ایک کتاب کئی چہرے
مصنف نے اپنی یاداشت کی بنیاد پر ان شخصیات کے بارے میں مختصر تاثرات کو ہلکے پھلکے انداز میں لکھنے کی سعی کی ہے۔
رمضان بلوچ لیاری کے سنجیدہ اور معتبر روشن خیال دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں، اپنی یادداشتوں پر مبنی یکے بعد دیگرے دو کتابیں ''لیاری کی ادھوری کہانی'' اور ''لیاری کی ان کہی کہانی'' قارئین کے حوالے کیں جنھیں سنجیدہ حلقوں میں بے حد سراہا گیا ۔
''بلوچ روشن چہرے'' ان کی نئی تصنیف ہے جس میں 42 نامور بلوچ شخصیات کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، مصنف نے اس کتاب کو ان بلوچ نوجوانوں کے نام کیا ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب اور اقدار کا پرچم تھامے علم و آگہی اور روشن خیالی کے ساتھ درخشاں مستقبل کی جانب رواں دواں ہیں۔ 360 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مستاگ فاؤنڈیشن کراچی نے شایع کیا ہے ۔ یہ کتاب مصنف کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ایک مقامی رسالے میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
مصنف نے بلوچ دانشوروں، ادیبوں، شاعروں ، سیاستدانوں اور علمی شخصیات کے متعلق اپنے ذاتی تاثرات اور کچھ یاد داشتوں کو رقم کیا ہے جن کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کا موقع ملا یا ان شخصیات کی فہم و فراست اور تدبر نے ان کے دور کے نوجوانوں کو گھائل کر دیا تھا۔
مصنف نے اپنی یاداشت کی بنیاد پر ان شخصیات کے بارے میں مختصر تاثرات کو ہلکے پھلکے انداز میں لکھنے کی سعی کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ''کراچی میں واقع روسی سفارت خانے کے شعبہ اطلاعات میں 1968ء میں جب ہمیں ٹائپسٹ کی ملازمت ملی تو ہماری دوسری ملاقات واجہ عبداللہ جان جمالدینی سے ہوئی جو روسی سفارت خانے کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے شایع ہونے والے میگزین ''طلوع '' کے پرو ڈکشن انچارج تھے۔
بعد کے دنوں میں اس دلآویز شخصیت کی عظمت کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ روسی سفارتخانے کے محکمہ اطلاعات سے ملازمت ہم نے 1973ء میں چھوڑ دی۔ کچھ عرصے بعد جمالدینی بلوچستان یونیور سٹی سے منسلک ہو گئے، جہاں انھوں نے بلوچی زبان اور لسانیت کے شعبہ کی داغ بیل ڈالی بیک وقت بلوچی، اردو، انگریزی، پشتو اور براہوی زبانوں میں تخلیقات پر ہر حلقے سے داد و تحسین حاصل کی اور کئی ایوارڈز حاصل کیے اور کئی غیر ملکی سفر بھی کیے۔ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے رہائشی بلاک میں جہاں ان کی رہائش تھی وہاں بھی اپنے دوستوں اکبر جلال، اکبر سیٹھ اور رحیم بخش آزاد کے ساتھ ہم نے جمالدینی کے ساتھ ملاقاتوں کی سعادت حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، یہ روابط کراچی میں بھی جاری رہتے تھے جب وہ یہاں تشریف لاتے تھے ۔''
واجہ غلام محمد نور الدین کی پیدائش 5 مارچ 1906ء میں لیاری، گل محمد لین میں ایک متوسط طبقے کے معزز بلوچ برہان زئی خاندان میں ہوئی، پرائمری تعلیم لیاری کے واحد پرائمری اسکول جوکہ بغدادی میں واقع تھا حاصل کی ، سندھ مدرسہ اسلام میں داخلہ لیا، 1928ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کیا، اس زمانے میں میٹرک کرنا بڑی توپ چیز سمجھی جاتی تھی، وہ کچھ سال وارڈ راشنگ آفیسر بھی رہے بعد ازاں پی ڈبلیو ڈی میں سپرینٹنڈنٹ مقرر ہوئے، کافی عرصے تک چیف منسٹر سندھ سیکریٹریٹ کے سیکریٹری اور آفیسرانچارج بھی رہے ، 1964ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی ۔ہندوستان، ایران اور افریقا میں بھی بلوچ قومیت کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم تھے جن کے لیے آواز اٹھانے والوں میں واجہ پیش پیش تھے، وہ بلوچی ثقافت ، تعلیم اور سماجی بھلائی کے کاموں میںپیش پیش رہے۔
1932ء میں عبدالصمد سر بازی کے ہمراہ پندرہ روزہ اخبار البلوچ جاری کیا ،1930ء کی دہائی تک لیاری کے رہائشیوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا، واجہ غلام محمد نور الدین نے واجہ محراب خان عیسیٰ خان سے مل کر جدوجہد کی جس کے بعد انگریز انتظامیہ نے یہ حق تسلیم کیا ۔1930ء میں انھوں نے کراچی میں بلوچوں کی پہلی سیاسی جماعت بلوچ لیگ کی داغ بیل ڈالی جس کے وہ بانی صدر منتخب ہوئے انھوں نے بلوچ و بلوچستان کا تاریخی جائزہ کے عنوان سے کتاب لکھی جو کہ 1951ء میں شایع ہوئی ۔
مارچ 1989ء میں یہ کتاب پھر شایع ہوئی واجہ غلام محمد نور الدین کو بلوچی، انگریزی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں عبور حاصل تھا، تقسیم ہند کے بعد لیاری میں بلوچ نیشنل گارڈ کی تشکیل کی،1954ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو کے فنڈز سے لیاری کمیونیٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی صدر واجہ غلام محمد نور الدین تھے۔
واجہ 11 سال تک کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے ممبر بھی رہے اور میونسپلٹی میں گروپ چیئر مین کے انتخابات متواتر جیتتے رہے،8 سال تک فشریزکوآپریٹو سوسائٹی کے ڈائریکٹر بھی رہے اور کئی سال تک ایس ایم آرٹس کالج، ایس ایم لاء کالج اور سر عبداللہ ہارون کالج کی گورننگ باڈیزکے ممبر بھی رہے، سندھ مدرسہ بورڈ کے صدر اور لائف ٹائم ممبر بھی رہے۔ انھوں نے پوری زندگی بلوچ قوم کی بہتری کے لیے جدوجہد کی یہ انمول تارہ 27 دسمبر 1987ء کو ہمیشہ کے لیے ماند پڑگیا۔
مولانا خیر محمد ندوی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے بیک وقت ماہر تعلیم، اسلامی اسکالر، سماجی رہنما، شاعر، ادیب، دانشور اور صحافی تھے۔ 1948ء میں انھوں نے بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی تشکیل دی جس کے زیر اہتمام بلوچ بوائے پرائمری و سیکنڈری اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا، پھر وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے ان کی نگرانی میں ریڈیو پاکستان کراچی سے بلوچی پروگرامز کی ابتداء ہوئی۔ 1951ء میں کراچی میں پہلا بلوچی ماہنامہ اومان شایع کیا جس کی اشاعت 1962ء تک رہی ۔
1978ء میں ماہنامہ سوغات کا اجراء کیا جو ان کی وفات تک شایع ہوتا رہا ان کی شایع شدہ اور غیر طبع کتابوں میں بلوچی معلم ، کچکول، اخلاق گلدان اور فضائل اعمال ( ترجمہ ) شامل ہیں ۔مولانا خیر محمد ندوی نے اپنی پوری زندگی سادگی میں گزاری، دینی علوم کے ساتھ ساتھ انھیں دنیا وی علوم اور بلوچی زبان و ادب پر دسترس حاصل تھا وہ اپنی وفات تک علم کے جھنڈے کو بلند کرتے رہے، 25نومبر2000ء میں وہ ہم سے بچھڑ گئے۔
اسی طرح کتاب بلوچ روشن چہرے میں دیگر چیدہ چیدہ شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔