اپنی ذہن سازی کیجیے اور دولت کمائیے

مڈل کلاس شخص پانچ لاکھ کی گاڑی تو خرید لے گا لیکن ایک لاکھ کی سرمایہ کاری نہیں کرے گا


محمد رضا الصمد January 24, 2019
مڈل کلاس شخص پانچ لاکھ کی گاڑی تو خرید لے گا لیکن ایک لاکھ کی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ (فوٹو: فائل)

ہم نوجوان تعلیم کے حصول کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ہم میں اکثریت کے کام کرنے کا بنیادی مقصد دولت کا حصول ہوتا ہے؛ اور گریجویٹ ہونے کے بعد اگلے تیس سال تک ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ ہم کچھ مزید سرٹیفکیٹس حاصل کرکے، امتحان دے کر یا اسپیشل کلاسز لے کر اپنی قابلیت کو کاغذ پر دنیا سے منوا لیں اور پہلے سے زیادہ پیسے کمائیں۔

ایک ہی طرز زندگی آپ کو مختلف نتائج نہیں دے سکتا

عملی زندگی میں آہستہ آہستہ ہم کچھ نئی عادتیں اپنالیتے ہیں۔ صبح سے شام محنت کرتے ہیں تاکہ پیسہ کمائیں؛ اور پھر زیادہ سے زیادہ پیسہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی دیگر خواہشات پوری کرسکیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ ہم ایک ''چوہا دوڑ'' (rat race) کا حصہ بن جاتے ہیں جس میں ہم صبح سویرے اپنے گھروں سے کسی دوسرے کی نوکری کرنے کےلیے نکل جاتے ہیں، دن بھر محنت کرتے ہیں، شام میں ٹریفک سے لڑ کر گھر پہنچتے ہیں، رات میں اپنے ذاتی کام نمٹاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ پھر یہی ہماری روزمرہ عادت بن جاتی ہے۔

ہماری اس چوہا دوڑ کا ایندھن یہ سوچ ہوتی ہے: ''زیادہ کماؤ تاکہ زیادہ خرچ کرسکو۔'' اس عمل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم تیس سال تک 8 گھنٹے روزانہ کام کرکے، ایک ہی روٹین رکھ کر امیر تو بن سکتے ہیں، مگر دولت مند نہیں۔

امير نہيں، دولت مند بنو!

امیر آدمی سے اگر مال چھین لیا جائے تو وہ غریب بن جاتا۔ مگر جب دولت مند سے مال چھن جائے تو وہ کچھ عرصے میں دوبارہ دولت مند بن سکتا ہے۔ دولت مند ہونا بنیادی طور پر ایک صلاحیت کا نام ہے۔

انسان لاٹری نکلنے سے، وراثت میں جائیداد ملنے سے، امیر گھر میں پیدا ہونے سے، دولت مند گھرانے ميں شادی ہونے سے، یا رفتہ رفتہ پیسے جمع کرنے سے امیر بن جاتا ہے۔ مگر اکثر یہ پیسہ انسان کے پاس زیادہ عرصے تک نہیں رہتا؛ کیونکہ انسان کا امیر یا غریب ہونا اس کی سوچ سے وابستہ ہے۔

اپنے خرچے کنٹرول کیجیے

دولت مند بنے کے اصول، امیر بننے سے ذرا مختلف ہیں۔ دولت مند بنے کا بنیادی اصول سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اگر ایک شخص پندرہ ہزار ماہانہ کمائے، ایک ہزار انویسٹ کرے اور باقی چودہ ہزار میں گزارا کرے تو ایسا شخص تو دولت مند بن سکتا ہے، مگر ایک شخص اگر ماہانہ دو لاکھ کمائے اور دو لاکھ ہی خرچ کردے، تو وہ وقتی امیر تو بن جائے گا، مگر دولت مند کبھی نہیں بن سکتا۔

دولت کمانے کا تعلق سوچ سے ہے

''اگر دنیا کی ساری دولت تمام لوگوں میں برابر تقیسم کردی جائے تو کچھ سال میں غریب پھر سے غریب اور امیر پھر سے مالدار ہوجائيں گے۔'' ایسا کیسے ممکن ہے؟ اگر آپ کو دو کروڑ روپے آج مل جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ اپنی وہ تمام خواہشات پوری کرنے کی کوشش کریں گے جو آج تک پیسوں کی کمی کی وجہ سے پوری نہ کرسکے۔ اکثریت عوام ايسا ہی کریں گے۔ یہ ایک مکمل سبجیکٹ ہے جسے Behavioral Finance (کرداری مالیات) کے نام سے پڑھایا جاتا ہے۔

ہم جب بھی اپنی جیب سےکوئی رقم خرچ کرتے ہیں تو ہم کسی دوسرے انسان یا ادارے سے کچھ خدمات یا مال حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس طرح ہمارے پیسے، ہمارے ہاتھ سے نکل کر سودا بیچنے والے کی ملکیت بن جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ سوداگر ''سپلائر سائیڈ'' پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے سپلائر بننے کا ہنر آتا ہے، وہ بھی بغیر کوئی امتحان پاس کیے۔ اگر آپ بھی دولت کا حصول چاہتے ہیں تو سپلائر سائیڈ پر آئیے۔

سرمايہ کاری کیجیے

سرمایپ کاری سے مراد یہ ہے کہ آج اپنی دولت کو کسی ایسی جگہ خرچ کرنا، جہاں سے کل نفع ملنے کی امید ہو۔ اگر آپ کے پاس دولت سے مزید دولت حاصل کرنے کا علم موجود ہے تو آپ سرمایہ کار ہیں۔ اور اگر آپ بغیر یہ علم حاصل کیے، کل نفع ملنے کی امید پر آج اپنا مال خرچ کر رہے ہيں تو آپ جواری ہیں، سرمایہ کار نہیں۔ اکثر لوگ حصص مارکیٹ میں یہی جوا کھیلتے ہیں۔

دولت کمانے کے چند آزمودہ طریقے

جو لوگ نوکری کرتے ہیں یا اپنے کاروبار پر خود صبح سے شام بیٹھتے ہیں، وہ راست آمدن (Active Income) کماتے ہیں جس کےلیے انہیں روزانہ 8 سے 10 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ افراد عام طور پر چوہا دوڑ کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ جس دن وہ کام کرنا بند کردیں گے، اس دن انہیں پیسے ملنا بند ہوجائیں گے۔

کاغذی اثاثوں ميں سرمایہ کاری کرکے نفع کمانے کو ''پورٹ فولیو انکم'' (Portfolio Income) کہتے ہیں۔ اس میں سرٹیفکیٹ آف ڈپازٹ، سکوک، میوچوئل فنڈ اور حصص کی تجارت شامل ہیں۔ اس کام میں دو فائدے ہيں: ایک تو چھوٹی رقم سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، اور دوسرا اگر اس کام کو سوچ سمجھ کر کیا جائے تو بندے میں مالیاتی تعلیم اور بزنس کی سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔

جس کاروبار میں آپ کو صبح سے شام تک کام نہ کرنا پڑے، اور آپ کے ملازم یا آپ کا بزنس ہر گزرتے وقت کے ساتھ آپ کو پیسے کماکر دیں، ایسی کمائی کو بالواسطہ آمدن (Passive Income) کہتے ہیں۔ اس میں کارپوریٹ انویسٹمنٹ، ریئل اسٹیٹ اور دیگر بزنس شامل ہیں۔

دولت مند لوگ جب پیسہ کماتے ہیں تو وہ اپنے کمائے ہوئے پیسے دوبارہ سے نفع بخش کاروبار میں لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسرے لوگ ان کےلیے کام کرتے ہیں، اور وہ اپنے قائم کردہ بزنس سسٹم کا پھل کھاتے ہیں۔

مڈل کلاس شخص پانچ لاکھ کی گاڑی تو خرید لے گا لیکن ایک لاکھ کی سرمایہ کاری نہیں کرے گا، کیونکہ رقم ڈوبنے کے ڈر سے اس نے سرمایہ کاری سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، جبکہ اس کی گاڑی بھی اسے بڑا مالی نقصان دے سکتی ہے۔

اگر آپ دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی ذہن سازی کیجیے، خرچے کنٹرول کیجیے، سرمایہ کاری کیجیے۔ Active income سے رقم بچا کر Portfolio income ميں لگائيے۔ زیادہ سے زیادہ اثاثے بنانے کی کوشش کریں۔ تب ہی دھیرے دھیرے Passive income کا حصول ممکن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے