارت خارجہ میں مذاکرات کئے۔ مذاکرات کے بعد بتایا گیا تھا کہ طالبان و امریکا کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہوگا، جس کےلیے 10 سے زائد طالبان نمائندے پاکستان آئیں گے۔ مذاکرات کےلیے قطر و سعودی عرب کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جانا تھا۔ اس اعلان پر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعہ کی شام ٹویٹر پر مختصر بیان جاری کرکے پاکستان میں امریکا سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ترجمان طالبان کے مطابق اسلام آباد میں اس کے نمائندوں اور امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد میں مذاکرات کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔
دوسری جانب کابل کا امریکا سے اصرار ہے کہ وہ پہلے طالبان کو اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے اور اس کے بعد ہی امریکی انخلا کا معاملہ ڈسکس کیا جائے۔ اس لیے اب اس صورتحال میں مذاکرات کی فوری بحالی ممکن دکھائی نہیں دے رہی، کیوں کہ فریقین اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں؛ اس لیے اب صورت حال خاصی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔
اس لیے جب تک امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اعتماد کی بحالی نہیں ہو جاتی، امریکا اور دوسرے ممالک دو باتیں ذہن نشین نہیں کرتے، کہ افغان طالبان اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کےلیے راضی نہیں ہوسکتے۔ اور جب تک امریکا مکمل طور پر انخلا نہیں کرتا، مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار رہے گا۔ جب کہ اس بات چیت کی جلد بحالی کا امکان بھی نہیں۔ بات چیت کی نئی تاریخ کا اعلان اس وقت تک متوقع نہیں جب تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا معاملہ اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کرلیا جاتا۔ اور جب تک افغان طالبان پر دباو کم نہیں کیا جاتا۔
جب کہ ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی احتیاط برتنا ہوگا۔ کیوں کہ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں امریکا اور افغان حکومت کی جانب سے براہ راست الزام پاکستان پر لگ سکتا ہے۔ جس کا مظاہرہ ہم نے 2015 میں ہونے والے مذاکرات سے کیا ہے۔ جس میں ناکامی کے صورت میں الزام پاکستان پر لگایا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔