وزیر اعلیٰ کو کارکردگی بہتر بنانے کی ڈیڈ لائن دینے کی افواہیں
اچانک ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور ان کی کابینہ کا لب ولہجہ تبدیل ہوا۔
ماضی کی حکومتیں مرکز کے ساتھ بجلی کے خالص منافع کی سالانہ رقم کے حصول کو یقینی بنانے اور بقایا جات وصول کرنے کے لیے حالت جنگ میں نظر آتی رہی ہیں.
تاہم جب کبھی مرکز اور صوبہ میں ایک ہی پارٹی کی حکومتیں ہوں تو صوبائی حکومت کو ہاتھ ہولا رکھنا پڑتا ہے اور یہی صورت حال موجودہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی تھی اور پھر خصوصاً صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے بجٹ کے موقع پراس سٹیٹمنٹ نے تو سب کو حیران ہی کر دیا جس میں انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت صوبہ کو بجلی کے سالانہ منافع اور بقایاجات کی مد میں 65 ارب روپے کی ادائیگی ماہ نومبر تک کردے گی کیونکہ مرکزکبھی بھی صوبہ کو اتنی بڑی ادائیگی یکمشت نہیں کرتا آیا بلکہ اس کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں کو نشست و برخاست اور اعصابی جنگ لڑنی پڑتی ہے جس کے بعد ہی مرکز کی جیب سے پیسہ نکلتا ہے اور یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ دعوئوں کے باوجود صوبہ کو 65 ارب کی ادائیگی نہیں کی جا سکی۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت دھیمے انداز میں معاملات کو آگے بڑھانے کی پالیسی پر گامزن تھی تاہم اچانک ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور ان کی کابینہ کا لب ولہجہ تبدیل ہوا اور انہوں نے مرکز سے مطالبہ کردیا کہ مذکورہ رقم فوری طور پر صوبہ کو ادا کی جائے اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ صوبہ مالی مشکلات کا شکار ہے اور صوبائی حکومت صوبہ کے حقوق پر کسی بھی طور سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
مرکز میں کسی اور پارٹی کی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر ہیں اور اس صورت حال میں صوبائی حکومت کا لب ولہجہ تبدیل ہونے سے بھوئوں کا تننا ضروری ہے، وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے وہ ارکان جو ان کے نزدیک ہیں ان کا لب ولہجہ مرکز سے وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب کی پشاور آمد کے بعد تبدیل ہوا، شہزاد ارباب نے وزیراعلیٰ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں بھی شرکت کی اور گورنر ہائوس میں قبائلی اضلاع سے متعلق منعقدہ اجلاس میں بھی وہ شریک ہوئے۔
وزیراعظم کے مشیر کی آمد اورگورنر و وزیراعلیٰ سے ملاقاتوں کے بعد ہی یہ کہانی بھی باہر آئی کہ مرکزی حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے اور ڈیڈ لائن پوری ہونے تک اگر وزیراعلیٰ کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی تو اس صورت میں تبدیلی بھی آسکتی ہے، تاہم وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی اس بات سے انکاری ہیں جن کا کہنا ہے کہ'' یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی''، ہو سکتا ہے کہ ان کی بات درست ہو تاہم جب دھواں اٹھتا ہے تو کہیں آگ بھی لگی ہوتی ہے اور پھر یہ سب کچھ اسی دن کیوں ہوتا ہے کہ جس دن وزیراعظم کے مشیر پشاور آتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں اور اچانک وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم ارکان کی جانب سے مرکز سے فوری طور پر بجلی منافع وبقایاجات ادا کرنے کے مطالبات کیے جاتے ہیں، ان باتوں کے تانے بانے جوڑنے سے واضح ہوتا ہے کہ مرکز کی جانب سے وزیراعلیٰ پر زور دیا گیا جس کا جواب انہوںنے اور ان کی ٹیم کے ارکان نے بجلی منافع کی رقم فوری ادا کرنے کے مطالبات کرتے ہوئے دیا۔
اور یہ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ اب صوبائی حکومت یہ منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو صوبہ کے بجلی منافع کے بارے میں بریفنگ دیں تاکہ وہ بھی مرکزی حکومت کو اس بات پر مجبور کریں کہ صوبہ کو جلدازجلد بجلی منافع وبقایاجات کے 65 ارب روپے کی ادائیگی ہو سکے جبکہ ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے کہ صوبائی کابینہ کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے اورکابینہ مشترکہ طور پر وزیراعظم سے یہ مطالبہ کرے کہ صوبہ کو بجلی بقایاجات کی ادائیگی کی جائے، یقینی طور پر یہ اقدامات مرکز پر دبائو بڑھانے کے لیے ہیں حالانکہ صوبائی حکومت یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ مرکزی حکومت مالی مشکلات سے دوچار ہے جنھیں دور کرنے کے لیے ہی دوسرا منی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے تاہم اس کے باوجود ایسے موقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے مرکز پر بقایاجات اور سالانہ منافع کے حصول کے لیے دبائو بڑھانا پی ٹی آئی کی اندرونی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات کا شاخسانہ لگتا ہے کیونکہ جو اختلافات صوبہ میں حکومت سازی کے وقت موجود تھے وہ اب بھی ختم نہیں ہوئے۔
اندر کی خبررکھنے والے تو یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ مرکز میں خدمات انجام دینے والی ایک اہم شخصیت بھی ناراض ہے کیونکہ جو ان کی خواہش تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی بات مانی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اب بھی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے تبدیلی ضروری ہے جبکہ صوبہ میں حکومتی صفوں میں موجود بااثر افراد کی حکومت سازی کے وقت اہم ترین عہدے کے حصول کی کوششیں بھی ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئیں کہ انھیں بھلایاجا سکے۔
ان حالات میں یقینی طور پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو حکمت کے ساتھ چلتے ہوئے معاملات کو سنبھالنا اور ان پر اپنی گرفت رکھنی ہوگی کیونکہ سیاسی میدان میں ذرا سی لغزش سے بھی بڑا نقصان ہوجایا کرتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ قبائلی اضلاع کا سارا کنٹرول وزیراعلیٰ کے پاس آنے کے باوجود وہ اپنے اختیارات گورنر شاہ فرمان کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کیونکہ شاہ فرمان بھی پارٹی کے اندر اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں اور شاید اسی بات کو مدنظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ ان کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہتے۔
پی ٹی آئی اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے ان میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بطور پی ٹی آئی چیئرمین خیبرپختونخوا کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جن معاملات کی وجہ سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے ان پر پانی وہی ڈال سکتے ہیں جس کے لیے کابینہ میں توسیع اور حکومتی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کے حوالے سے بھی معاملات کو نمٹانا چاہیے کیونکہ ایسا نہ ہونا بھی ایک وجہ تنازعہ ہو سکتی ہے اور یہ تنازعہ اسی صورت میں ختم ہوگا کہ جب ایڈجیسٹمنٹ کرلی جائے گی کیونکہ اگر پی ٹی آئی اندرونی طور پرانتشار کا شکار رہی تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ وہ بہتر طریقے سے کام نہیں کر پائے گی اور اس سے صوبہ کی عوام کے لیے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا تاہم جہاں تک صوبہ کے بجلی منافع اور بقایاجات کا تعلق ہے تو مرکز کو اس سلسلے میں صوبہ پر نرمی کی نظر کرتے ہوئے ادائیگی جلد ازجلد کرنی چاہیے تاکہ صوبہ جن مالی مشکلات کا شکار ہے ان سے نکل سکے، اور ایم ایم اے جسے عام انتخابات کے لیے بڑی دھوم دھام کے ساتھ فعال کیا گیا تھا ایک مرتبہ پھر غیر فعال ہونے کی راہ پر چل نکلا ہے۔
گزشتہ سال جولائی کے عام انتخابات میں پانچ مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر دوبارہ اکٹھے ہوکرانتخابی معرکے میں حصہ لیا، بظاہر تو یہ پانچ جماعتیں تھیں تاہم درحقیقت یہ میچ جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی ہی کھیل رہی تھیں اور دیگر تینوں پارٹیاں ایکسٹرا کھلاڑیوں کی طرح میدان سے باہر بیٹھی موقع کی منتظر تھیں تاہم عام انتخابات میں ایم ایم اے کو ہونے والی شکست کی وجہ سے جے یوآئی اور جماعت اسلامی کی راہیں جدا ہونے ہی والی ہیں کیونکہ جماعت اسلامی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایم ایم اے نہیں بلکہ اپنے انتخابی نشان اور جھنڈے کے ساتھ میدان میں اترے گی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایم ایم اے کے ایک مرتبہ پھر غیر فعال ہونے کا وقت آگیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی قیادت اورتھنک ٹینک اس انداز سیاست کو عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں جو جے یوآئی نے اپنا رکھا ہے جس کے باعث وہ اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے اپنے طور پر میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
مذہبی جماعتوں کے الگ،الگ ہوکر قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات کے لیے میدان میں اترنے سے ایم ایم اے کا پارہ یکجا نہیں رہ پائے گا کیونکہ بات صرف یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ اس کے بعد اسی سال کے دوران جب بشمول قبائلی اضلاع صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا اس میں بھی جے یوآئی اور جماعت اسلامی الگ،الگ ہی کھڑی نظر آئیں گی جس کا فائدہ تحریک انصاف اور دیگر پارٹیاں لے سکتی ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم ایم اے والا تجربہ پھر دہرانا اور اسے برقراررکھنا مشکل ترین ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی کسی دوسری جماعت کے لیے نہ تو اپنی سیاست بدل سکتی ہے اور نہ ہی انداز سیاست البتہ آسان راستہ راہ بدلنا ہو سکتا ہے اور جماعت اسلامی یہی آسان راہ اپناتے ہوئے اپنی وکٹ پر کھیلنے جا رہی ہے۔
تاہم جب کبھی مرکز اور صوبہ میں ایک ہی پارٹی کی حکومتیں ہوں تو صوبائی حکومت کو ہاتھ ہولا رکھنا پڑتا ہے اور یہی صورت حال موجودہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی تھی اور پھر خصوصاً صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے بجٹ کے موقع پراس سٹیٹمنٹ نے تو سب کو حیران ہی کر دیا جس میں انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت صوبہ کو بجلی کے سالانہ منافع اور بقایاجات کی مد میں 65 ارب روپے کی ادائیگی ماہ نومبر تک کردے گی کیونکہ مرکزکبھی بھی صوبہ کو اتنی بڑی ادائیگی یکمشت نہیں کرتا آیا بلکہ اس کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں کو نشست و برخاست اور اعصابی جنگ لڑنی پڑتی ہے جس کے بعد ہی مرکز کی جیب سے پیسہ نکلتا ہے اور یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ دعوئوں کے باوجود صوبہ کو 65 ارب کی ادائیگی نہیں کی جا سکی۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت دھیمے انداز میں معاملات کو آگے بڑھانے کی پالیسی پر گامزن تھی تاہم اچانک ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور ان کی کابینہ کا لب ولہجہ تبدیل ہوا اور انہوں نے مرکز سے مطالبہ کردیا کہ مذکورہ رقم فوری طور پر صوبہ کو ادا کی جائے اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ صوبہ مالی مشکلات کا شکار ہے اور صوبائی حکومت صوبہ کے حقوق پر کسی بھی طور سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
مرکز میں کسی اور پارٹی کی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر ہیں اور اس صورت حال میں صوبائی حکومت کا لب ولہجہ تبدیل ہونے سے بھوئوں کا تننا ضروری ہے، وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے وہ ارکان جو ان کے نزدیک ہیں ان کا لب ولہجہ مرکز سے وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب کی پشاور آمد کے بعد تبدیل ہوا، شہزاد ارباب نے وزیراعلیٰ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں بھی شرکت کی اور گورنر ہائوس میں قبائلی اضلاع سے متعلق منعقدہ اجلاس میں بھی وہ شریک ہوئے۔
وزیراعظم کے مشیر کی آمد اورگورنر و وزیراعلیٰ سے ملاقاتوں کے بعد ہی یہ کہانی بھی باہر آئی کہ مرکزی حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے اور ڈیڈ لائن پوری ہونے تک اگر وزیراعلیٰ کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی تو اس صورت میں تبدیلی بھی آسکتی ہے، تاہم وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی اس بات سے انکاری ہیں جن کا کہنا ہے کہ'' یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی''، ہو سکتا ہے کہ ان کی بات درست ہو تاہم جب دھواں اٹھتا ہے تو کہیں آگ بھی لگی ہوتی ہے اور پھر یہ سب کچھ اسی دن کیوں ہوتا ہے کہ جس دن وزیراعظم کے مشیر پشاور آتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں اور اچانک وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم ارکان کی جانب سے مرکز سے فوری طور پر بجلی منافع وبقایاجات ادا کرنے کے مطالبات کیے جاتے ہیں، ان باتوں کے تانے بانے جوڑنے سے واضح ہوتا ہے کہ مرکز کی جانب سے وزیراعلیٰ پر زور دیا گیا جس کا جواب انہوںنے اور ان کی ٹیم کے ارکان نے بجلی منافع کی رقم فوری ادا کرنے کے مطالبات کرتے ہوئے دیا۔
اور یہ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ اب صوبائی حکومت یہ منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو صوبہ کے بجلی منافع کے بارے میں بریفنگ دیں تاکہ وہ بھی مرکزی حکومت کو اس بات پر مجبور کریں کہ صوبہ کو جلدازجلد بجلی منافع وبقایاجات کے 65 ارب روپے کی ادائیگی ہو سکے جبکہ ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے کہ صوبائی کابینہ کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے اورکابینہ مشترکہ طور پر وزیراعظم سے یہ مطالبہ کرے کہ صوبہ کو بجلی بقایاجات کی ادائیگی کی جائے، یقینی طور پر یہ اقدامات مرکز پر دبائو بڑھانے کے لیے ہیں حالانکہ صوبائی حکومت یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ مرکزی حکومت مالی مشکلات سے دوچار ہے جنھیں دور کرنے کے لیے ہی دوسرا منی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے تاہم اس کے باوجود ایسے موقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے مرکز پر بقایاجات اور سالانہ منافع کے حصول کے لیے دبائو بڑھانا پی ٹی آئی کی اندرونی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات کا شاخسانہ لگتا ہے کیونکہ جو اختلافات صوبہ میں حکومت سازی کے وقت موجود تھے وہ اب بھی ختم نہیں ہوئے۔
اندر کی خبررکھنے والے تو یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ مرکز میں خدمات انجام دینے والی ایک اہم شخصیت بھی ناراض ہے کیونکہ جو ان کی خواہش تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی بات مانی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اب بھی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے تبدیلی ضروری ہے جبکہ صوبہ میں حکومتی صفوں میں موجود بااثر افراد کی حکومت سازی کے وقت اہم ترین عہدے کے حصول کی کوششیں بھی ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئیں کہ انھیں بھلایاجا سکے۔
ان حالات میں یقینی طور پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو حکمت کے ساتھ چلتے ہوئے معاملات کو سنبھالنا اور ان پر اپنی گرفت رکھنی ہوگی کیونکہ سیاسی میدان میں ذرا سی لغزش سے بھی بڑا نقصان ہوجایا کرتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ قبائلی اضلاع کا سارا کنٹرول وزیراعلیٰ کے پاس آنے کے باوجود وہ اپنے اختیارات گورنر شاہ فرمان کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کیونکہ شاہ فرمان بھی پارٹی کے اندر اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں اور شاید اسی بات کو مدنظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ ان کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہتے۔
پی ٹی آئی اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے ان میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بطور پی ٹی آئی چیئرمین خیبرپختونخوا کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جن معاملات کی وجہ سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے ان پر پانی وہی ڈال سکتے ہیں جس کے لیے کابینہ میں توسیع اور حکومتی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کے حوالے سے بھی معاملات کو نمٹانا چاہیے کیونکہ ایسا نہ ہونا بھی ایک وجہ تنازعہ ہو سکتی ہے اور یہ تنازعہ اسی صورت میں ختم ہوگا کہ جب ایڈجیسٹمنٹ کرلی جائے گی کیونکہ اگر پی ٹی آئی اندرونی طور پرانتشار کا شکار رہی تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ وہ بہتر طریقے سے کام نہیں کر پائے گی اور اس سے صوبہ کی عوام کے لیے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا تاہم جہاں تک صوبہ کے بجلی منافع اور بقایاجات کا تعلق ہے تو مرکز کو اس سلسلے میں صوبہ پر نرمی کی نظر کرتے ہوئے ادائیگی جلد ازجلد کرنی چاہیے تاکہ صوبہ جن مالی مشکلات کا شکار ہے ان سے نکل سکے، اور ایم ایم اے جسے عام انتخابات کے لیے بڑی دھوم دھام کے ساتھ فعال کیا گیا تھا ایک مرتبہ پھر غیر فعال ہونے کی راہ پر چل نکلا ہے۔
گزشتہ سال جولائی کے عام انتخابات میں پانچ مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر دوبارہ اکٹھے ہوکرانتخابی معرکے میں حصہ لیا، بظاہر تو یہ پانچ جماعتیں تھیں تاہم درحقیقت یہ میچ جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی ہی کھیل رہی تھیں اور دیگر تینوں پارٹیاں ایکسٹرا کھلاڑیوں کی طرح میدان سے باہر بیٹھی موقع کی منتظر تھیں تاہم عام انتخابات میں ایم ایم اے کو ہونے والی شکست کی وجہ سے جے یوآئی اور جماعت اسلامی کی راہیں جدا ہونے ہی والی ہیں کیونکہ جماعت اسلامی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایم ایم اے نہیں بلکہ اپنے انتخابی نشان اور جھنڈے کے ساتھ میدان میں اترے گی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایم ایم اے کے ایک مرتبہ پھر غیر فعال ہونے کا وقت آگیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی قیادت اورتھنک ٹینک اس انداز سیاست کو عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں جو جے یوآئی نے اپنا رکھا ہے جس کے باعث وہ اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے اپنے طور پر میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
مذہبی جماعتوں کے الگ،الگ ہوکر قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات کے لیے میدان میں اترنے سے ایم ایم اے کا پارہ یکجا نہیں رہ پائے گا کیونکہ بات صرف یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ اس کے بعد اسی سال کے دوران جب بشمول قبائلی اضلاع صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا اس میں بھی جے یوآئی اور جماعت اسلامی الگ،الگ ہی کھڑی نظر آئیں گی جس کا فائدہ تحریک انصاف اور دیگر پارٹیاں لے سکتی ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم ایم اے والا تجربہ پھر دہرانا اور اسے برقراررکھنا مشکل ترین ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی کسی دوسری جماعت کے لیے نہ تو اپنی سیاست بدل سکتی ہے اور نہ ہی انداز سیاست البتہ آسان راستہ راہ بدلنا ہو سکتا ہے اور جماعت اسلامی یہی آسان راہ اپناتے ہوئے اپنی وکٹ پر کھیلنے جا رہی ہے۔