پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں مگر مشکل صورتحال ان جماعتوں کو قریب لارہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن، مخدوم محمود اور میر حاصل بزنجو کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کی ملاقات ہوگئی۔ میثاق جمہوریت پر حزب اختلاف کو متحد کرنے اور پہلے سینیٹ کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر متفق ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کی مخالف جماعتیں ایک دفعہ پھر متحد ہوگئیں، اگرچہ مخالف جماعتوں کے مشترکہ محاذ بنانے کی حکمت عملی پرانی ہے۔
جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے علاوہ جمہوری حکومتوں کے خلاف بھی اتحاد بننے کی اپنی تاریخ ہے مگر ہر اتحاد کے مختلف نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے خلاف اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہوئیں جب نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا بھاشانی کی کوششوں سے ملک کے بانی محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں کھڑی ہوئیں۔ اس اتحادکی خاص بات یہ تھی کہ ولی خان جو مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے فاطمہ جناح کی حمایت پر تیار ہوئے۔
جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے ایک خاتون کی ملک کی صدارت کی تجویز کی توثیق کی مگر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے مولانا بھاشانی آخری وقت فاطمہ کی حمایت سے دستبردار ہوئے۔ متحدہ حزب اختلاف صدارتی انتخاب کے چار سال بعد 1968ء میں ایوب خان کو ایک سیاسی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہوئیں۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد قائم کیا، یوں ایک تحریک چلی مگر جب ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہنماؤں میں اتفاق ہوا تو جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوئے، پھر ایم آر ڈی قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شریک ہوئیں۔
1983ء میں بحالی جمہوریت کی تاریخی تحریک چلی۔ جنرل ضیاء الحق کو اس تحریک کے دباؤ میں 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے پڑے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قائم ہونے والی حکومتوں کے خلاف بھی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد قائم ہوئے مگر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت مستقبل کے سیاسی منظر عام کے لیے اہم ثابت ہوا مگر بعد میں بینظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کر کے اپنی سیاست پر ایک سیاہ داغ لگا دیا۔
میثاق جمہوریت پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اور منتخب حکومت کو پانچ سال کی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق دیا، یوں تاریخ میں پہلی دفعہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو سب نے تسلیم کیا اور ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پر امن طور پر اقتدار منتقل ہوا۔ اس میثاق کی بناء پر صوبوں کو خود مختاری ملی۔ پاکستان حقیقی طور پر وفاقیت کی منزل کی طرف گامزن ہوا اور آزاد الیکشن کمیشن اور عبوری حکومتوں کے قیام کا تصور عملی شکل اختیار کر گیا مگر اس میثاق میں اچھی طرز حکومت اور شفاف نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت نے بد ترین طرز حکومت قائم کی۔
شفافیت کے معیار کو پس پشت ڈال دیا گیا، یوں یہ تاثر عام ہوا کہ یہ حکومت قوانین کو بے اثرکرنے اور دولت جمع کرنے کے لیے آئی ہے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت میں عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیاگیا تھا اور آئین میں آرٹیکل 19-A شامل کیا گیا تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اس پر عملدرآمد کو بھول گئی۔ میاں نواز شریف نے مقتدرہ کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے غیر منتخب اداروں سے رجوع کرنا شرع کیا، جب جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کیا گیا تو پارلیمنٹ کے ذریعے اداروں کے حدود کے تعین کے لیے قانون سازی پر توجہ نہ دی گئی۔
پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے اس کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنا کر ایک بہترین روایت قائم کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مقتدرہ کی مداخلت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں سوچا۔ مسلم لیگ کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی تقاریر سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ میاں نواز شریف سے زیادہ کسی اور ادارے کے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو وہ پارلیمنٹ کو بھول گئے۔
یہی روایت میاں شہباز شریف نے بھی صوبہ پنجاب میں اپنائی۔ میاں نواز شریف حکومت کا سارا زور لاہور کی ترقی پر رہا۔ ملک کے باقی حصوں پر توجہ نہ دی گئی۔ میاں نواز شریف نے بھار ت اور افغانستان سے پر امن تعلقات کے لیے بہادرانہ اقدامات کیے مگر فلاحی ریاست کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، یوں نادیدہ قوتوں کو ان پالیسیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ میاں نواز شریف پارلیمنٹ کی بالادستی کو محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بناء پر وہ پاناما لیکس کے معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔
جب سندھ پر نیب، ایف آئی اے وغیرہ کی یلغار ہوئی تو میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان کی ڈاکٹرائن کے اسیر تھے۔ آصف زرداری جانتے تھے کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم نواز شریف کی ایماء پر نہیں ہے مگر پھر بھی انھوں نے میاں صاحب کے خلاف محاذ بنا کر اپنے اثاثہ جات بچانے کی کوشش کی۔ وہ نادیدہ قوتوں کے سحر میں اس حد تک مبتلا ہوئے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحریک انصاف سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ انھیں یہ باور کرایا گیا کہ اگلی حکومت میں پیپلز پارٹی حصے دار ہوگی مگر 2018ء کے انتخابات نے سب کچھ بدل دیا۔ زرداری اس امید میں رہے کہ نشانہ صرف شریف خاندان ہے۔ انھوں نے بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی میں نادیدہ قوتوں کا ساتھ دیا، سینیٹ کی چیئرمین شپ تک گنوا دی۔
تحریک انصاف نے کرپشن کو اپنا موضوع بنایا۔ عمران خان نے دس برس تک کرپشن کے مسئلے کو رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔ وہ خیبر پختون خوا، پنجاب اورکراچی میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے مگر حزب اختلاف کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے وزراء کرپشن کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر وفاقی کابینہ میں وزراء میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے اور اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلوں کو غیر منتخب اداروں میں چیلنج کرنے سے ایک مایوسی کی صورتحال ہے۔ پانچ ماہ کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل بیوروکریسی ملک کو چلا رہی ہے۔
تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں خاندان روزگار سے محروم ہیں ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح بڑھنے سے عوام مایوس ہیں۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کا کوئی مستقبل نہیں۔ انگریز دور کے قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، سول سوسائٹی کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ اختر مینگل نے جن 6 نکات کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت کی حمایت کی تھی، ان نکات میں ایک اہم نکتہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا مگر وفاقی حکومت نے اس نکتے پر اختر مینگل کو مایوس کیا ہے۔
اس وقت فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ اہم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری اس توسیع کی حمایت کریں گے، یوں وہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔ شاید اسی طرح انھیں کوئی ریلیف مل سکے گا۔ حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنا پر حزب اختلاف کے لیے خاصی گنجائش نظر آتی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ حزب اختلاف نادیدہ قوتوںکے ایجنڈے کو سنبھال لے، یہ ایک خطرناک صورتحال ہوگی۔
موجودہ حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں مگر مشکل صورتحال ان جماعتوں کو قریب لارہی ہے۔ ایک جماعت نے بھی الگ سے کوئی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی تو اتحادکمزور ہوجائے گا اور ماضی کی طرح اس کا فائدہ مقتدرہ کو ہوگا۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ عوام اس اتحاد کی پشت پناہی کریں۔ ڈیپ اسٹیٹ کا فلسفہ جمہوری نظام کو مفلوج کر رہا ہے۔ عوام کے لیے جدوجہد کرکے حقیقی جمہوری ریاست قائم ہوسکتی ہے مگر تبدیلی صرف انتخابات کے ذریعے ہونی چاہیے۔