سندھ کا سپوت دولھا دریا خان

جام نندو نے دولھ دریا خان کی پرورش اپنے بیٹے اور بہادر سپاہی کی طرح کی تاکہ وہ جوان ہوکر ایک اچھا سپہ سالار بنے۔


لیاقت راجپر January 24, 2019

میں سندھ کے اس سپوت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس نے اپنی بہادری، عقل اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر غاصبوں کا مقابلہ کیا اور اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس بہادر لیڈرکا نام ہے دولھ دریا خان جس کا آبائی گاؤں سیہون شریف سے کچھ کلومیٹر دور اب بھی گاہا کے نام سے آباد ہے۔ جیساکہ ٹھٹھہ میں سما قوم کی حکومت تھی جس کے بادشاہ نظام الدین سما تھے جسے چھوٹے جام کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اس کی حکومت سبی تک پھیلی ہوئی تھی۔

دوسرے بادشاہوں کی طرح انھیں بھی شکارکھیلنے کا شوق تھا اور وہ سیر کے بہانے اپنی حکومت کی سرحدیں دیکھنے اور عوام سے حال معلوم کرنے بھی جایا کرتے تھے ۔ایک دن گرمیوں کے موسم میں وہ شکار کھیلتے ہی گاہا گاؤں کے قریب پہنچے جہاں پر انھیں شدید پیاس نے ستایا اور انھوں نے پانی مانگا تو ایک بچے کوکہا گیا کہ وہ پانی لائیں۔ وہ پانی تو لے آئے مگر اس وقت اس نے پانی والے برتن میں کچھ سوکھے گھانس کے پتے بھی ڈال دیے۔

پیاس کی شدت سے نظام الدین نے پانی تو پی لیا اور جب کچھ دیر ہوئی تو اس نے پوچھا کہ انھیں پانی کس نے دیا تھا کیونکہ اس برتن میں کچھ سوکھی گھانس کے پتے پڑے ہوئے ہیں۔ بچے کو لایا گیا جس پر بچے نے کہا کہ ''بادشاہ سلامت میں نے جان بوجھ کر پانی میں گھانس ڈالی تھی،کیونکہ اگر آپ وہ پانی جلدی جلدی پی لیتے تو آپ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ پانی پینے سے وہ اس نقصان سے محفوظ رہے۔''

نظام الدین، بچے کی دانشمندی اور بہادری سے متاثر ہوئے اور اپنے ساتھ سندھ کے دارالحکومت ٹھٹھہ لے آئے، پرورش اپنے بیٹے کی طرح کرنے لگے اور ان کا نام دولھا دریا خان رکھا حالانکہ ان کا اصلی نام مبارک علی تھا۔

جام نندو نے دولھ دریا خان کی پرورش اپنے بیٹے اور بہادر سپاہی کی طرح کی تاکہ وہ جوان ہوکر ایک اچھا سپہ سالار بنے اور سندھ کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور سما قوم کی حکومت برقرار رہنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جام نندو اپنے بیٹے جام فیروز کے ہوتے ہوئے بھی دولھا دریا خان کو ساری ذمے داریاں دیتے تھے جس کی وجہ سے نظام الدین کی بیوی مدینہ ماچھی مخالفت کرتی رہتی تھی۔ اپنی اچھی فوجی اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے انھوں نے 50 سال تک حکومت کی اور سندھ حکومت کی سرحدیں آگے تک بڑھاتے رہے اور باہر سے ہونیوالے حملہ آوروں کو شکست دیتے رہے۔

ایک مرتبہ جب سبی پر ارغون بادشاہ شاہ بیگ نے حملہ کیا تو اس وقت سبی سندھ کا اہم حصہ تھا جہاں پر بہادر خان کو کمانڈر اورگورنر بناکر بھیجا گیا تھا۔ جب ارغون اور سندھ کی فوجوں میں لڑائی ہوئی تو 1485ء میں جاری رہنے والی لڑائی دو سال تک چلتی رہی اور آخرکار بہادر خان کو شکست ہوئی اور وہ واپس ٹھٹھہ چلے آئے۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ کچھ تجارت کرنے والوں نے قندھارکے گورنرکوکہا کہ ''سندھ میں بیوپارکے خیال سے جاتے ہوئے انھیں سبی میں لوٹ لیا جاتا ہے'' جس پر شاہ بیگ ارغون نے اپنے بھائی کو سبی کا گورنر بنا دیا۔ شاہ بیگ ارغون قندھار کے گورنرکا بیٹا تھا۔ اس شکست پر نظام الدین کو بڑا غصہ آیا اور اس نے وزراء کؤنسل کی مشاورت سے دولھا دریا خان کوکمانڈر بناکر سبی کی طرف روانہ کیا گیا جب وہ سبی پہنچے تو انھوں نے فوجی حکمت عملی اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ارغون کی فوج کو شکست فاش دے کر شاہ بیگ ارغون کے بھائی گورنر کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد سندھ کی حکومت سبی میں بحال ہوگئی۔

اس جیت سے نظام الدین اپنے کمانڈر دولھا دریا خان سے بڑے خوش ہوئے اور انھیں امیر الامرا، وزیر اعظم اور کمانڈر انچیف بنادیا۔ اس بات سے نظام الدین کی بیوی مدینہ خوش نہیں تھی۔ اس کے علاوہ نظام الدین، دریا خان کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ دریا خان نے راٹھور قوم سے تعلق رکھنے والی لڑکی بھون سے شادی کی تھی، جس کا تعلق زیادہ تر اس وقت تھرپارکر سے تھا۔ یہ شادی بھی ملکہ مدینہ کے لیے دریا خان سے دشمنی کا مزید سبب بنی رہی۔ اس کے علاوہ نظام الدین نے مرتے وقت اپنے بیٹے فیروز کو بادشاہی بخش دی مگر حکومت اور انتظام کا کنٹرول دریا خان کے حوالے کیا اورکہا کہ اس کی فیملی کے نگہبان بھی وہی رہیں گے کیونکہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اچھا کام کرسکتے ہیں۔ جام فیروز میں حکومتی اور انتظامی صلاحیت اچھی نہیں تھی۔

جب فیروز تخت نشین ہوئے تو خوشامدی ٹولے اور اس کی ماں نے کانوں میں زہر بھردیا کہ دولھا دریا خان اقتدار پر قبضہ کرلے گا۔ چار سال کے اندر یہ سازش چنگاری سے شعلہ بن گئی جس کے نتیجے میں دریا خان سے سارے اختیارات جام فیروز نے خود لے لیے۔اس صورتحال کی وجہ سے دریا خان 1512ء میں ٹھٹھہ چھوڑکر اپنے گاؤں گاہا چلے آئے اور وہاں رہنے لگے۔ اس گاؤں کے نزدیک مخدوم بلاول کا مدرسہ بھی تھا جس کی وجہ سے ان کی ملاقاتیں مخدوم بلاول کے ساتھ اکثر ہوتی تھیں۔ ملاقاتوں کے دوران دونوں سندھ کی سیاسی حالت اور اس کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔

جام فیروز کی نا اہلی کی وجہ سے سما حکومت کمزور ہوتی جا رہی تھی جسے دیکھ کر جام فیروز کے کزن صلاح الدین نے گجرات کے حکمران کو خط لکھ کر سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دی، وہ ایک بڑا لشکر لے کر ٹھٹھہ پر حملہ آور ہوا، جس کی وجہ سے جام فیروز تخت چھوڑ کر بھاگ گئے اور صلاح الدین کو حکمران بنایا گیا۔ جب جام فیروزکو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اپنی ماں کو لے کر دریا خان کے پاس گئے اور اسے راضی کرکے واپس لے آئے۔ دریا خان نے علاقے کے اثر و رسوخ والے طاقتور لوگوں کو اکٹھا کیا اور بھکر کے حکمران سے بھی مدد حاصل کی اور ٹھٹھہ پر حملہ کرکے صلاح الدین کو شکست دے کر بھگا دیا اور دوبارہ جام فیروز کو حاکم بنوایا۔

کچھ عرصے کے بعد کم عقل جام فیروزکو پھر خوشامدی لوگوں نے بھڑکایا اور اس کی ماں کے دل میں بھی دوبارہ خوف کی لہر اٹھی کہ کہیں دوبارہ دریا خان طاقتور نہ بن جائے اور تخت پر قبضہ نہ کرلے اور وہ قندھارکے گورنر شاہ بیگ ارغون کو حملے کی دعوت دے آئے۔ اب 1520ء میں شاہ بیگ نے ٹھٹھہ پر حملہ کردیا۔ پھر جام فیروز اپنی ماں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوگیا لیکن دریا خان نے اپنی عزت، سما کی حکومت کو بچانے کے لیے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

12 دسمبر 1520ء میں سموئی کے میدان میں شاہ بیگ کی فوج اور دریا خان کی سربراہی میں سندھ کے لشکر کے درمیان بڑی جنگ چھڑ گئی اور یہ لڑائی کئی دن چلتی رہی اور جب شاہ بیگ نے دیکھا کہ وہ دریا خان کو شکست نہیں دے پائیں گے اور نہ ہی اسے قتل کرسکتے ہیں تو اس نے سازش کے طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا اور بات چیت کے ذریعے حالات کو حل کرنے کی دعوت دی۔ جب دریا خان اکیلا ان کے پاس پہنچا تو اسے دھوکے سے وارکرکے مار دیا گیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر لوگوں میں مایوسی چھا گئی مگر پھر بھی کچھ بہادر سپاہیوں نے جس میں ان کے بیٹے بھی شامل تھے مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔

دریا خان کا مقبرہ مکلی قبرستان میں ہے جہاں پر صرف کچھ لوگ آکر ہر سال اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کی قبر پر پھول چڑھاتے ہیں جب کہ حکومت سندھ اور دوسرے افراد کی طرف سے نہ توکوئی تقریب منعقد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اس تاریخی بہادر شخصیت کو یاد کرتا ہے جو ایک المیہ ہے بلکہ نوجوان نسل تو اس سپوت کے بارے میں جانتی ہی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں