فرانس اور جرمنی کا تاریخی دوستی معاہدہ

پاکستان اور بھارت کی قیادت کو بھی جرمنی اور فرانسیسی قیادت کی طرح عزم اور شعور کی ضرورت ہے۔


Editorial January 24, 2019
پاکستان اور بھارت کی قیادت کو بھی جرمنی اور فرانسیسی قیادت کی طرح عزم اور شعور کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

1701ء سے1871ء تک جرمنی اور فرانس میں سات جنگیں ہوئیں ان کے علاوہ جنگ عظیم اول اور دوئم میں بھی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل تھے تاہم آج 2019ء کے پہلے مہینے میں فرانس اور جرمنی نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس سے قبل 1963ء میں دونوں ملکوں نے جنگ عظیم دوئم کے بعد مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے تھے۔

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جرمنی کے سرحدی قصبے آکہن ACHEN میں دوستی کے معاہدے پر دستخط کیے اور اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ یورپی یونین (ای یو) کے بحران کو حل کرنے میں مدد دیں گے اور ای یو کے لیے نئی قیادت پیش کریں گے۔ تاہم مبصرین نے ان کے اس عزم کی کامیابی پر شکوک کا اظہار کیا ہے کیونکہ یورپی یونین کے 28 رکن ممالک کی اپنی دلچسپیاں اور مفادات ایک دوسرے کے برعکس اور متضاد ہیں جن کو اسٹریم لائن میں نہیں لایا جا سکتا۔

اس حوالے سے اگر برصغیر کے باہم متحارب ممالک کو دیکھا جائے تو ان میں تو ابھی تک دو تین جنگیں ہی ہوئی ہیں لہٰذا اگر یہ ممالک بھی اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کسی دوستانہ تجارتی اور اقتصادی معاہدے کے بارے میں سوچیں تو یہ بات بعید از قیاس نہیں ہونی چاہیے۔

جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی اچھی باتوں سے سیکھتا ہے ،اسی طرح ایک ملک بھی دیگر ممالک کی دیکھا دیکھی بہتر راہ کا انتخاب کر سکتا ہے ایسا راستہ جس پر چلنے کے فوائد نقصانات کی نسبت بہت زیادہ ہوں۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان اور انڈیا یا سارک ممالک میں باہمی تجارت شروع ہو جائے تو یہ پورے خطے کی بیروز گاری میں نمایاں تخفیف کی طرف پہلا قدم ہو گا جس کے اگلے اقدامات پر بعد میں سوچا جا سکتا ہے۔

جرمن چانسلر نے معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت فرانس کو قوم پرستی کے خطرے کا سامنا ہے جو کہ ملک کے اندر سے اٹھ کھڑا ہو رہا ہے لہٰذا اس حوالے سے جرمنی کی ذمے داری میں دگنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ آگے کا راستہ ہموار کرنے میں مدد کرے۔ پاکستان اور بھارت میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو دونوں ملکوں کو قریب نہیں آنے دینا چاہتے لہٰذا پاکستان اور بھارت کی قیادت کو بھی جرمنی اور فرانسیسی قیادت کی طرح عزم اور شعور کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں