کون بنے گا صدر پاکستان

مثال کے طور پر جب ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان تھے تو تمام تر اختیارات صدارتی محل تک محدود تھے

S_afarooqi@yahoo.com

وطن عزیز میں رواں سال تبدیلیوں کا سال ہے جس کا آغاز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اب جو تبدیلیاں ہونا باقی ہیں وہ بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں کیونکہ ان میں صدر مملکت، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جیسی کلیدی تبدیلیاں شامل ہیں۔ ان میں پہلا نمبر صدر آصف علی زرداری کا ہے جو ستمبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگرچہ پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے جس میں صدر کی حیثیت محض علامتی ہوا کرتی ہے مگر چونکہ ہمارے یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے اس لیے یہاں اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کہ عہدہ یا منصب کیا ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اس عہدے یا منصب پر کون براجمان ہے۔

مثال کے طور پر جب ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان تھے تو تمام تر اختیارات صدارتی محل تک محدود تھے اور وطن عزیز میں طاقت اور قوت کا سرچشمہ وہیں سے پھوٹ رہا تھا۔ پھر جب انھوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالی تو تمام تر اختیارات بحیثیت وزیر اعظم ان ہی کو منتقل ہوگئے اور وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ رہے بے چارے صدر فضل الٰہی چوہدری تو ان کی حیثیت یا اوقات لنگڑی بطخ کی سی تھی۔ وہ عملاً مجبور ہی نہیں معذور بھی تھے۔ اسی لیے دیواروں پر یہ نعرے لکھے ہوئے نظر آئے کہ ''صدر فضل الٰہی چوہدری کو رہا کرو'' سچ پوچھیے تو ہمیں مرحوم کی حالت زار پر بڑا رحم آتا تھا۔

بے اختیار صدر کے علاوہ وطن عزیز نے صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق احمد لغاری جیسے رعب اور دبدبے والے صدور بھی دیکھے ہیں جنہوں نے میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جیسے وزرائے اعظم کو کرسی اقتدار سے محروم کردیا۔پس ثابت ہوا کہ پاکستان میں ڈنڈا پیر ہے یعنی جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔ تازہ ترین مثال صدر آصف علی زرداری کی ہے جنہوں نے اپنی پوری صدارتی میعاد مطلق العنان حکمراں کے طور پر گزاردی ۔ انتہا تو یہ ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور تمام تر قوت کا مرکز ایوان صدر ہی رہا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بعد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کسی بھی وزیر اعظم کی یہ مجال نہ تھی کہ صدر زرداری کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکے۔ یوں کہنے کی حد تک تو اقتدار کی باگ ڈور وزرائے اعظم کے پاس تھی مگر وزیر اعظم ہاؤس کی ڈوری ایوان صدر سے ہی ہلائی جاتی رہی۔

پارلیمانی نظام تو بھارت میں بھی رائج ہے مگر وہاں کا معاملہ ہماری طرح کا نہیں بلکہ برطانیہ کی طرح کا ہے جہاں برتری تو تاج برطانیہ کی ہے مگر عملاً تمام اختیارات وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان ہی
استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک اہم سیاسی کہاوت یہ بھی ہے کہ The King can do no wrong۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بادشاہ سلامت یا بلکہ معظم سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ عملاً کچھ کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔

بھارت کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے جہاں صدر عام حالات میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ پھر بھارت نے ایک روایت یہ بھی قائم کی ہے کہ وہاں کا صدر بالعموم کوئی اسکالر، دانش ور یا اہل علم ہوتا ہے۔ چناں چہ بھارت کے راشٹر پتی بھون میں ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹرعبدالکلام جیسے نابغہ روزگار نے قیام فرمایا اور اس اعلیٰ ترین منصب کی عزت و وقار میں اضافہ کیا۔ جب ہم اس صورت حال کا موازنہ اپنے یہاں کی صورت حال سے کرتے ہیں تو شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا ہے بہ قول شاعر:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے


بھارت کے مذکورہ تمام صدور کو بین الاقوامی برادری میں ان کی اہلیت و ناقابلیت اور ان کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ ہمارے یہاں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ ہمارے یہاں کا حال تو یہ ہے کہ ''بدنام بھی ہم ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا'' سوئس اکاؤنٹس کے معاملے کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری جو رسوائی ہوئی ہے وہ بھلا کس سے پوشیدہ ہے۔ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسی شخصیات ایوان صدر میں قدم رنجہ فرماتیں جن سے ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہوتا۔

قصہ مختصر صدر کا انتخاب 6 اگست کو کرانے کا اعلان کرایا گیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو صدارتی امیدوار کا نام پیش کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔

دریں اثناء یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے صدارتی انتخابات میں سینیٹر میاں رضاربانی کو اپنا صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر فیصلے کا باقاعدہ اعلان پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کی روشنی میں پارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے میاں رضا ربانی کے نام کی بطور صدارتی امیدوار منظوری دے دی ہے۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے صدارتی امیدوار کو میدان میں اتارنے یا نہ اتارنے کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ عمران خان کی بیرون ملک سے واپسی کے بعد کرے گی۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) صدارتی انتخاب کے حوالے سے قطعی مطمئن اور پرسکون نظر آرہی ہے۔ اسے یقین ہے کہ حزب اقتدار میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل کرسکے۔ تاہم اگر اپوزیشن کسی امیدوار پر متفق ہوجائے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف کچھ نہ کچھ مزاحمت پیدا کرسکتی ہے۔ مگر بظاہر اس بات کے امکانات بہت کم نظر آرہے ہیں کہ اپوزیشن کسی مشترکہ امیدوار کو اکھاڑے میں اتارنے پر متفق ہوجائے۔

ایک تجزیے کے مطابق اگر صدارتی انتخابات کا ٹرن آؤٹ 100 فیصد بھی ہوجائے تب بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو 388 ووٹ مل سکتے ہیں جب کہ پی پی پی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پر مشتمل اپوزیشن 300 ووٹوں کی حد عبور نہیں کرسکتی۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی فتح یقینی دکھائی دے رہی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خوش نصیب کون ہوگا جو پاکستان کا آیندہ صدارتی منصب سنبھالے گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف کی طرح اس کا تعلق بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہوگا؟ اگر ایسا ہوا تو شاید اس سے یہ منفی تاثر ابھرے کہ ملک کے دیگر صوبوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور صرف پنجاب ہی کی حکمرانی ہورہی ہے۔ دریں اثناء یہ خبر بھی ملاحظہ ہو کہ ممتاز سائنسداں اور تحریک تحفظ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ پہلے بھی قوم کی خدمت کی ہے اور اگر اب بھی وزیر اعظم نواز شریف صدارتی عہدے کی پیشکش کرکے خدمت کا موقع دیں گے تو اس کے لیے تیار ہوں۔

ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے منسوب اس غیر مصدقہ بیان یا اعلان کو پڑھ کر خوشی سے زیادہ دکھ ہوا کیونکہ خود کو عہدہ صدارت کے لیے پیش کرنا ڈاکٹر صاحب کے شایان شان نہیں ہے۔ دراصل یہ پیشکش تو پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو مشترکہ اور متفقہ طور پر ڈاکٹر صاحب کو کرنا چاہیے تھی کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا صدر پاکستان کا منصب سنبھالنا ڈاکٹر صاحب سے زیادہ پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے باعث اعزاز ہوتا۔
Load Next Story