بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی وفاقی حکومت سے ناراض
حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اگر خود گرے تو معلوم نہیں بچا بھی سکیں گے یا نہیں، سردار اختر مینگل
مرکز میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) حکومت سے خفاخفا دکھائی دے رہی ہیں اور دونوں جماعتوں نے اپنے طور پر اس خفگی کا اظہار کیا ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے قومی اسمبلی و سینیٹ میں آزاد بنچوں پر بیٹھ کر حکومت کے اچھے کاموں کی حمایت اور غلط کاموں کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ناگزیر قرار دیا ہے۔
بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اگر خود گرے تو معلوم نہیں بچا بھی سکیں گے یا نہیں تاہم ہمارے مطالبات مان لئے گئے تو ہم حکومت کے ساتھ چلیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اُن پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے تحفظات ہیں کیونکہ حکومتی رویئے میں سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ اُنہوں نے آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ملاقاتوں سے ملک کو سیاسی استحکام ملے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی جانب سے بی این پی کے اُمیدوار کو سپورٹ نہ کرنے پر پارٹی کے بعض رہنماؤں اور خود سردار اختر مینگل کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جبکہ بی این پی کی اگلے دن اپوزیشن جماعتوں کے ایک اہم اجلاس میں شرکت اور بی این پی کے سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی سپورٹ نہ کرنے کے معاملے پر پارٹی کی سینیٹرل کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے صورتحال پر غور کرنے کے اعلان نے سیاست میں ہلچل سی مچادی جس سے حکومتی صفوں میں بھی سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن سینیٹرل کمیٹی کے اجلاس سے قبل بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے اس بیان جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے نے صورتحال کو نارمل کردیا اور حکومتی حلقے بھی پرسکون ہوگئے۔ یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومتی حلقوں کوآکسیجن مل گئی۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی بعض معاملات میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے وفاق میں نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کمیٹی تشکیل دیدی جو کہ تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات کر کے اُنہیں تحفظات سے آگاہ کرے گی۔ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس جس میں اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی نے شرکت کی میں اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہوئے کہا گیا کہ وفاق میں ایک بڑے اتحادی کی حیثیت سے بی اے پی کو تحریک انصاف کی حکومت نظر انداز کر رہی ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ صوبے میں بقول ان کے بی اے پی اپنے منشور کے تحت وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے سربراہ جام کمال کی قیادت میں صحیح سمت میں کام کر رہی ہے۔ اجلاس میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے ملاقات کرکے اُن سے اپنے تحفظات کو آگاہ کرنے والی کمیٹی کو یہ بھی ہدایت جاری کی گئی کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی صوبے اور ملک کے مفاد میں رابطے کرے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی بڑی پارلیمانی جماعتیں بی اے پی اور بی این پی کی قیادت کا وفاقی حکومت خصوصاً تحریک انصاف کی قیادت کے رویئے پر تحفظات کا اظہار ایک الارمنگ پوزیشن ہے ان دونوں جماعتوں کی حمایت کے سہارے وفاقی حکومت کھڑی ہے اور دونوں جماعتوں کو تحریک انصاف کی حکومت سے شکایات کا پیدا ہونا اور دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سے رابطے کرنے کا فیصلہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیاسی کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔
ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی اے پی کی مرکزی قیادت کی یہ بھی کوشش ہے کہ اُسے وفاقی کابینہ میں مزید نمائندگی دی جائے، دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف بی اے پی کو کس حد تک مزید وفاقی کابینہ میں نمائندگی دیتی ہے؟۔ اور ساتھ ہی ساتھ بی اے پی اور بی این پی کی جانب سے صوبے کی ترقی و مسائل کے حل کیلئے کی گئی نشاندہی پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔ یہ صورتحال صرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کیلئے ہی نہیں بلکہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی اس کی اتحادی جماعتوں بی اے پی اور بی این پی کیلئے بھی ایک کٹھن مرحلہ اور امتحان سے کم نہیں ہے۔
جام کمال کی مخلوط حکومت معاون خصوصی اور پارلیمانی سیکرٹریز کی تعیناتی کے بعد صوبائی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل پر صلاح و مشورہ کر رہی ہے جس کیلئے بعض ارکان اسمبلی ان اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کیلئے بھی دوڑ میں شامل ہیں خصوصاً مخصوص نشستوں پر کامیاب ہو کر آنے والی خواتین اور دیگر اراکین اسمبلی جنہیں ابھی تک اکاموڈیٹ نہیں کیا گیا ہے وہ پیش پیش ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق سب سے اہم اسٹینڈنگ کمیٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان بھی متحرک ہیں۔
ماضی میں اس کمیٹی کی چیئرمین شپ حکومتی رکن اسمبلی کے پاس تھی جبکہ اس مرتبہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینے کے حق میں ہیں تاہم متحدہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں بی این پی اور متحدہ مجلس عمل ابھی تک کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوئی ہیں۔
اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ جن کا تعلق متحدہ مجلس عمل سے ہے اور بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ اس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیلئے اُمیدوار ہیں اس کے علاوہ متحدہ اپوزیشن دیگر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کیلئے بھی اپنے نام حکومت کو دے گی جس کیلئے متحدہ اپوزیشن کا ابھی مشاورتی اجلاس ہونا باقی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نام دیں گے جس کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اگر خود گرے تو معلوم نہیں بچا بھی سکیں گے یا نہیں تاہم ہمارے مطالبات مان لئے گئے تو ہم حکومت کے ساتھ چلیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اُن پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے تحفظات ہیں کیونکہ حکومتی رویئے میں سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ اُنہوں نے آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ملاقاتوں سے ملک کو سیاسی استحکام ملے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی جانب سے بی این پی کے اُمیدوار کو سپورٹ نہ کرنے پر پارٹی کے بعض رہنماؤں اور خود سردار اختر مینگل کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جبکہ بی این پی کی اگلے دن اپوزیشن جماعتوں کے ایک اہم اجلاس میں شرکت اور بی این پی کے سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی سپورٹ نہ کرنے کے معاملے پر پارٹی کی سینیٹرل کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے صورتحال پر غور کرنے کے اعلان نے سیاست میں ہلچل سی مچادی جس سے حکومتی صفوں میں بھی سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن سینیٹرل کمیٹی کے اجلاس سے قبل بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے اس بیان جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے نے صورتحال کو نارمل کردیا اور حکومتی حلقے بھی پرسکون ہوگئے۔ یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومتی حلقوں کوآکسیجن مل گئی۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی بعض معاملات میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے وفاق میں نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کمیٹی تشکیل دیدی جو کہ تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات کر کے اُنہیں تحفظات سے آگاہ کرے گی۔ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس جس میں اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی نے شرکت کی میں اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہوئے کہا گیا کہ وفاق میں ایک بڑے اتحادی کی حیثیت سے بی اے پی کو تحریک انصاف کی حکومت نظر انداز کر رہی ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ صوبے میں بقول ان کے بی اے پی اپنے منشور کے تحت وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے سربراہ جام کمال کی قیادت میں صحیح سمت میں کام کر رہی ہے۔ اجلاس میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے ملاقات کرکے اُن سے اپنے تحفظات کو آگاہ کرنے والی کمیٹی کو یہ بھی ہدایت جاری کی گئی کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی صوبے اور ملک کے مفاد میں رابطے کرے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی بڑی پارلیمانی جماعتیں بی اے پی اور بی این پی کی قیادت کا وفاقی حکومت خصوصاً تحریک انصاف کی قیادت کے رویئے پر تحفظات کا اظہار ایک الارمنگ پوزیشن ہے ان دونوں جماعتوں کی حمایت کے سہارے وفاقی حکومت کھڑی ہے اور دونوں جماعتوں کو تحریک انصاف کی حکومت سے شکایات کا پیدا ہونا اور دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سے رابطے کرنے کا فیصلہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیاسی کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔
ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی اے پی کی مرکزی قیادت کی یہ بھی کوشش ہے کہ اُسے وفاقی کابینہ میں مزید نمائندگی دی جائے، دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف بی اے پی کو کس حد تک مزید وفاقی کابینہ میں نمائندگی دیتی ہے؟۔ اور ساتھ ہی ساتھ بی اے پی اور بی این پی کی جانب سے صوبے کی ترقی و مسائل کے حل کیلئے کی گئی نشاندہی پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔ یہ صورتحال صرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کیلئے ہی نہیں بلکہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی اس کی اتحادی جماعتوں بی اے پی اور بی این پی کیلئے بھی ایک کٹھن مرحلہ اور امتحان سے کم نہیں ہے۔
جام کمال کی مخلوط حکومت معاون خصوصی اور پارلیمانی سیکرٹریز کی تعیناتی کے بعد صوبائی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل پر صلاح و مشورہ کر رہی ہے جس کیلئے بعض ارکان اسمبلی ان اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کیلئے بھی دوڑ میں شامل ہیں خصوصاً مخصوص نشستوں پر کامیاب ہو کر آنے والی خواتین اور دیگر اراکین اسمبلی جنہیں ابھی تک اکاموڈیٹ نہیں کیا گیا ہے وہ پیش پیش ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق سب سے اہم اسٹینڈنگ کمیٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان بھی متحرک ہیں۔
ماضی میں اس کمیٹی کی چیئرمین شپ حکومتی رکن اسمبلی کے پاس تھی جبکہ اس مرتبہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینے کے حق میں ہیں تاہم متحدہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں بی این پی اور متحدہ مجلس عمل ابھی تک کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوئی ہیں۔
اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ جن کا تعلق متحدہ مجلس عمل سے ہے اور بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ اس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیلئے اُمیدوار ہیں اس کے علاوہ متحدہ اپوزیشن دیگر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کیلئے بھی اپنے نام حکومت کو دے گی جس کیلئے متحدہ اپوزیشن کا ابھی مشاورتی اجلاس ہونا باقی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نام دیں گے جس کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔