بھارت نہیں صرف اور صرف پاکستان

پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں کے درمیان جو تاریخی مخاصمت اور دشمنی جاری ہے


Abdul Qadir Hassan July 19, 2013
[email protected]

محترم میاں صاحب کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ہی گزرا ہے کہ انھوں نے بلاتاخیر بھارت کے ساتھ کسی بیک چینل ڈپلومیسی کا پھر سے پُر جوش جذباتی دور شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے برطانیہ کے وزیر خارجہ کو اس کی اطلاع دی اور خوشخبری سنائی اور انھیں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کی اطلاع دی ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کے مشترکہ کلچر وغیرہ کا حوالہ دے کر تعلقات کے اس نئے دور کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکا بھارت کو اس خطے میں چھوٹا امریکا بنانے کے جس پروگرام پر چل رہا ہے، برطانیہ اس میں اس کا معاون تو ہے ہی ایلچی بھی ہے چنانچہ بات تو بظاہر برطانوی وزیر خارجہ سے ہو رہی تھی لیکن اصل پیغام امریکا کو دیا جا رہا تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ کی یہ کامیابی ہے کہ انھوں نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ منتخب وزیر اعظم سے ایسی یقین دہانیاں حاصل کر لی ہیں جن کا کوئی پاکستانی لیڈر برملا اظہار ہر گز نہیں کر سکتا۔

پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں کے درمیان جو تاریخی مخاصمت اور دشمنی جاری ہے، وہ کوئی غیر سیاسی مزاج رکھنے والا لیڈر دور نہیں کر سکتا، یہ ایک تاریخ ہے۔ بھٹو نے بھارت مخالف نعرہ لگا کر پنجاب سے ووٹ لیے اور ان کی طاقت سے وہ بعد میں وزیر اعظم بن گئے کیونکہ اس خطے کے مسلمان بھارت کو ایک آزمودہ دشمن سمجھتے ہیں بقول بھٹو کے ہزار سال تک جنگ لڑ سکتے ہیں لیکن اس کی برتری تسلیم نہیں کر سکتے۔ اس ملک کے مسلمانوں کے اندر نسل بعد نسل یہ حقیقت زندہ چلی آ رہی ہے کہ پاکستان بنانے کی اصل وجہ کیا تھی۔

انگریزوں نے مسلمانوںسے ہندوستان چھینا تھا، اس کے بعد یہاں کے مسلمان اتنی طاقت تو حاصل نہیں کر سکے کہ اس ہندوستان کو بزور بازو واپس لے سکیں لیکن انھوں نے اس خطے میں اپنا ایک آزاد ''ہندوستان'' بنا لیا جسے پاکستان کا نام دیا گیا، اس طرح ایک ایسے مرکز مورچے اور محاذ کا قیام عمل میں آ گیا جہاں سے وہ اپنے اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کر سکیں لیکن مسلمانوں کا قائد مر گیا اور اس کی جیب کے کھوٹے سکے ہماری کرنسی بن گئے۔ ہم اب تک انھی کھوٹے سکوں سے پاکستان کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہم ان کی وجہ سے ہی نصف گنوا چکے ہیں۔

اور ہندو لیڈر کی طنز کا یہ تیر کھا چکے ہیں کہ ہم نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا۔ یہ ہزار سال مسلمانوں کی ہندوستان پر حکمرانی کے سال تھے۔ حیرت کی کوئی انتہا نہیں کہ ہم جو بھارت کے ساتھ بڑی دیدہ دلیری سے کسی بیک ڈور چینل کا پھر سے آغاز کر چکے ہیں اس وقت سابق مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے جاں نثار اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور بھارت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کی آواز کتنی ہی کمزور سہی لیکن ان میں اتنی جان ضرور ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو ان کا وہ نظریہ یاد دلا سکیں جو قیام پاکستان کا اصل سبب اور مقصد تھا اور جسے وہ باقی ماندہ پاکستان میں مزے سے زندہ رہ کر بھلاتے جا رہے ہیں۔ ہمارے بازاروں اور منڈیوں میں جب دھوتیاں لہرائیں گی تب ہم کسی قائداعظم کی تلاش کریں گے۔

کوئی گیا گزرا پاکستانی مسلمان بھی ہندو کی برتری برداشت نہیں کر سکتا سوائے ان کے جن کو امریکا کی خوشنودی مطلوب ہے اور جن کا یہ ڈولتا ہوا عارضی اقتدار اپنے بچاؤ کے لیے کبھی امریکا کے سامنے بند نہیں باندھ سکے گا، صرف پاکستانی عوام ہی اپنا ملک بچا سکتے ہیں اور یہی عوام پاکستانی قلعے کی بچاؤ کی دیوار ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے وقتی طور پر بھارتی انتقام کی آگ کچھ سرد ہوئی لیکن جب تک پاکستان باقی ہے یہ آگ سلگتی رہے گی۔

ان چند ایک پاکستانیوں کو چھوڑ کر جو بیرونی ملکوں کی مالی امداد یا بھارتی آشیر باد اور مال پانی پر پاکستان کے بارے میں شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں اور وہ ایکسپوز بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ لوگ چونکہ زیادہ تر میڈیا میں ہیں اس لیے ان کی آواز دور دور تک جاتی ہے اور ایسے نوجوان اس سے متاثر ہوتے ہیں جن کو نہ تو ہم نے ان کی درسگاہوں میں پاکستانیت کی تعلیم دی اور نہ ہی انھیں معاشی مصروفیات نے موقع دیا کہ وہ پاکستان کے اصل مفہوم کو سمجھ سکیں۔ ان دنوں تو بھارتی کامیابیوں کی ایک حد ہے کہ تمام اخبارات شوبز کے نام پر اپنا ایک صفحہ بھارتی اداکاروں کے پروپیگنڈے میں ہر روز چھاپتے ہیں اور ٹی وی پر تو بھارتی زندہ ناچ گانا چلتا ہی رہتا ہے۔

بھارتی لیڈر سونیا گاندھی نے عرصہ ہوا کہا تھا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں پاکستانیوں کے لیے ہماری فلمیں ہی بہت ہیں اور اب میں جب بھارتی فلموں کے ٹریلر دیکھتا ہوں یا کسی بھارتی اداکار کی موت پر پاکستانیوں کے بین سنتا ہوں تو سونیا کی اس پیش گوئی کو درست سمجھتا ہوں۔ ہمیں اب اپنے بچے کھچے پاکستان کو یوں نہیں لینا چاہیے کہ یہ ایک ملک ہے اور رہے گا اگر یہ پہلے نہیں رہا اور اس کے اپنے لیڈروں نے اسے توڑ دیا اور دشمن کو بھی اس کا موقع دیا تو یہ سب اب کیوں نہیں ہو سکتا۔

میں ان ناچیز صحافیوں میں سے ہوں جن کی وفاداری اب صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ ہے، اس کا کوئی لیڈر اگر اس کے ساتھ گستاخی کرتا ہے تو اب میں اسے کوئی الاؤنس نہیں دیتا بلکہ چیخ اٹھتا ہوں، میرا تو ملک کے باہر کچھ بھی نہیں جہاں میرے بچے ایک دن بھی گزار سکیں۔ ان لوگوں کا پاکستان کے ساتھ کیا جذباتی واسطہ جن کی مال و دولت باہر بھی اتنی ہے کہ وہ وہاں بھی شاندار زندگی بسر کر سکیں۔ میں ان لوگوں کے لیے ایسا ملک کیسے زندہ رکھ سکتا ہوں میں تو پاکستان پاکستانیوں کے لیے زندہ رکھنے کی سعی کروں گا۔

اب آخر میں ایک یاد دہانی ملاحظہ فرمائیے۔
اے پاکستان کے نام نہاد دانش ورو!

تم کہتے ہو کہ............
.........''نظریہ پاکستان'' کس چڑیا کا نام ہے؟
لو' دیکھو!.........یہ ہے نظریہ پاکستان
............
اللہ اکبر
میثاق رکنیت آل انڈیا مسلم لیگ
لا الہ الا اﷲ محمدرسول اللہ
یا یھا الذین امنوا اوفوا بالعقودط
(القرآن)
میں مسلم لیگ کا ممبر ہونا چاہتا ہوں' اور بحیثیت مسلمان اقرار کرتا ہوں کہ۔
-1 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نصب العین ''آزاد ہندوستان کے ساتھ آزاد ملت اسلام'' یعنی براعظم ہند میں' اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ مدراس کی تصریحات کے مطابق آزاد مسلم سلطنتوں اور آزاد مسلم وطنوں کی تعمیر اور قومیت ملت اسلامیہ ہندوستان کے کامل استقلال و آزادی کے قیام اور مسلمانوں کے حقوق و مفاد کی سارے براعظم ہندوستان کے اندر مکمل حفاظت پر عقیدہ رکھتا ہوں۔-2 میں ملت اسلامیہ ہند کو براعظم ہند کے اندر ایک مستقل قومیت یقین کرتا اور فکر اسلامی کا مسلک قبول کرتا ہوں' اور عہد کرتا ہوں کہ تمام فکروں پر فکر اسلامی کو اور تمام مفادوں پر مفاد اسلامی کو اور تمام وفا داریوں پر وفاداری اسلام کو برتر' غالب و مقدم رکھوں گا۔
-3 میں مسلم لیگ کے اصول' اغراض و ضوابط کے ماتحت لیگ کے فیصلوں اور حکموں کی پوری تائید کروں گا اور لیگ کے پروگراموں کی کامیابی کے لیے خلوص سے کام کروں گا۔
وما تو فیقی الا باللہ
دستخط (پورا نام) ممبر............ صوبہ.........ضلع......... پتہ ممبر......... دستخط سیکریٹری......... تاریخ رکنیت ............
پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کا میثاق رکنیت' جو آج بھی مسلمانان پاکستان اور بالخصوص نئی بننے والی مسلم لیگی حکومت کے عہدیداروں کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے کہ وہ تمام فکروں پر فکر اسلامی کو' تمام مفادوں پر مفاد اسلامی کو اور تمام وفاداریوں پر وفاداری اسلام کو برتر' غالب اور مقدم رکھیں۔
از طرف:۔
قاضی عبدالقادر' ایم اے' بی کام، ڈبائی منزل' A-577' بلاک 'J' نارتھ ناظم آباد کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں