لاہور چڑیا گھر کا آنگن ڈیڑھ سال سے ہاتھی کا منتظر

ٹھیکدار کی اجارہ داری کی وجہ سے چڑیا گھر انتظامیہ بے بس


آصف محمود January 23, 2019
لاہور چڑیا گھرکی اکلوتی ہتھنی سوزی مئی 2017 میں دم توڑگئی تھی فوٹو: فائل

چڑیا گھرکے لئے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود ہاتھی نہیں خریدا جاسکا ہے جبکہ ٹھیکیدار چڑیا گھر انتظامیہ کو مسلسل ٹرخانے میں لگانے میں مصروف ہے، ٹھیکیدارنے ایک بار پھر ہاتھی درآمد کرنے کے لئے 6 ماہ کا وقت مانگ لیاہے۔

لاہور چڑیا گھرکی اکلوتی ہتھنی سوزی مئی 2017 میں دم توڑگئی تھی،جس کے بعد لاہورچڑیاگھرانتظامیہ نے ہاتھی لانے کا فیصلہ کیا تھا اوراس مقصدکے لئے لاہورکے ایک کنٹریکٹرکو ہاتھی لانے کا ٹھیکہ دیا گیا ، یہ ٹھیکہ 4 کروڑ 99 لاکھ روپے میں دیا گیا تھا، ٹھیکدارنے تین ماہ میں ہاتھی لانے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورانہیں ہوسکا ہے۔

لاہورچڑیا گھر کے ذرائع کے مطابق ہاتھی کے کنٹریکٹرکی مدت میں تین بارتوسیع کی جا چکی ہے اور اب اس نے ایک بار پھر ہاتھی لانے کے لئے 6 ماہ کی مہلت مانگ لی ہے، اس سے قبل اس نے جون 2018 اور پھر دسمبر 2018 میں ہاتھی لانے کے کئے توسیع کروائی تھی جب کہ قواعد کے مطابق کسی بھی کنٹریکٹر کو جانوروں کی سپلائی کے لئے دی گئی مدت میں 2 بار سے زیادہ توسیع نہیں کی جاسکتی ہے، ایسا کرنے والے کنٹریکٹر کی سیکیورٹی ضبط کرلی جاتی ہے اور جانوروں کی درآمد کے لئے نئے کنٹریکٹرز کو آفر کیا جاتا ہے تاہم ٹھیکدار کی اجارہ داری کی وجہ سے چڑیا گھر انتظامیہ بے بس ہے اورہاتھی منگوانے کے لئے دوبارہ ٹینڈربھی جاری نہیں کر رہی ہے۔

لاہور چڑیا گھر انتظامیہ نے کنٹریکٹر کو افریقن ہاتھی لانے کا ٹھیکہ دیا تھا تاہم ٹھیکدار کے پاس یہ آپشن موجود تھی کہ وہ سری لنکا سمیت کسی دوسرے ملک سے بھی ہاتھی درآمد کرسکتا ہے، دوسری طرف صوبائی وزیر جنگلات و جنگلی حیات پنجاب متعدد بار یہ دعوی کرچکے ہیں کہ جلد ہی دو ہاتھی لاہور چڑیا میں لائے جائیں گے لیکن وہ بھی اپنا وعدہ پورانہیں کرسکے ہیں۔

دوسری طرف کراچی اورلاہورمیں ایسے کئی کنٹریکٹر موجود ہیں جو دوماہ میں بیرون ملک سے ہاتھی منگوا سکتے ہیں لیکن محکمہ جنگلی حیات پنجاب کی طرف سے ایسے ٹھیکداروں کو موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ چڑیا گھرکے ایک سینئرافسرنے بتایا کہ ٹھیکیدار نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ فروری کے آخرتک ہاتھی لاہور چڑیا گھر پہنچ جائے گا جبکہ دوسری طرف اس نے جون تک کی مہلت مانگی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں