فاٹامیں485 اسکولزتباہ ہوچکے5لاکھ بچوں کا مستقبل تاریک

اکثرمزدوری کرنے پرمجبور،شدت پسندوں کے باآسانی ہتھے چڑھ سکتے ہیں،ماہرین تعلیم

اکثرمزدوری کرنے پرمجبور،شدت پسندوں کے باآسانی ہتھے چڑھ سکتے ہیں،ماہرین تعلیم۔ فوٹو: فائل

MUMBAI:
فاٹامیںپانچ سال میں شدت پسندکارروائیوں میں 485 تعلیمی اداروں کوتباہ کیاگیا جس سے5 لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیںاکثربچے محنت مزدوری کرنے پرمجبورہوگئے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں سرکاری تعلیمی اداروں اورنجی سکولوں پرجاری حملوںکیوجہ سے لاکھوںطلبا وطالبات تعلیم کی حصول سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ ماہرین تعلیم یہ خدشہ بھی ظاہرکررہے ہیںکہ ایسے حالات میں تعلیم سے محروم یہ طلبہ باآسانی شدت پسندوںکے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں۔


فاٹا برسوں سے پسماندگی کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہاںتعلیم کی شرح انتہائی کم رہی ہے بالخصوص قبائلی خواتین کی تعلیم نہ ہونے کی برابر ہے۔آج بھی فاٹا میں ایسے علاقے موجودہیں جہاں لڑکیوں میں شرح تعلیم ایک یا دو فیصد ہے جبکہ بعض علاقوں میں یہ شرح صفرفیصد تک بتائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم فاٹاکے ڈپٹی ڈائریکٹر ہاشم آفریدی نے بتایاکہ قبائلی علاقوں میں جاری شدت پسندکارروائیوں میںاب تک 485 کالج، ہائیر سیکنڈری اسکول، ہائی اسکول، مڈل اور پرائمری اسکول تباہ ہوچکے ہیں۔

بعض تباہ اسکولوںکیلیے متبادل بندوبست کیاگیا ہے۔ اہلکارکے مطابق ان متبادل مقامات پر شروع اسکولوں کی تعدادسوسے زائد ہے جن کے لیے سعودی عرب اوریواے ای تعاون فراہم کرتے ہیں ان کوششوں سے تقریباً پچاس فیصد بچوںکا تعلیمی سلسلہ بحال کردیاگیا ہے۔ادھر وفاقی وزیرقبائلی علاقہ جات اور سرحدی امور انجینئر شوکت اﷲ خان نے ایک انٹرویو میں بتایاکہ تباہ اسکولوںکی بحالی میں وقت لگے گا تعلیمی ادارے شدت پسندوں کاآسان نشانہ ہوتے ہیں اس لیے اگرانھیں بحال کردیا جائے تو دوبارہ ان پر حملے ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story