کیا خط کا زمانہ واپس آجائے گا
ابلاغ کی تاثیر کو اگر پیمانہ مان لیا جائے تو خط، ایس ایم ایس اور واٹس ایپ میسجز سے بہت آگے ہے
دسمبر 1998 میں جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں میرا ایڈمشن ہوا تو ان دنوں لوگ موبائل فون کے نام تک سے واقف نہیں تھے۔ خط یا لیٹر کی انسانی زندگی میں وہی اہمیت تھی جو آج کل موبائل فون کی ہے۔ جو لوگ تھوڑے بہت سوشل ہوتے تھے، ہفتے میں دو چار خط لازمی وصول کرتے اور ان کے جوابات بھی لکھتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون ہر آدمی کے ہاتھ میں آ گیا اور خط کی جگہ کال اور بالخصوص ایس ایم ایس نے لے لی؛ اور اب آہستہ آہستہ واٹس ایپ، ایس ایم ایس کی جگہ لے رہا ہے۔ وہ لوگ جو خط لکھنے اور وصول کرنے کے عادی رہے ہیں، ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کو ذاتی ابلاغ کا ایک کمزور ذریعہ سمجھتے ہیں اور خط کے زمانے کو گہری سانسوں سے یاد کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا خط کے زمانے کو یاد کرتے رہنا بڑے بوڑھوں کا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا واقعی خط میں کچھ ایسا تھا جو ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میں نہیں؟ آج ہم اسی مسئلے پر بات کریں گے۔
دراصل ذاتی نوعیت کے ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز، احساسات کی کسی گہری اور دیرپا رو کے زیر اثر نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے پیچھے خیالات کی وقتی اور احساسات کی سطحی لہر کارفرما ہوتی ہے۔
مثلاً خط لکھنے کےلیے وقت نکال کر الگ ہو بیٹھنا، پندرہ بیس منٹ تک خط تحریر کرتے رہنا، خط بند کرنے کےلیے لفافے کا بندوبست کرنا، لفافہ بند کرکے اس پر ڈاک ٹکٹیں لگانا اور پھر فاصلہ طے کرکے لیٹر بکس تک جانا... یہ تمام مرحلے ہر اس شخص کے ذہن میں ہوتے تھے جسے خط وصول کرنا ہوتا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اتنا تردد کسی خاص آدمی کےلیے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس، ایس ایم ایس تو کوئی بوریت کا لمحہ گزارنے کےلیے آپ کسی کو بھی بھیج سکتے ہیں۔ یا پھر نیم دراز اپنے بستر پر لیٹے لیٹے بھی ایس ایم ایس بھیجا جاسکتا ہے۔ اُدھر ایس ایم ایس وصول کرنے والا بھی آپ کی اس سہولت سے باخبر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز، وصول کرنے والے کی نظر میں اس طرح سے جگہ نہیں پاتے۔
Impulse purchase (امپلس پرچیز) مارکیٹنگ کی ایک مقبول اصطلاح ہے۔ امپلس پرچیز ہر اس شاپنگ کو کہتے ہیں جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے، یونہی راہ چلتے، کسی وقتی محرک کے تحت کر لی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرآپ سپر اسٹور سے شاپنگ مکمل کرکے نکلتے ہیں تو کاؤنٹر پر بل ادا کرتے ہوئے ایک آدھ چیز اچک لیتے ہیں۔ بس ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسج بھی خط کے مقابلے میں امپلس پرچیز قسم کی کوئی چیز ہے۔ جس طرح کی سنجیدگی اور تردد خط لکھنے کےلیے درکار ہوتے ہیں، وہ ایس ایم ایس کا خاصّہ نہیں ہوسکتے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خط کا محرک، ایس ایم ایس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گہرا اور طاقتور ہوتا ہے۔
جس طرح میسج، کنٹکٹ لسٹ میں موجود کسی بھی شخص کو بھیج دیا جاتا ہے، خط اس طرح نہیں لکھے جاتے تھے۔ کس کو خط لکھنا ہے، کس کو نہیں لکھنا؛ کس شخص کےلیے خط میں کونسی بات لکھنی ہے اور کونسی بات نہیں لکھنی؟ لکھتے ہوئے کون سا انداز اختیار کرنا ہے اور کس طرح کے لفظوں کا چناؤ کرنا ہے؟ ان سب باتوں کا ایس ایم ایس کے مقابلے میں، خط کے ساتھ قدرے گہرا تعلق ہے۔
عید کارڈ کے حوالے سے بھی اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موبائل فون کے دور سے پہلے، عید کارڈ عموماً مارکیٹ سے خریدے جاتے تھے۔ شخصیت کو سامنے رکھ کر عید کارڈ کا انتخاب کیا جاتا تھا اور اچھا خاصا وقت صرف کرکے دوستوں عزیزوں کےلیے عید کارڈ خریدے جاتے تھے۔ پھر عید کارڈ لکھتے وقت بھی شخصیت کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔ اور پہلے سے پرنٹ شدہ جملوں کے علاوہ اپنے قلم سے کئی ایک جملے لکھنے کو ترجیح دی جاتی تھی تاکہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ قلم سے لکھے گئے جملے عمومی نہیں بلکہ مخصوص جذبات کے عکاس ہیں۔
عید کارڈ کے زمانے میں بھی بعض لوگ اپنے نام کے دو چار سو عید کارڈ چھپوا لیتے تھے اور ایک دو عمومی جملے پرنٹ کروا کر ان کے نیچے اپنے دستخط ثبت کرکے سب کو بھیج دیتے تھے۔ میں محسوس کرسکتا ہوں کہ اس طرح کے عید کارڈ اپنی اہمیت کھودیتے تھے کیونکہ عید کارڈ پڑھنے والا اس احساس کے ساتھ اسے پڑھتا تھا کہ عید کارڈ میں پرنٹ کیے ہوئے جملے عمومی جذبات لیے ہوئے ہیں اور یہ میرے لیے مخصوص نہیں۔ ایسا لفظ جو بھیجنے والے نے خود تخلیق نہیں کیا ہوا ہوتا، وہ احساسات اور جذبات میں رچا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔
اب آپ سمجھ سکتے ہوں گے کہ موبائل فون پر عید کے دن آنے والے مبارکباد کے ریڈی میڈ میسجز، وصول کرنے والوں کے ہاں اس طرح سے معتبر کیوں نہیں ہوتے۔
ہاں! اگر آپ میسج خود تخلیق کر بھی لیں تو پھر بھی پڑھنے والے کو اس بات کا احساس کم ہی ہوگا کہ آپ نے یہ میسج بہ نفس نفیس لکھا ہے اور صرف پڑھنے والے کےلیے ہی مخصوص ہے۔ ظاہر ہے ایس ایم ایس کی ترکیب میں یہ کرشمہ نہیں کیونکہ کی پیڈ سے ٹائپ کیے گئے لفظ اور قلم سے لکھے ہوئے لفظ کا احساس یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہوا لفظ اپنے اندر احساس کی ایک مکمل جادوگری رکھتا ہے اور پڑھنے والے پر طاری ہو جاتا ہے جبکہ ٹائپ سے لکھا ہوا لفظ اس طرح کے معجزے سے مکمل طور پر محروم ہوتا ہے۔
ایس ایم ایس اور واٹس ایپ میسجز میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خط کے مقابلے میں ان کا دامن انتہائی تنگ ہوتا ہے۔ خط لکھتے ہوئے آپ کے سامنے صفحہ قرطاس کا کھلا اور وسیع میدان ہوتا ہے جس میں آپ اپنے خیالات و جذبات کے گھوڑے خوب دوڑاتے ہیں جبکہ میسجز لکھتے ہوئے آپ پر اسکرین کی تنگی کا احساس غالب رہتا ہے جو آپ کو کم سے کم لفظوں میں اپنی بات مکمل کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بات پروفیشنل اعتبار سے زیادہ بہتر ہو لیکن ذاتی اور مؤثر ابلاغ کے حوالے سے انتہائی غیر موزوں ہے۔ میسجز ٹائپ کرتے ہوئے یہ تنگی نہ صرف جملوں میں بلکہ لفظوں کے ہجوں میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔
عام طور پر لوگ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز کو خط کی ترقی یافتہ شکل سمجھتے ہیں لیکن میرے نزدیک ایسا بالکل نہیں۔ ایس ایم ایس، پیغامات کی تیز ترین ترسیل کا ذریعہ ضرور ہے لیکن مؤثر ترسیل کا ذریعہ ہرگز نہیں۔ ابلاغ کی تاثیر کو اگر پیمانہ مان لیا جائے تو خط، ایس ایم ایس کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔
تو کیا پھر خط کا زمانہ واپس آجائے گا؟
ٹیکنالوجی کے طوفان میں خط کا زمانہ تو شاید واپس نہ آسکے لیکن موجودہ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز والا کلچر یقیناً تبدیل ہوجائے گا۔ میرے خیال میں انسان اس روکھے پھیکے اندازِ ابلاغ سے بہت جلد اکتا جائے گا اور کوئی ایسا ٹول ایجاد کرلے گا جو تیز ترین ہونے کے ساتھ ساتھ خط سے بھی قریب تر ہوگا۔ یعنی اس نئے ٹول میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی جو گزرے وقت کے خط میں پائی جاتی تھیں۔ آپ میری بات سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میری اس حوالے سے یہی رائے ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ ضرور لکھیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پھر یوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون ہر آدمی کے ہاتھ میں آ گیا اور خط کی جگہ کال اور بالخصوص ایس ایم ایس نے لے لی؛ اور اب آہستہ آہستہ واٹس ایپ، ایس ایم ایس کی جگہ لے رہا ہے۔ وہ لوگ جو خط لکھنے اور وصول کرنے کے عادی رہے ہیں، ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کو ذاتی ابلاغ کا ایک کمزور ذریعہ سمجھتے ہیں اور خط کے زمانے کو گہری سانسوں سے یاد کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا خط کے زمانے کو یاد کرتے رہنا بڑے بوڑھوں کا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا واقعی خط میں کچھ ایسا تھا جو ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میں نہیں؟ آج ہم اسی مسئلے پر بات کریں گے۔
دراصل ذاتی نوعیت کے ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز، احساسات کی کسی گہری اور دیرپا رو کے زیر اثر نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے پیچھے خیالات کی وقتی اور احساسات کی سطحی لہر کارفرما ہوتی ہے۔
مثلاً خط لکھنے کےلیے وقت نکال کر الگ ہو بیٹھنا، پندرہ بیس منٹ تک خط تحریر کرتے رہنا، خط بند کرنے کےلیے لفافے کا بندوبست کرنا، لفافہ بند کرکے اس پر ڈاک ٹکٹیں لگانا اور پھر فاصلہ طے کرکے لیٹر بکس تک جانا... یہ تمام مرحلے ہر اس شخص کے ذہن میں ہوتے تھے جسے خط وصول کرنا ہوتا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اتنا تردد کسی خاص آدمی کےلیے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس، ایس ایم ایس تو کوئی بوریت کا لمحہ گزارنے کےلیے آپ کسی کو بھی بھیج سکتے ہیں۔ یا پھر نیم دراز اپنے بستر پر لیٹے لیٹے بھی ایس ایم ایس بھیجا جاسکتا ہے۔ اُدھر ایس ایم ایس وصول کرنے والا بھی آپ کی اس سہولت سے باخبر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز، وصول کرنے والے کی نظر میں اس طرح سے جگہ نہیں پاتے۔
Impulse purchase (امپلس پرچیز) مارکیٹنگ کی ایک مقبول اصطلاح ہے۔ امپلس پرچیز ہر اس شاپنگ کو کہتے ہیں جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے، یونہی راہ چلتے، کسی وقتی محرک کے تحت کر لی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرآپ سپر اسٹور سے شاپنگ مکمل کرکے نکلتے ہیں تو کاؤنٹر پر بل ادا کرتے ہوئے ایک آدھ چیز اچک لیتے ہیں۔ بس ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسج بھی خط کے مقابلے میں امپلس پرچیز قسم کی کوئی چیز ہے۔ جس طرح کی سنجیدگی اور تردد خط لکھنے کےلیے درکار ہوتے ہیں، وہ ایس ایم ایس کا خاصّہ نہیں ہوسکتے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خط کا محرک، ایس ایم ایس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گہرا اور طاقتور ہوتا ہے۔
جس طرح میسج، کنٹکٹ لسٹ میں موجود کسی بھی شخص کو بھیج دیا جاتا ہے، خط اس طرح نہیں لکھے جاتے تھے۔ کس کو خط لکھنا ہے، کس کو نہیں لکھنا؛ کس شخص کےلیے خط میں کونسی بات لکھنی ہے اور کونسی بات نہیں لکھنی؟ لکھتے ہوئے کون سا انداز اختیار کرنا ہے اور کس طرح کے لفظوں کا چناؤ کرنا ہے؟ ان سب باتوں کا ایس ایم ایس کے مقابلے میں، خط کے ساتھ قدرے گہرا تعلق ہے۔
عید کارڈ کے حوالے سے بھی اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موبائل فون کے دور سے پہلے، عید کارڈ عموماً مارکیٹ سے خریدے جاتے تھے۔ شخصیت کو سامنے رکھ کر عید کارڈ کا انتخاب کیا جاتا تھا اور اچھا خاصا وقت صرف کرکے دوستوں عزیزوں کےلیے عید کارڈ خریدے جاتے تھے۔ پھر عید کارڈ لکھتے وقت بھی شخصیت کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔ اور پہلے سے پرنٹ شدہ جملوں کے علاوہ اپنے قلم سے کئی ایک جملے لکھنے کو ترجیح دی جاتی تھی تاکہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ قلم سے لکھے گئے جملے عمومی نہیں بلکہ مخصوص جذبات کے عکاس ہیں۔
عید کارڈ کے زمانے میں بھی بعض لوگ اپنے نام کے دو چار سو عید کارڈ چھپوا لیتے تھے اور ایک دو عمومی جملے پرنٹ کروا کر ان کے نیچے اپنے دستخط ثبت کرکے سب کو بھیج دیتے تھے۔ میں محسوس کرسکتا ہوں کہ اس طرح کے عید کارڈ اپنی اہمیت کھودیتے تھے کیونکہ عید کارڈ پڑھنے والا اس احساس کے ساتھ اسے پڑھتا تھا کہ عید کارڈ میں پرنٹ کیے ہوئے جملے عمومی جذبات لیے ہوئے ہیں اور یہ میرے لیے مخصوص نہیں۔ ایسا لفظ جو بھیجنے والے نے خود تخلیق نہیں کیا ہوا ہوتا، وہ احساسات اور جذبات میں رچا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔
اب آپ سمجھ سکتے ہوں گے کہ موبائل فون پر عید کے دن آنے والے مبارکباد کے ریڈی میڈ میسجز، وصول کرنے والوں کے ہاں اس طرح سے معتبر کیوں نہیں ہوتے۔
ہاں! اگر آپ میسج خود تخلیق کر بھی لیں تو پھر بھی پڑھنے والے کو اس بات کا احساس کم ہی ہوگا کہ آپ نے یہ میسج بہ نفس نفیس لکھا ہے اور صرف پڑھنے والے کےلیے ہی مخصوص ہے۔ ظاہر ہے ایس ایم ایس کی ترکیب میں یہ کرشمہ نہیں کیونکہ کی پیڈ سے ٹائپ کیے گئے لفظ اور قلم سے لکھے ہوئے لفظ کا احساس یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہوا لفظ اپنے اندر احساس کی ایک مکمل جادوگری رکھتا ہے اور پڑھنے والے پر طاری ہو جاتا ہے جبکہ ٹائپ سے لکھا ہوا لفظ اس طرح کے معجزے سے مکمل طور پر محروم ہوتا ہے۔
ایس ایم ایس اور واٹس ایپ میسجز میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خط کے مقابلے میں ان کا دامن انتہائی تنگ ہوتا ہے۔ خط لکھتے ہوئے آپ کے سامنے صفحہ قرطاس کا کھلا اور وسیع میدان ہوتا ہے جس میں آپ اپنے خیالات و جذبات کے گھوڑے خوب دوڑاتے ہیں جبکہ میسجز لکھتے ہوئے آپ پر اسکرین کی تنگی کا احساس غالب رہتا ہے جو آپ کو کم سے کم لفظوں میں اپنی بات مکمل کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بات پروفیشنل اعتبار سے زیادہ بہتر ہو لیکن ذاتی اور مؤثر ابلاغ کے حوالے سے انتہائی غیر موزوں ہے۔ میسجز ٹائپ کرتے ہوئے یہ تنگی نہ صرف جملوں میں بلکہ لفظوں کے ہجوں میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔
عام طور پر لوگ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز کو خط کی ترقی یافتہ شکل سمجھتے ہیں لیکن میرے نزدیک ایسا بالکل نہیں۔ ایس ایم ایس، پیغامات کی تیز ترین ترسیل کا ذریعہ ضرور ہے لیکن مؤثر ترسیل کا ذریعہ ہرگز نہیں۔ ابلاغ کی تاثیر کو اگر پیمانہ مان لیا جائے تو خط، ایس ایم ایس کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔
تو کیا پھر خط کا زمانہ واپس آجائے گا؟
ٹیکنالوجی کے طوفان میں خط کا زمانہ تو شاید واپس نہ آسکے لیکن موجودہ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ میسجز والا کلچر یقیناً تبدیل ہوجائے گا۔ میرے خیال میں انسان اس روکھے پھیکے اندازِ ابلاغ سے بہت جلد اکتا جائے گا اور کوئی ایسا ٹول ایجاد کرلے گا جو تیز ترین ہونے کے ساتھ ساتھ خط سے بھی قریب تر ہوگا۔ یعنی اس نئے ٹول میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی جو گزرے وقت کے خط میں پائی جاتی تھیں۔ آپ میری بات سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میری اس حوالے سے یہی رائے ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ ضرور لکھیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔