ہم سب مجرم ہیں

الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے قانون اور آئین کی حکمرانی کا شعور چھین لیا جائے

ہم کم علم اور جذباتی قوم ہیں، ہماری قیادت کرنے والے چند مخصوص ایشوز پر جذباتی کر کے ہمیں رلا دیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ساہیوال واقعے نے اس قوم کی آنکھوں سے اس کی نیندیں چھین لی ہیں۔ اس سے قبل عوامی جذبات کا ایسا مظاہرہ زینب قتل پر دیکھنے میں آیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ وہ انسانیت کو شرما دینے والا جرم ایک نامعلوم ملزم نے کیا تھا اور یہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے تنخواہ دار، ملکی ادارے کے ملازمین نے۔ سوشل میڈیا غم وغصے سے لبریز رلا دینے والی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے جو ایک عام پاکستانی کے جذبات کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ہر ایک یہ پوچھ رہا ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ہر فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ خلیل کے خاندان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو کل میرے بچوں کو بھی یہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت پر سب و شتم بجا کہ اس کے فرائض میں شامل ہے کہ ملک کے عوام کی حفاظت کرے۔ لیکن ان جرائم میں حکومت کے علاوہ ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پاکستانی شہری، میڈیا، ہماری علمی اور دینی قیادت کرنے والے اور تعلیمی نظام، سب ہی شامل ہیں۔ ہم سب مجرم ہیں۔

اس سے قبل ہم لاپتا افراد کے سلسلے میں جب بھی آئین اور قانون کے احترام کی بات کرتے تھے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ ملکی سلامتی کےلیے قانون توڑنا مخصوص اداروں کےلیے جائز ہونا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کینیڈا جیسے ملک میں بیس بیس سال سے مقیم پڑھی لکھی پاکستانی نژاد دوستوں سے جو پاکستان میں ماورائے عدالت گرفتاریوں کو، جنہیں اصل میں اغوا کہا جانا چاہیے، ملکی سلامتی کے نام پر اداروں کا حق سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلاں ادارہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتا۔ وہ دشمنوں سے ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ اسے احتساب سے بالا تر ہونا چاہیے۔ جب ہم کسی ایک ادارے یا چند اداروں کو قانون توڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو دراصل اس ملک کے عوام کے دلوں سے قانون کا احترام ختم کرتے ہیں۔ جب سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ایک ڈکٹیٹر کے آئین معطل کرنے کی حمایت کی جاتی ہے تو ہم دراصل اپنی قوم کی تباہی کا گڑھا خود اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہوتے ہیں۔

میرا دل ہمیشہ اس بات پر مضطرب رہتا ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اسے بھارت اور بنگلا دیش نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے استعمال کیا۔ اگر پاکستانی حکومت کے ادارے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی سفارشات کے مطابق غلط کاریوں میں ملوث فوجی افسران کا کورٹ مارشل کرکے انہیں اپنے دفاع کا حق دے کر قانون کے مطابق سزائیں سنا دیتی تو ہمارے دشمنوں کو تمام عالم میں اس زہریلے پروپیگنڈے کا موقع نہیں ملتا جو وہ آج کر رہے ہیں۔ شاید وہ اس کے بعد بھی خاموش نہ ہوتے مگر کم از کم ہمارا ضمیر تو مطمئن ہوتا۔ لیکن ہم نے ادارے کو بدنامی سے بچانے کےلیے کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود اس ادارے کے جائز دفاع کے حق سے بھی دست بردار ہوگئے۔

دینی جماعتیں سیاست سے کسی طرح دست بردار ہونے پر راضی نہیں لیکن یہ بھی آئین و قانون کی حکمرانی کے مسئلے پر اداروں پر تنقید کو گناہ سمجھتی ہیں، اور خاموشی اختیار کرنے کو مصلحت کا تقاضا جانتی ہیں۔ بلکہ ان کے ذمہ داران کا صاف کہنا ہے کہ ہم فوج سے تصادم نہیں چاہتے اور اسی لیے بعض اوقات اپنے کارکنان کے ماورائے عدالت اغوا اور بعد ازاں ماورائے عدالت قتل پر بھی خاموش رہتی ہیں؛ اور ایسا آج سے نہیں کوئی دو دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ کیا اس طرز عمل کے بعد بھی عوامی سیاست کرنے کا جواز بنتا ہے؟

رواں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بلوچستان کے سیاسی رہنما اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہم سے زیادہ دینی جماعتوں کے کارکنان خفیہ اداروں کی قید میں ہیں لیکن باوجود توجہ دلانے کے یہ جماعتیں اس مسئلے پر آواز اٹھانے پر راضی نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت میں اس کا شعور ہی نہیں پایا جاتا کہ یہ کیوں اہم ہے کہ ملزم کا بہرصورت ٹرائل ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کے چارٹر، اسلامی قانون اور پاکستانی آئین کے مطابق یہ ملزم کا حق ہے۔ عدالتی کارروائی اور ملزم کو اپنے دفاع کا حق دیئے بغیر اسے غائب کرنے یا ماورائے عدالت قتل کرنا، دونوں ہی غلط ہیں۔

ہم کم علم اور جذباتی قوم ہیں۔ ہماری قیادت کرنے والے چند مخصوص ایشوز پر جذباتی کر کے ہمیں رلا دیتے ہیں لیکن ہم ان اصولوں کو سمجھنے پر راضی نہیں جو کسی سر زمین پر انسانی بقا کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہم آج تک عافیہ صدیقی کی امریکا میں قید کو روتے ہیں مگر یہ سمجھنے پر راضی نہیں کہ عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے والے، جب سے اب تک چالیس ہزار پاکستانیوں کو غائب کر چکے ہیں۔ اور وہ کوئی غیر نہیں، ہمارے اپنے ادارے ہیں۔ ان میں سے ہر فرد عافیہ ہی کی طرح کا انسان تھا۔ اس کے بھی بچے اور والدین تھے۔ ہماری سیکولر چھوڑیئے، دینی جماعتوں کے مقررین عافیہ صدیقی کے مسئلے پر مجمعوں کو رلا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اپنے ماننے والوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اصل جرم ماورائے عدالت گرفتاری ہے۔ اصل جرم قانون توڑنا ہے جو کسی امریکی سے پہلے ہمارے اپنے اداروں نے توڑا ہے۔


ہمارے دین اور کتاب کے مطابق انصاف کی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہمارے علماء اور مقررین سماجی انصاف کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کم نظر آتے ہیں۔ جب ایک فرد کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو دنیا کے ہر فرد کے انسانی حقوق خطرے میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہم انسان مسلمان ان غائب ہونے والوں اور ماورائے عدالت قتل ہوجانے والوں پر خاموش رہ کر قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے اداروں کی پیٹھ تھپکتے ہیں۔

ہمارے ہاں ادارہ سازی نہیں، وقتی جوش اور جذبے کو فوقیت حاصل ہے۔ تعریف کے مطابق ادارے دراصل اصولوں کی بنیاد پر بننے والے قوانین ہیں جن کا تسلسل کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا کے بنیادی لوازم میں سے ہے۔ جب ہم ملکی سلامتی کے نام پر چند مخصوس اداروں کے قانون توڑنے کی حمایت کرتے ہیں تو دراصل عوام کے دل سے قانون کے احترام کو ختم کرنے کے جرم میں شریک ہوتے ہیں۔

چند سال قبل ہجویری یونیورسٹی کی ایک ٹیڈ ایکس ٹاک میں جاوید چودھری نے بابائے قوم قائداعظمؒ کے چند واقعات شیئر کیے جن کے مطابق متحدہ ہندوستان میں قائدؒ نے انگریز کے قوانین کے مطابق سائیکل پر لائٹ نہ لگانے والوں سے کہا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستانی مملکت کے شہری بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ قانون کا احترام نہیں کرتے۔ دور حاضر کے عظیم مفکر ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے پیروکاروں کو قائدؒ کی طرح ہر حال میں ملکی قانون کے احترام کا سبق دیا۔ لیکن آج مجھے کوئی ایسی سیکولر یا دینی قیادت نظر نہیں آتی جو اپنے کارکنان کو آئین کی اہمیت کے نظریئے سے لیس کرے۔

نقیب کی خوبصورتی اور بچوں کی معصومیت پر پاکستانی عوام کے جذبات اپنی جگہ، مگر اس سے قبل جو لوگ مارے گئے وہ کیا کسی کے بچے نہ تھے؟ یا ان کے اپنے معصوم بچے نہ تھے؟ اور مرنے سے زیادہ جو لوگ تاحال غائب ہیں، ان کے خاندانوں کی تڑپ مرنے والوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور اس سب کے ذمہ دار اصل میں قانون توڑنے والے ادارے اور اس قانون شکنی پر خاموش رہنے والی سیاسی، دینی اور علمی قیادت اور خود عوام ہیں۔

الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور اٹھا لیا جائے۔ میرے نزدیک شعور کے فقدان میں حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، قوم کی علمی اور دینی قیادت کرنے والے، تعلیمی نظام، سب ذمہ دار ہیں جو ایک شہری کو اس کے حقوق و فرائض کا شعور دینے میں ناکام ہیں۔ ہم سب عافیہ صدیقی، نقیب الله، خلیل کے خاندان اور دہشت گردی کے نام پر غائب ہونے اور مارے جانے والوں کے مجرم ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story