گنوا دی ہم نے جو میراث
ان تصاویر کو دیکھ کر لاکھوں پاکستانیوں کو دکھ اور شرمندگی کا احساس ہوا ہوگا۔
MADRID:
پچھلے دو ماہ میں قومی اخبارات میں دو شخصیات کی دو تصاویر شایع ہوئیں، یہ شخصیات قائداعظم کی نواسی اور ان کے شوہر کی تھیں، پہلی تصویر جون میں زیارت میں قائداعظم کی رہائش گاہ اور عظیم قومی ورثے کو بموں اور راکٹوں سے تباہ کردینے کی دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف احتجاج کی تھی، جس میں یہ دونوں ہستیاں چند شہریوں کے ہمراہ ہاتھوں میں احتجاجی پلے کارڈ اٹھا کر واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں، دوسری تصویر 9 جولائی کو مادر ملت کی 46 ویں برسی کے موقع پر ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کی تھی، اس تصویر میں قائد کی نواسی، ان کے شوہر اور فوٹو گرافر کے علاوہ صرف تین افراد نظر آرہے تھے۔
ان تصاویر کو دیکھ کر لاکھوں پاکستانیوں کو دکھ اور شرمندگی کا احساس ہوا ہوگا۔ ملک کی دو اعلیٰ مرتبت شخصیات قائداعظم اور مادر ملت سے متعلق معاملات کے موقع پر حکمرانوں کی بے حسی، سیاستدانوں کی لاتعلقی، سماجی تنظیموں اور عوام الناس کی جانب سے لاپرواہی کا عمل انتہائی مایوس کن اور خطرناک رجحان ہے۔ جہاں قائداعظم نے مملکت خداداد پاکستان کے حصول کے لیے بیش بہا اور شبانہ روز کاوشیں کیں وہیں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ہر ہر وقت ان کے شانہ بشانہ رہیں اور قائداعظم کے انتقال کے بعد بھی نظریہ پاکستان اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرداں رہیں اور اس کے لیے ملک کے پہلے جارح اور آمر کے خلاف میدان عمل میں اتر کر سیاست کا ایک سنہری باب رقم کرگئیں۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات کے افشا پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی نیوز نے بالکل صحیح کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی یا تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس کے ذمے داروں اور اس کی غفلتوں کا تعین کرکے فرد سزا کے ذریعے آیندہ کا ڈھانچہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ اس کا مقصد کسی بھی فوری ردعمل کا رخ موڑنا ہوتا ہے جیسے کسی بھی معاملے کو سر سے ٹالنے کے لیے قومی اتفاق رائے کا کرتب یا کسی لاک اپ میں ملزم کی موت پر عوامی ردعمل اور غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے متعلقہ ایس ایچ او کی معطلی یا تبادلہ یا کچی ایف آئی آر کا درج کیا جانا ہے۔ حالانکہ کسی کمیشن نے اپنی سفارشات میں یہ قدغن نہیں لگائی کہ اس کی رپورٹ مفادعامہ میں شایع نہیں ہوسکی۔
قائداعظم ریزیڈنسی کی آتشزدگی کے سانحے کو بعض حلقے سقوط ڈھاکا کے بعد ایک بڑا قومی سانحہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ قائد کی ذات سے وابستہ اس قومی ورثے کی تباہی کو وہ اہمیت بھی نہیں دی گئی جو دوسرے چھوٹے چھوٹے سے واقعات اور سانحات کو دی جاتی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اس سانحے کو صوبائی نوعیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ارکان قومی اسمبلی کے جذبات سے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو مطلع کردیا جائے گا، اسی طرح خورشید شاہ اور ایاز سومرو نے اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر اس کی اہمیت سے ہی انکار کردیا۔
آئی جی اور چیف سیکریٹری بھی وہی واجبی و روایتی بیان بازی کر رہے ہیں کہ سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے، تحقیقات کی جارہی ہیں، مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا وغیرہ۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرکاری رہائش گاہ اور آخری ایام میں قائد کا خود اس پر فضا مقام کا انتخاب قوم کے لیے چھوڑی جانے والی سب سے بڑی آخری نشانی اور قومی ورثہ تھا جس کی عوام کے دلوں میں عقیدت و محبت تھی، اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب چند دہشت گردوں کے ہاتھوں راکھ کی جانے والی اس املاک کے اردگرد کے ہزاروں باشندے امنڈ آئے، بھرپور مظاہرہ قائد اور قائد کے نظریے سے محبت و وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے جب کہ مرکزی و صوبائی حکومت کے رہنماؤں نے سانحے کی جگہ کا دورہ کرنے تک کی زحمت گوارہ نہ کی۔
اس سانحے پر کوئی کمیشن وغیرہ بھی نہیں بنایا گیا۔ اس سانحے میں بہت سے پہلو تعجب خیز اور جواب طلب ہیں مثلاً یہ کہ اتنے بڑے تاریخی قومی ورثے پر حملے کے وقت کوئی بھی گارڈ یا اہلکار موجود نہیں تھا، علاقے میں کسی فائر بریگیڈ کی سہولت بھی موجود نہیں تھی۔ حکومتی ذرایع کے مطابق یہ دہشت گردانہ کارروائی بلوچ لبریشن آرمی نے کی اور قائد کی رہائش گاہ سے پاکستان کا جھنڈا اتار کر اپنا جھنڈا لگایا اور عمارت کو تباہ کردیا۔ حملہ آوروں کا مقصد محض قائد کی نشانی کو تباہ کرنا تھا یا ان کی سوچ اور نظریے کی نفی کا اظہار اور محب وطن عوام میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنا تھا۔ یہ واقعہ حکومت، سیکیورٹی ایجنسیز اور محب وطن عوام کے لیے کھلا چیلنج ہے۔
تخریبی و دہشت گردانہ کارروائی میں غیر ملکی سازشوں کے عمل دخل کے امکانات سب سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور حکومت نے بھی اس میں بیرونی ممالک کے خفیہ ہاتھ ملوث ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن اس میں ایک عنصر بلوچستان میں پائے جانے والے احساس محرومی کا بھی ہوسکتا ہے۔ دشمن قوتیں اس احساس کو گرمی اور حدت کے اس ماحول میں شعلہ زنی کے لیے آکسیجن کے طور پر استعمال کرنے کی بھرپور کوششیں کرنے میں لگی ہوئی ہیں جن کا مشاہدہ بلوچستان میں ہونے والے واقعات سے ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ مختلف ادوار حکومت میں بلوچستان کے لوگوں سے زیادتیاں ہوئی تھیں۔
جس کے زخم مندمل کیے جانے چاہئیں اور ان میں وقت بھی لگے گا۔ پچھلی کئی حکومتوں سے قوم کے ذہنوں سے نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کھرچ کر انھیں قائد اور علامہ اقبال سے دور اور نا آشنا کرنے کی حکومتی حکمت عملی نظریاتی دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا موجب بن رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قائداعظم کے نام سے منسوب اسلام آباد کے پوسٹ گریجویٹ کالج کو کسی اور کے نام سے منسوب نہ کیا جاتا۔ اور زیارت میں قائداعظم کی رہائش گاہ کی تباہی پر حکومت اس طرح لاتعلق و غیر فعال نہ ہوتی۔ زندہ قومیں اپنے رہنماؤں اور محسنوں کو ہمیشہ دلوں میں یاد رکھتی ہیں، ان کی تعلیم و افکار و نظریات سے استفادہ حاصل کرتی ہیں لیکن ہم سمیت ہمارے حکمرانوںنے شاید یہ طے کرلیا ہے کہ ہر محسن و محب وطن شخص کے ساتھ حکیم سعید جیسا رویہ اختیار کیا جائے، ہم نان ہیروز کو ہیروز اور ہیروز کو زیرو بنانے کی لت میں لت پت ہیں۔ اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف سے تعلق توڑنے کی بڑی کڑی سزا ہوتی ہے ۔