تحریک انصاف کو سفارتی سطح پر نمایاں کامیابیاں مل رہی ہیں
عمران خان کا دورہ قطر دونوں ممالک کیلئے بڑی پیش رفت ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور اس کا پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہونا عالمی سطح پر اور بالخصوص خطے میں اس کی اہمیت کو بہت اہم اور حساس بنا چکا ہے۔
ایک جانب ڈیڑھ ارب آبادی اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت والا ملک چین ہے تو دوسری جانب سوا ارب آبادی والا بھارت ہے جبکہ ایک جانب امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکنے والا اور سعودی عرب کیلئے چیلنج بننے والا ایران ہے تو دوسری جانب عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی کا اکھاڑہ افغانستان ہے۔
سی پیک منصوبے پر تیز رفتاری سے عملدرآمد کی وجہ سے بھی بہت سے ممالک نے اپنی نظریں پاکستان پر گاڑھی ہوئیں ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت اور اس سے قبل آصف زرداری کے دور صدارت میں پاکستان کو کمزور خارجہ پالیسی کے سبب سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔خاص طور پر گزشتہ 5 برس کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ہم سے ناراض تھے اور ایران بھی خوش نہیں تھا جبکہ افغانستان اور بھارت تو ہمارے ساتھ ہمیشہ ہی ''کٹی'' کئے رہتے ہیں۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں اب قطر بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔افغان طالبان پر قطری حکومت کا نمایاں اثرورسوخ ہے۔ قطر واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاں افغان طالبان کو باضابطہ طور پر سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے جبکہ قطر امریکہ، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔
قطر کے سابق وزیر اعظم حماد بن جاسم کے ساتھ نواز شریف کے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قطری حکومت کی ناپسندیدگی کے باوجود حماد بن جاسم نے پانامہ کیس می نواز شریف کو بچانے کیلئے اپنا خط بھیج دیا تھا۔اس خط پر امیر قطر سمیت قطری عوام نے حماد بن جاسم کو غیر اعلانیہ طور پر ''ناپسندیدہ'' شخصیت قرار دے رکھا ہے۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ حالیہ دورہ قطر کے دوران ہمارے سیدھے سادھے اور بھولے بھالے وزیر اعظم عمران خان نے امیر قطر سے ملاقات کے دوران انہیں کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کونسی قطری شخصیت سب سے زیادہ مشہور ہے۔ امیر قطر نے پوچھا کون تو خان صاحب نے کہا کہ پانامہ کیس میں خط لکھنے والا قطری، اس پر ساتھ بیٹھے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خان صاحب کو ہوشیار، خبردار کیا کہ ایسی بات امیر قطر سے نہیں کرنی۔
عمران خان کا دورہ قطر دونوں ممالک کیلئے بڑی پیش رفت ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ موجودہ کشیدگی میں عمران خان کے دورہ سے قطر کو سفارتی سپورٹ ملی ہے جبکہ پاکستان کو قطری سرمایہ کاری کا عندیہ ملا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان اور قطری قیادت کے درمیان ملاقات میں پاکستان نے درخواست کی ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی وجہ سے ایل این جی کی قیمت میں کمی کی جائے۔ جبکہ قطر نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد قطری حکومت کو سب سے زیادہ مسائل فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے پیش آئے تھے۔ سمندری راستے سے قطر اور پاکستان کی مسافت 2 گھنٹے کی ہے لہٰذا پاکستان قطر کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے جبکہ قطری سرمایہ کار پاکستان میں فوڈ پروسیسنگ، گریڈنگ اور پیکیجنگ کے شعبے میں آگے آ سکتے ہیں ۔ قطر 2020 میں فٹ بال عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس وقت قطر میں بڑے پیمانے پر تعمیرات ہو رہی ہیں جس کیلئے اسے لیبر فورس درکار ہے۔
قطر نے ایک لاکھ پاکستانیوں کیلئے ملازمت کا اعلان کیا ہے جس میں سے 30 ہزار پاکستانی گزشتہ 6 ماہ میں قطر جا چکے ہیں ۔ اس عمل کو تیز کرنے کیلئے پاکستانی حکومت نے لاہور اور پشاور میں بھی بھرتی سنٹر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی کاوشیں اس سلسلے میں نہایت قابل قدر ہیں، بیرون ممالک روزگار کے مواقع ملنے سے جہاں ملک میں بیروز گاری میں کمی ہو گئی وہیں قیمتی زرمبادلہ پاکستان میں منتقل ہونے سے معیشت میں بہتری آئے گی اور اس خوشحالی کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوں گے جیسے غربت جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ ہے، جب غربت میں کمی ہوگی تو بڑھتے ہوئے جرائم کو خودبخود بریک لگ جائیں گے۔ نوجوان نسل جوبھٹک جاتی ہے اسے درست سمت میں بڑھنے میں مدد ملے گی۔
سفارتی محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت مسلسل کامیاب ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے بعد شاہ محمود قریشی کو جاتا ہے جو سفارتی تنہائی کو ختم کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے تعلقات کی تجدید ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر پاکستان کو ملے ہیں ۔آئندہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آ رہے ہیں۔ رواں برس کے اختتام سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ عراق کے ساتھ بھی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ چین نے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے ساتھ گرم جوشی ظاہر کی ہے۔
عمران کی شخصیت کا جادو کرکٹ دور سے ہی عالمی سطح پر چھایا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو عالمی سطح پر بھرپور سپورٹ مل رہی ہے۔ قطر کے دورہ کے دوران عمران خان نے قطر میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں کے تاریخ ساز اجتماع سے بھی خطاب کیا ہے جو قطر کی تاریخ کا پہلا ایونٹ بن گیا ہے جبکہ 12 برس بعد دوحا کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے ہیں۔ قطر میں تحریک انصاف کی تنظیم بہت متحرک اور موثر ہے اور انہوں نے عمران خان کے دورہ کے حوالے سے بہت شاندار کام کیا ہے بالخصوص تحریک انصاف قطر کے سوشل میڈیا ٹیم کے رکن حسن لاشاری حقیقی معنوں میں کپتان کے سپر سٹار کھلاڑی ہیں۔
دوحا مین پاکستانی سفارتخانہ کو اپنا "لیگی"مزاج بدلنے کی ضرورت ہے۔عمران خان کے کمیونٹی سے خطاب کیلئے تحریک انصاف کے مخالف شخص کو انتظامات کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے کسی مقامی پاکستانی کو سٹیج سیکرٹری بنانے کی بجائے لاکھوں روپے معاوضہ پر امریکہ سے سٹیج سیکرٹری امپورٹ کیا جسے بولنا بھی نہیں آ رہا تھا۔ قطر میں مقیم پاکستانیوں کے کچھ مسائل پر حکومت کو توجہ دینا چاہئے۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی قطر جیلوں میں قید ہیں اور سابقہ حکومت نے ان کی رہائی کے لیے اقدامات نہیں کئے لہذا موجودہ حکومت کو کوشش کرنا چاہئے۔
دوحا میں پاکستان ایمبیسی سکول کی کارکردگی اور پرنسیپل کے آمرانہ انداز بارے بھی بہت شکایات ہیں ۔ 60 سال عمر ہو جانے پر قطری حکومت پاکستانی کے ویزے میں تجدید نہیں کرتی جس سے مشکلات ہوتی ہیں۔
دوحا پاکستان سفارتخانہ میں پاسپورٹ کی تجدید کا عمل بہت سست اور طویل وقت لیتا ہے جبکہ پاکستانی کمیونٹی کی خواہش اور مطالبہ ہے کہ دوحا میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستانی تارکین وطن کیلئے ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔ عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی کارکردگی دن بدن بہتر اور نمایاں ہو رہی ہے۔ وہ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے بہت کام کر رہے ہیں جبکہ بہت جلد وہ کابینہ میں ایک ایسی تجویز لیکر جا رہے ہیں جس سے سمندر پار جانے والے پاکستانیوں، وہاں مقیم یا پابند سلاسل دونوں کو فائدہ ہوگا۔
ایک جانب ڈیڑھ ارب آبادی اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت والا ملک چین ہے تو دوسری جانب سوا ارب آبادی والا بھارت ہے جبکہ ایک جانب امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکنے والا اور سعودی عرب کیلئے چیلنج بننے والا ایران ہے تو دوسری جانب عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی کا اکھاڑہ افغانستان ہے۔
سی پیک منصوبے پر تیز رفتاری سے عملدرآمد کی وجہ سے بھی بہت سے ممالک نے اپنی نظریں پاکستان پر گاڑھی ہوئیں ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت اور اس سے قبل آصف زرداری کے دور صدارت میں پاکستان کو کمزور خارجہ پالیسی کے سبب سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔خاص طور پر گزشتہ 5 برس کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ہم سے ناراض تھے اور ایران بھی خوش نہیں تھا جبکہ افغانستان اور بھارت تو ہمارے ساتھ ہمیشہ ہی ''کٹی'' کئے رہتے ہیں۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں اب قطر بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔افغان طالبان پر قطری حکومت کا نمایاں اثرورسوخ ہے۔ قطر واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاں افغان طالبان کو باضابطہ طور پر سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے جبکہ قطر امریکہ، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔
قطر کے سابق وزیر اعظم حماد بن جاسم کے ساتھ نواز شریف کے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قطری حکومت کی ناپسندیدگی کے باوجود حماد بن جاسم نے پانامہ کیس می نواز شریف کو بچانے کیلئے اپنا خط بھیج دیا تھا۔اس خط پر امیر قطر سمیت قطری عوام نے حماد بن جاسم کو غیر اعلانیہ طور پر ''ناپسندیدہ'' شخصیت قرار دے رکھا ہے۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ حالیہ دورہ قطر کے دوران ہمارے سیدھے سادھے اور بھولے بھالے وزیر اعظم عمران خان نے امیر قطر سے ملاقات کے دوران انہیں کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کونسی قطری شخصیت سب سے زیادہ مشہور ہے۔ امیر قطر نے پوچھا کون تو خان صاحب نے کہا کہ پانامہ کیس میں خط لکھنے والا قطری، اس پر ساتھ بیٹھے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خان صاحب کو ہوشیار، خبردار کیا کہ ایسی بات امیر قطر سے نہیں کرنی۔
عمران خان کا دورہ قطر دونوں ممالک کیلئے بڑی پیش رفت ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ موجودہ کشیدگی میں عمران خان کے دورہ سے قطر کو سفارتی سپورٹ ملی ہے جبکہ پاکستان کو قطری سرمایہ کاری کا عندیہ ملا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان اور قطری قیادت کے درمیان ملاقات میں پاکستان نے درخواست کی ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی وجہ سے ایل این جی کی قیمت میں کمی کی جائے۔ جبکہ قطر نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد قطری حکومت کو سب سے زیادہ مسائل فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے پیش آئے تھے۔ سمندری راستے سے قطر اور پاکستان کی مسافت 2 گھنٹے کی ہے لہٰذا پاکستان قطر کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے جبکہ قطری سرمایہ کار پاکستان میں فوڈ پروسیسنگ، گریڈنگ اور پیکیجنگ کے شعبے میں آگے آ سکتے ہیں ۔ قطر 2020 میں فٹ بال عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس وقت قطر میں بڑے پیمانے پر تعمیرات ہو رہی ہیں جس کیلئے اسے لیبر فورس درکار ہے۔
قطر نے ایک لاکھ پاکستانیوں کیلئے ملازمت کا اعلان کیا ہے جس میں سے 30 ہزار پاکستانی گزشتہ 6 ماہ میں قطر جا چکے ہیں ۔ اس عمل کو تیز کرنے کیلئے پاکستانی حکومت نے لاہور اور پشاور میں بھی بھرتی سنٹر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی کاوشیں اس سلسلے میں نہایت قابل قدر ہیں، بیرون ممالک روزگار کے مواقع ملنے سے جہاں ملک میں بیروز گاری میں کمی ہو گئی وہیں قیمتی زرمبادلہ پاکستان میں منتقل ہونے سے معیشت میں بہتری آئے گی اور اس خوشحالی کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوں گے جیسے غربت جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ ہے، جب غربت میں کمی ہوگی تو بڑھتے ہوئے جرائم کو خودبخود بریک لگ جائیں گے۔ نوجوان نسل جوبھٹک جاتی ہے اسے درست سمت میں بڑھنے میں مدد ملے گی۔
سفارتی محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت مسلسل کامیاب ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے بعد شاہ محمود قریشی کو جاتا ہے جو سفارتی تنہائی کو ختم کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے تعلقات کی تجدید ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر پاکستان کو ملے ہیں ۔آئندہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آ رہے ہیں۔ رواں برس کے اختتام سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ عراق کے ساتھ بھی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ چین نے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے ساتھ گرم جوشی ظاہر کی ہے۔
عمران کی شخصیت کا جادو کرکٹ دور سے ہی عالمی سطح پر چھایا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو عالمی سطح پر بھرپور سپورٹ مل رہی ہے۔ قطر کے دورہ کے دوران عمران خان نے قطر میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں کے تاریخ ساز اجتماع سے بھی خطاب کیا ہے جو قطر کی تاریخ کا پہلا ایونٹ بن گیا ہے جبکہ 12 برس بعد دوحا کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے ہیں۔ قطر میں تحریک انصاف کی تنظیم بہت متحرک اور موثر ہے اور انہوں نے عمران خان کے دورہ کے حوالے سے بہت شاندار کام کیا ہے بالخصوص تحریک انصاف قطر کے سوشل میڈیا ٹیم کے رکن حسن لاشاری حقیقی معنوں میں کپتان کے سپر سٹار کھلاڑی ہیں۔
دوحا مین پاکستانی سفارتخانہ کو اپنا "لیگی"مزاج بدلنے کی ضرورت ہے۔عمران خان کے کمیونٹی سے خطاب کیلئے تحریک انصاف کے مخالف شخص کو انتظامات کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے کسی مقامی پاکستانی کو سٹیج سیکرٹری بنانے کی بجائے لاکھوں روپے معاوضہ پر امریکہ سے سٹیج سیکرٹری امپورٹ کیا جسے بولنا بھی نہیں آ رہا تھا۔ قطر میں مقیم پاکستانیوں کے کچھ مسائل پر حکومت کو توجہ دینا چاہئے۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی قطر جیلوں میں قید ہیں اور سابقہ حکومت نے ان کی رہائی کے لیے اقدامات نہیں کئے لہذا موجودہ حکومت کو کوشش کرنا چاہئے۔
دوحا میں پاکستان ایمبیسی سکول کی کارکردگی اور پرنسیپل کے آمرانہ انداز بارے بھی بہت شکایات ہیں ۔ 60 سال عمر ہو جانے پر قطری حکومت پاکستانی کے ویزے میں تجدید نہیں کرتی جس سے مشکلات ہوتی ہیں۔
دوحا پاکستان سفارتخانہ میں پاسپورٹ کی تجدید کا عمل بہت سست اور طویل وقت لیتا ہے جبکہ پاکستانی کمیونٹی کی خواہش اور مطالبہ ہے کہ دوحا میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستانی تارکین وطن کیلئے ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔ عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی کارکردگی دن بدن بہتر اور نمایاں ہو رہی ہے۔ وہ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے بہت کام کر رہے ہیں جبکہ بہت جلد وہ کابینہ میں ایک ایسی تجویز لیکر جا رہے ہیں جس سے سمندر پار جانے والے پاکستانیوں، وہاں مقیم یا پابند سلاسل دونوں کو فائدہ ہوگا۔