سیاپے کا زیاں
میرے جیسے رپورٹروں کو ان نفاستوں کا ہرگز ادراک نہیں ہوتا۔
آج سے کئی برس پہلے صرف اور صرف صحافت کے شعبے سے متعلق ہو جانے کے باجود میں نے کبھی خود کو قومی سلامتی کے امور کا ماہر نہیں سمجھا۔ اپنی رپورٹنگ کے دنوں میں اگرچہ کافی عرصے تک خارجہ امور بھی میری Beat ہوا کرتے تھے، ہمارے جیسے ادنیٰ رپورٹر لیکن اس ضمن میں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے صرف وزارتِ خارجہ کی ہفت روزہ بریفنگ میں جاتے اور جو کچھ اس وزارت کے ترجمان ہمیں بتاتے من و عن رپورٹ کرنے کی کوشش کرتے۔ کوئی غیر ملکی سربراہ یا وزیر خارجہ اپنے دورۂ پاکستان کے اختتام پر کسی پریس کانفرنس سے خطاب کرتا تو صرف ان رپورٹروںکو ان سے سوالات کرنے کی اجازت دی جاتی جن کی اس ملک کی نظریاتی بنیادوں سے وابستگی مسلّم سمجھی جاتی۔
وزارتِ خارجہ والے بڑے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں خوب علم ہوتا ہے کہ کھانے کی میز پر بہت سارا ''مایا'' لگے سفید لٹھے کے Napkin کو اُٹھا کر اپنے جسم کے بالائی حصے پر کیسے رکھا جاتا ہے۔ جب Multi-Course ڈنر ہوتے ہیں تو ہر کورس کے ساتھ پلیٹیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ آپ ہر ڈش کو صرف ایک کانٹے، چھری یا چمچ سے نہیں کھا سکتے۔ صرف وزارتِ خارجہ والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سا چمچہ یا چھری کس ڈش کے لیے استعمال کرنا ہے۔
میرے جیسے رپورٹروں کو ان نفاستوں کا ہرگز ادراک نہیں ہوتا۔ اسی لیے جب کوئی غیر ملکی سربراہ یا وزیر خارجہ کسی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا ہوتا تو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے وابستہ رپورٹروں کو وزارتِ خارجہ والے سوالات لکھ کر دیتے۔ ظاہر ہے وہ یہ سب اس لیے کرتے کہ کوئی جاہلانہ سوال کرتے ہوئے ہمارا کوئی رپورٹر مادرِ وطن کی سبکی کا باعث نہ بنے۔ مجھے پہلے سے لکھا سوال کسی نے کبھی دیا ہی نہیں۔ ایسی پریس کانفرنسوں میں سر جھکائے بس تیزی سے نوٹس لیتا رہتا۔
قومی سلامتی کے امور پر لکھنے والے پریس کانفرنسوں وغیرہ میں نہیں جاتے۔ انھیں ہمارے وزیر اعظم،وزیر خارجہ یا قومی سلامتی کے نگہبان ادارے خصوصی بریفنگوں میں بلاتے ہیں۔ وہاں ''آف دی ریکارڈ'' باتیں ہوتی ہیں۔ چند روز قبل آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرنے سے ایک دن پہلے نواز شریف صاحب نے بھی ایک ایسی ہی بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت کی طرح میں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے قومی سلامتی کے امور کو اپنے 24/7 چینلوں کے ٹاک شوز کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس ہفتے کے آغاز سے تقریباََ ہر ٹاک شو نے بھارت کی وزارتِ داخلہ کے ایک افسر کے اس حلف نامے کا ذکر کیا جس نے یہ حقیقت ثابت کر دی کہ ممبئی میں جو واقعہ ہوا تھا اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں بھارت کے جاسوسی ادارے تھے۔ الزام مگر پاکستان کے سر تھونپ دیا گیا اور کہانی یہ بنائی گئی کہ ہمارا ایک اجمل قصاب نامی شہری تھا جو دہشت گردوں کے ایک گروہ کے ذریعے گہرے سمندروں میں کشتیاں چلاتے ممبئی جا پہنچا اور وہاں تباہی مچا دی۔ خدا کا شکر ہے کہ بالآخر رمضان کے بابرکت مہینے میں پورا سچ سامنے آ گیا اور بھارت ہی کے ایک سرکاری ملازم نے حقیقت بیان کر دی۔
مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارے اینکر پرسنوں کی اس شبانہ روز مشقت کے بعد پاکستان کی حکومت جاگ اُٹھے گی۔ وزارتِ خارجہ بھارت میں متعین ہائی کمشنر کو ہدایت دے گی کہ وہ بھارتی افسر کے دائر کردہ حلف نامے کی ایک مصدقہ نقل حاصل کرے اور اسے حاصل کرنے کے بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ جائے اور اس سے بھرپور انداز میں ممبئی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے سفیر صاحب تو بلکہ بھارت کے چیمبر آف کامرس چلے گئے اور وہاں کے سیٹھوں کو پاکستان سے کاروبار بڑھانے پرآمادہ کرتے رہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جب پاکستان آئے تو ہمارے وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ وہاں بھارتی افسر کے حلف نامے کا ذکر ایک پاکستانی صحافی نے کیا تو ولیم ہیگ نے صرف یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ وہ اپنے قیامِ پاکستان کے دوران کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے جس سے پاک بھارت تعلقات میں پہلے سے موجود مشکلات میں کوئی اضافہ ہو۔ سرتاج عزیز صاحب کے لیے یہ ایک سنہری موقعہ تھا کہ وہ برطانوی وزیر خارجہ کی موجودگی میں پوری دُنیا کو واشگاف الفاظ میں بتا دیتے کہ جب تک بھارت اپنے افسر کے دائر کردہ حلف نامے میں عیاں کیے حقائق کی وضاحت نہیں کرتا، پاکستان اس سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں کوئی ایک قدم نہیں اُٹھائے گا۔ انھوں نے یہ بات کہنے سے اجتناب برتا۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس کے ایک دن بعد جب برطانوی وزیر خارجہ ہمارے وزیر اعظم سے ملنے گئے تو نواز شریف صاحب نے انھیں بتایا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ''بیک ڈور ڈپلومیسی'' کے عمل کو بحال کر دیا ہے۔ اُمید ہے یہ بحالی پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
مسلسل کئی روز سے اپنے ملک کی ٹی وی اسکرینوں پر بھارتی افسر کے حلف نامے کے بعد سے مچائے گئے شور و غل کے بعد سرتاج عزیز اور نواز شریف کے ٹھنڈے میٹھے رویے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کو باقاعدگی سے دیکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت بھی میری طرح حیران ہوئی ہو گی۔ میں اس حیرانی کو فراموش کر دیتا۔ مگر بدقسمتی سے میں خود بھی ہفتے میں چار دن سرخی پاؤڈر لگا کر باقاعدگی سے ٹی وی اسکرین پر آتا ہوں اور چند معاملات پر پورے خلوص سے سیاپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ میرے جیسے لوگوں کی سینہ کوبی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ اپنے ''سیاپے'' کے اس بے دردی سے زیاں کے احساس نے مجھے تو اُداس کر دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ والے بڑے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں خوب علم ہوتا ہے کہ کھانے کی میز پر بہت سارا ''مایا'' لگے سفید لٹھے کے Napkin کو اُٹھا کر اپنے جسم کے بالائی حصے پر کیسے رکھا جاتا ہے۔ جب Multi-Course ڈنر ہوتے ہیں تو ہر کورس کے ساتھ پلیٹیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ آپ ہر ڈش کو صرف ایک کانٹے، چھری یا چمچ سے نہیں کھا سکتے۔ صرف وزارتِ خارجہ والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سا چمچہ یا چھری کس ڈش کے لیے استعمال کرنا ہے۔
میرے جیسے رپورٹروں کو ان نفاستوں کا ہرگز ادراک نہیں ہوتا۔ اسی لیے جب کوئی غیر ملکی سربراہ یا وزیر خارجہ کسی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا ہوتا تو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے وابستہ رپورٹروں کو وزارتِ خارجہ والے سوالات لکھ کر دیتے۔ ظاہر ہے وہ یہ سب اس لیے کرتے کہ کوئی جاہلانہ سوال کرتے ہوئے ہمارا کوئی رپورٹر مادرِ وطن کی سبکی کا باعث نہ بنے۔ مجھے پہلے سے لکھا سوال کسی نے کبھی دیا ہی نہیں۔ ایسی پریس کانفرنسوں میں سر جھکائے بس تیزی سے نوٹس لیتا رہتا۔
قومی سلامتی کے امور پر لکھنے والے پریس کانفرنسوں وغیرہ میں نہیں جاتے۔ انھیں ہمارے وزیر اعظم،وزیر خارجہ یا قومی سلامتی کے نگہبان ادارے خصوصی بریفنگوں میں بلاتے ہیں۔ وہاں ''آف دی ریکارڈ'' باتیں ہوتی ہیں۔ چند روز قبل آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرنے سے ایک دن پہلے نواز شریف صاحب نے بھی ایک ایسی ہی بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت کی طرح میں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے قومی سلامتی کے امور کو اپنے 24/7 چینلوں کے ٹاک شوز کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس ہفتے کے آغاز سے تقریباََ ہر ٹاک شو نے بھارت کی وزارتِ داخلہ کے ایک افسر کے اس حلف نامے کا ذکر کیا جس نے یہ حقیقت ثابت کر دی کہ ممبئی میں جو واقعہ ہوا تھا اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں بھارت کے جاسوسی ادارے تھے۔ الزام مگر پاکستان کے سر تھونپ دیا گیا اور کہانی یہ بنائی گئی کہ ہمارا ایک اجمل قصاب نامی شہری تھا جو دہشت گردوں کے ایک گروہ کے ذریعے گہرے سمندروں میں کشتیاں چلاتے ممبئی جا پہنچا اور وہاں تباہی مچا دی۔ خدا کا شکر ہے کہ بالآخر رمضان کے بابرکت مہینے میں پورا سچ سامنے آ گیا اور بھارت ہی کے ایک سرکاری ملازم نے حقیقت بیان کر دی۔
مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارے اینکر پرسنوں کی اس شبانہ روز مشقت کے بعد پاکستان کی حکومت جاگ اُٹھے گی۔ وزارتِ خارجہ بھارت میں متعین ہائی کمشنر کو ہدایت دے گی کہ وہ بھارتی افسر کے دائر کردہ حلف نامے کی ایک مصدقہ نقل حاصل کرے اور اسے حاصل کرنے کے بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ جائے اور اس سے بھرپور انداز میں ممبئی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے سفیر صاحب تو بلکہ بھارت کے چیمبر آف کامرس چلے گئے اور وہاں کے سیٹھوں کو پاکستان سے کاروبار بڑھانے پرآمادہ کرتے رہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جب پاکستان آئے تو ہمارے وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ وہاں بھارتی افسر کے حلف نامے کا ذکر ایک پاکستانی صحافی نے کیا تو ولیم ہیگ نے صرف یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ وہ اپنے قیامِ پاکستان کے دوران کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے جس سے پاک بھارت تعلقات میں پہلے سے موجود مشکلات میں کوئی اضافہ ہو۔ سرتاج عزیز صاحب کے لیے یہ ایک سنہری موقعہ تھا کہ وہ برطانوی وزیر خارجہ کی موجودگی میں پوری دُنیا کو واشگاف الفاظ میں بتا دیتے کہ جب تک بھارت اپنے افسر کے دائر کردہ حلف نامے میں عیاں کیے حقائق کی وضاحت نہیں کرتا، پاکستان اس سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں کوئی ایک قدم نہیں اُٹھائے گا۔ انھوں نے یہ بات کہنے سے اجتناب برتا۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس کے ایک دن بعد جب برطانوی وزیر خارجہ ہمارے وزیر اعظم سے ملنے گئے تو نواز شریف صاحب نے انھیں بتایا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ''بیک ڈور ڈپلومیسی'' کے عمل کو بحال کر دیا ہے۔ اُمید ہے یہ بحالی پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
مسلسل کئی روز سے اپنے ملک کی ٹی وی اسکرینوں پر بھارتی افسر کے حلف نامے کے بعد سے مچائے گئے شور و غل کے بعد سرتاج عزیز اور نواز شریف کے ٹھنڈے میٹھے رویے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کو باقاعدگی سے دیکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت بھی میری طرح حیران ہوئی ہو گی۔ میں اس حیرانی کو فراموش کر دیتا۔ مگر بدقسمتی سے میں خود بھی ہفتے میں چار دن سرخی پاؤڈر لگا کر باقاعدگی سے ٹی وی اسکرین پر آتا ہوں اور چند معاملات پر پورے خلوص سے سیاپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ میرے جیسے لوگوں کی سینہ کوبی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ اپنے ''سیاپے'' کے اس بے دردی سے زیاں کے احساس نے مجھے تو اُداس کر دیا ہے۔