آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے
ایمان اور عمل صالح کے لیول پر جو امتحانات اور مشکلات آتی ہیں ان میں بنیادی کردار دو قوتوں کا ہے۔
راہ حق پر چلتے ہوئے مشکلات اور مصائب لازماً آئیں گے، اگر انھیں مشکلات پیش نہ آئیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں، صراط مستقیم نہیں ہے کوئی اور راستہ ہے۔ جیساکہ واضح کیا گیا کہ ایمان، اعمال صالحہ، حق کی نصیحت اور صبرکی تلقین، صراط مستقیم کے چار سنگ میل ہیں، جن سے ہم نے بہرصورت گزرنا ہے، لیکن یہ گزرنا آسان نہیں۔ ان میں سے ہر مرحلے پر مشکلات اور آزمائشیں آئیں گی۔ ایمان ہی کو لے لیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہو مگر بسا اوقات انسان محبت الٰہی کے امتحان میں پڑ جاتا ہے۔
ایک طرف اولاد اور بیوی کی ناجائز فرمائشیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف احکام الٰہی کی بجا آوری کا جذبہ۔ اب اگر اس موڑ پر آدمی اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر بیوی اور اولاد کے غلط مطالبات پورے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محبت الٰہی کے امتحان میں فیل ہوگیا ہے۔ اسی طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ایک جھوٹ کا کلمہ کہہ لینے سے لاکھوں روپے کا فائدہ دکھائی دیتا ہے، مگر دوسری طرف جھوٹ کے گناہ کا خیال آتا ہے۔ یوں انسان آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ایمان کی آزمائش بسا اوقات اس صورت میں ہوتی ہے کہ آدمی کا توکل و اعتماد اللہ پر ہے یا وہ مادی اسباب و وسائل پر تکیہ کرتا ہے۔
نیک اعمال کی بجا آوری بھی آسان نہیں، ان میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ نماز کو لے لیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ پنج وقتہ نماز اس کی شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرو۔ لیکن نفس کا تقاضا اس راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ صبح سویرے نرم اور گرم بستر سے اٹھ کر نماز کے لیے مسجد جانا نفس پر ضبط اورکنٹرول کے بغیر آسان نہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملے میں بھی قدم قدم پر امتحانات آتے ہیں۔
ایمان اور عمل صالح کے لیول پر جو امتحانات اور مشکلات آتی ہیں ان میں بنیادی کردار دو قوتوں کا ہے۔ انسان کا نفس ہے، جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا کہ یہ برے کاموں ہی کی طرف بلاتا ہے۔ اور دوسرا انسان کا ازلی دشمن شیطان ہے، جس نے تاقیامت اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ سے مہلت مانگ رکھی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اللہ کی بندگی کریں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔
نفس امارہ اور شیطان کے ساتھ ساتھ شیطانی قوتیں بھی اس کی راہ پوری قوت سے روکنے لگتی ہیں۔ راہ حق میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھی سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کر انھیں مکے کے پہاڑوں میں گھمایا جاتا۔ شدید گرمی کے عالم میں پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ ان سے کہا جاتا کہ ہمارے معبودوں کا اقرارکرلو، مگر قربان جائیں ان کی عظمت پر اس تمام تر سختی کے باوجود ان کی زبان پر احد احد ہی کی صدا بلند ہوتی تھی۔ حضرت عثمان بن عفان کا چچا انھیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے دھواں دیتا۔ حضرت حباب بن الحارثؓ کو انگاروں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا گیا۔ ان کی پیٹھ جھلس گئی، مگر کوئی چیز انھیں راہ حق سے انحراف پر آمادہ نہ کرسکی۔
صحابہ کرامؓ سے زیادہ سچی توبہ کرنے والے اور صادق الایمان کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ اگر صراط مستقیم پر چلتے ہوئے انھیں مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو کسی بھی دور میں اہل ایمان کو کوئی گروہ آزمائش اور ابتلا کے اصول سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔
سورۃ البقرہ میں جہاں سابقہ امت مسلمہ یعنی یہود کو اللہ کی نمایندہ امت کے منصب سے معزول اور امت محمدیہﷺ کو اس منصب پر فائزکیا گیا اور اس پر شہادت علی الناس کی ذمے داری ڈالی گئی کہ اب رہتی دنیا تک اسے حق کی علمبردار بن کرکھڑا ہونا اور انسانیت تک دین حق کو پہنچانا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ہم تمہاری آزمائش ضرور کریں گے '' اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے۔'' اور جو لوگ ان آزمائشوں پر پورا اتریں گے ان کی بابت مندرجہ بالا آیت کے آخر میں نبی اکرمﷺ سے فرمایا گیا: ''(اے نبیﷺ) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔'' اسی سورۃ میں ایک تنبیہہ بھی آئی ہے ۔
فرمایا: ''کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی۔ دیکھو خدا کی مدد قریب ہے۔'' بہرحال آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے، جو اہل حق پر بہر صورت آنی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی راہ حق کا راہی ہو اور اسے امتحانوں سے واسطہ نہ پڑے۔
بعض اوقات دنیا میں اہل حق کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ بھی آتا ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں حلال و حرام کی بندش کو قبول کیا ہے، نفس کو لگام دے رکھی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کو معلوم ہی نہ ہو۔ لہٰذا یہاں یقین دلایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کے کسی بھی نیک عمل کو ضایع نہیں کیا جائے گا۔ آیت 31 میں جنت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ: ''ان لوگوں کے لیے باغات ہیں جن کے دامن میں ندیاں جاری ہوں گی، وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ پہنیں گے وہاں پر سبز کپڑے گاڑھے اور باریک ریشم کے۔ وہاں پر تخت ہوں گے جن پر وہ تکیے لگائے ہوں گے۔ کیا ہی عمدہ ہے وہ بدلہ (جو اللہ تعالیٰ انھیں عطا کرے گا) اور کیا ہی عمدہ ہے وہ آرام گاہ (جو ان کو ملنے والی ہے'') یہ صرف اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی ہوگی۔
جو اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار بندوں کے لیے تیار کی ہیں، ایک حدیث کے مطابق نہ کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا احساس تک گزرا ہے۔ یعنی جنت کی اصل حقیقت انسان کے تخیل سے ماورا ہے۔ سورۃ السجدہ کی ایک آیت کی رُو سے: ''کسی نفس کو نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا رکھا ہے'' ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ دنیا کی نعمتوں کی قدر و قیمت اگر مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ تو جسے اللہ واقعی اپنی نعمت قرار دے رہا ہے تو وہ کیا ہوگی! ان ابدی نعمتوں کے حصول کے لیے اس چند روزہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا شرط ہے۔
ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی بس ایک عارضی وقفہ ہے ، لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی وفاداری ثابت کرنی ہے۔ ایمان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ پر یقین اور توکل ہو۔ اگر توکل احباب و وسائل پر ہوجائے تو یہ شرک ہے۔ دجالی دور کا سب سے بڑا شرک یہی ہے کہ مادی اسباب و وسائل پر سارا تکیہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور صحیح راستے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ایک طرف اولاد اور بیوی کی ناجائز فرمائشیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف احکام الٰہی کی بجا آوری کا جذبہ۔ اب اگر اس موڑ پر آدمی اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر بیوی اور اولاد کے غلط مطالبات پورے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محبت الٰہی کے امتحان میں فیل ہوگیا ہے۔ اسی طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ایک جھوٹ کا کلمہ کہہ لینے سے لاکھوں روپے کا فائدہ دکھائی دیتا ہے، مگر دوسری طرف جھوٹ کے گناہ کا خیال آتا ہے۔ یوں انسان آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ایمان کی آزمائش بسا اوقات اس صورت میں ہوتی ہے کہ آدمی کا توکل و اعتماد اللہ پر ہے یا وہ مادی اسباب و وسائل پر تکیہ کرتا ہے۔
نیک اعمال کی بجا آوری بھی آسان نہیں، ان میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ نماز کو لے لیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ پنج وقتہ نماز اس کی شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرو۔ لیکن نفس کا تقاضا اس راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ صبح سویرے نرم اور گرم بستر سے اٹھ کر نماز کے لیے مسجد جانا نفس پر ضبط اورکنٹرول کے بغیر آسان نہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملے میں بھی قدم قدم پر امتحانات آتے ہیں۔
ایمان اور عمل صالح کے لیول پر جو امتحانات اور مشکلات آتی ہیں ان میں بنیادی کردار دو قوتوں کا ہے۔ انسان کا نفس ہے، جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا کہ یہ برے کاموں ہی کی طرف بلاتا ہے۔ اور دوسرا انسان کا ازلی دشمن شیطان ہے، جس نے تاقیامت اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ سے مہلت مانگ رکھی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اللہ کی بندگی کریں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔
نفس امارہ اور شیطان کے ساتھ ساتھ شیطانی قوتیں بھی اس کی راہ پوری قوت سے روکنے لگتی ہیں۔ راہ حق میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھی سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کر انھیں مکے کے پہاڑوں میں گھمایا جاتا۔ شدید گرمی کے عالم میں پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ ان سے کہا جاتا کہ ہمارے معبودوں کا اقرارکرلو، مگر قربان جائیں ان کی عظمت پر اس تمام تر سختی کے باوجود ان کی زبان پر احد احد ہی کی صدا بلند ہوتی تھی۔ حضرت عثمان بن عفان کا چچا انھیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے دھواں دیتا۔ حضرت حباب بن الحارثؓ کو انگاروں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا گیا۔ ان کی پیٹھ جھلس گئی، مگر کوئی چیز انھیں راہ حق سے انحراف پر آمادہ نہ کرسکی۔
صحابہ کرامؓ سے زیادہ سچی توبہ کرنے والے اور صادق الایمان کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ اگر صراط مستقیم پر چلتے ہوئے انھیں مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو کسی بھی دور میں اہل ایمان کو کوئی گروہ آزمائش اور ابتلا کے اصول سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔
سورۃ البقرہ میں جہاں سابقہ امت مسلمہ یعنی یہود کو اللہ کی نمایندہ امت کے منصب سے معزول اور امت محمدیہﷺ کو اس منصب پر فائزکیا گیا اور اس پر شہادت علی الناس کی ذمے داری ڈالی گئی کہ اب رہتی دنیا تک اسے حق کی علمبردار بن کرکھڑا ہونا اور انسانیت تک دین حق کو پہنچانا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ہم تمہاری آزمائش ضرور کریں گے '' اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے۔'' اور جو لوگ ان آزمائشوں پر پورا اتریں گے ان کی بابت مندرجہ بالا آیت کے آخر میں نبی اکرمﷺ سے فرمایا گیا: ''(اے نبیﷺ) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔'' اسی سورۃ میں ایک تنبیہہ بھی آئی ہے ۔
فرمایا: ''کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی۔ دیکھو خدا کی مدد قریب ہے۔'' بہرحال آزمائش و امتحان اللہ کی سنت ہے، جو اہل حق پر بہر صورت آنی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی راہ حق کا راہی ہو اور اسے امتحانوں سے واسطہ نہ پڑے۔
بعض اوقات دنیا میں اہل حق کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ بھی آتا ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں حلال و حرام کی بندش کو قبول کیا ہے، نفس کو لگام دے رکھی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کو معلوم ہی نہ ہو۔ لہٰذا یہاں یقین دلایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کے کسی بھی نیک عمل کو ضایع نہیں کیا جائے گا۔ آیت 31 میں جنت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ: ''ان لوگوں کے لیے باغات ہیں جن کے دامن میں ندیاں جاری ہوں گی، وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ پہنیں گے وہاں پر سبز کپڑے گاڑھے اور باریک ریشم کے۔ وہاں پر تخت ہوں گے جن پر وہ تکیے لگائے ہوں گے۔ کیا ہی عمدہ ہے وہ بدلہ (جو اللہ تعالیٰ انھیں عطا کرے گا) اور کیا ہی عمدہ ہے وہ آرام گاہ (جو ان کو ملنے والی ہے'') یہ صرف اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی ہوگی۔
جو اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار بندوں کے لیے تیار کی ہیں، ایک حدیث کے مطابق نہ کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا احساس تک گزرا ہے۔ یعنی جنت کی اصل حقیقت انسان کے تخیل سے ماورا ہے۔ سورۃ السجدہ کی ایک آیت کی رُو سے: ''کسی نفس کو نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا رکھا ہے'' ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ دنیا کی نعمتوں کی قدر و قیمت اگر مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ تو جسے اللہ واقعی اپنی نعمت قرار دے رہا ہے تو وہ کیا ہوگی! ان ابدی نعمتوں کے حصول کے لیے اس چند روزہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا شرط ہے۔
ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی بس ایک عارضی وقفہ ہے ، لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی وفاداری ثابت کرنی ہے۔ ایمان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ پر یقین اور توکل ہو۔ اگر توکل احباب و وسائل پر ہوجائے تو یہ شرک ہے۔ دجالی دور کا سب سے بڑا شرک یہی ہے کہ مادی اسباب و وسائل پر سارا تکیہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور صحیح راستے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)