ای اوبی آئی کیس سپریم کورٹ کا ڈی ایچ اے کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم

اگر ڈی ایچ اے کے ذہن میں ہے کہ وہ قانون سے بڑا ہے تو یہ بات ذہن سے نکال دے، چیف جسٹس


ویب ڈیسک July 19, 2013
اگر ڈی ایچ اے کے ذہن میں ہے کہ وہ قانون سے بڑا ہے تو یہ بات ذہن سے نکال دے، چیف جسٹس. فوٹو فائل

ای او بی آئی اسکینڈل کیس میں سپریم کورٹ نے 22 ارب روپے ادا نہ کرنے پر ڈی ایچ اے راولپنڈی کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ای او بی آئی اسکینڈل کی سماعت کی، اس موقع پرعدالت نے حکم دیا کہ جب تک 22 ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی جائے گی ڈی ایچ اے کے اکاؤنٹس منجمد رہیں گے، عدالت نے ڈی ایچ اے کو اپنے اکاؤٹنس کی تفصیلات فوری طور پر رجسٹرار آفس میں جمع کرانے اور ایف آئی اے کوکیس کی تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

عدالت نے گذشتہ سماعت میں ڈی ایچ اے کو 22 ارب روپے جمع کرانے کاحکم دیا تھا تاہم آج ہونے والی سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کے وکیل احمر بلال صوفی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا ایک اکاؤنٹس ہے جس میں 26 کروڑ روپے موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے عدالت میں حقائق نہیں بتائے، ای او بی آئی کو انتہائی قیمتی اراضی دی گئی، اب ان کی قیمت 30 فیصد بڑھ چکی ہے،ان کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی سے لیے گئے 22 ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوچکے، ڈی ایچ اے کے پاس اب ادائیگی کے لیے رقم نہیں، اس لئے ڈی ایچ اے اب ای او بی آئی کے پلاٹ فروحت کرے گا اور رقم رجسٹرار آفس میں جمع کراتا رہے گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اتنے پیسے تو آپ ایک دن میں کما لیتے ہیں، غریب آدمی کا پیسہ نہیں جانے دیں گے ، اگر ڈی ایچ اے کے ذہن میں ہے کہ وہ قانون سے بڑا ہے تو یہ بات ذہن سے نکال دے۔

اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈی ایچ اے کو ئی کریانہ کی دکان نہیں ،کیا یہ اتنے سادہ ہیں کہ ہر چیز ڈی ایچ اے کی ہے مگر کوئی اور لے اڑا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی ایچ اے اس کا تحفظ کررہا ہے جو ان کے پیسے لے گیا، جس پر وکیل احمر بلال صوفی نے عدالت کو بتایا کہ پلاٹ کی قیمت 2011میں 25 لاکھ تھی جو اب بڑھ کر4 کروڑ ہو گئی ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایک پلاٹ کی قیمت 4 کروڑ کیسے ہے کیا یہ پلاٹ پیرس میں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے ای او بی آئی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔

سیکریٹری انسانی وسائل ڈویژن نے عدالت کو بتایا کہ ذمہ داروں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں، کیس کو انجام تک پہنچائیں گے ، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے سے کیا ہوتا ہے ،لوگ پھربھی باہر چلے جاتے ہیں ، ای او بی آئی والوں کی تنخواہیں بند کریں سب ٹھیک ہو جائے گا، اس موقع پر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ 4 اداروں نے تقریبا 7 ارب روپے ای او بی آئی کو واپس کرنے کا یقین دلایا ہے، اس موقع پر ایف آئی اے نے عدالت بتایا کہ چکوال میں بھی ایک اور زمین ثنا اللہ نامی شخص کی طرف سے خریدی گئی، ثنا اللہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے رشتے دار ہیں جبکہ اس زمین کی قیمت 60 ہزار روپے فی مرلہ تھی لیکن یہ 15 لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے خریدی گئی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر شخص نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں