انور احسن صدیقی کی یاد میں…
وہ عام آدمی کی مظلومیت کو اپنی کہانیوں کا مرکزی خیال بناتے تھے
LONDON:
انور احسن صدیقی کو جدا ہوئے ایک سال بیت گیا۔ وہ 1940 میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور 20 جولائی 2012 کو دنیا چھوڑ گئے۔ وہ ادیب، شاعر، کالم نگار، مترجم اور صحافی تھے۔ انور احسن صدیقی ترقی پسند نظریات کے حامل دانشور تھے۔ ان کا حافظہ حیرت انگیز حد تک اچھا تھا۔ پڑھتے بہت تھے اور جو پڑھتے وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجاتا، ان کی معلومات کا دائرہ بہت وسیع تھا، وہ مختلف ملکوں کے بارے میں بہت معلومات رکھتے تھے۔ ان کی زبان، جغرافیائی حدود، معیشت، سماجی سرگرمیوں اور سیاسی تحریکات کے بارے میں۔ ان کو لاتعداد نظمیں اور غزلیں یاد تھیں۔ اکثر گایا کرتے تھے۔ ان کی آواز بہت اچھی تھی اور اونچے نیچے سروں کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔
وہ عورتوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ لکھتے رہے اور عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی بڑی شدت کے ساتھ تنقید کرتے تھے۔ ان کی زندگی محنت اور مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی۔ انھوں نے زندگی کے آخری دنوں میں بھی قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ وہ ساری زندگی نہایت دیانتداری کے ساتھ سچ کی تلاش میں رہے اور ہمیشہ سچائی کا ساتھ دینے کے ارادے پر قائم رہے۔ اہل قلم قبیلے میں وہ ایک اصول پسند، دیانتدار اور انسان دوست ادیب کا درجہ رکھتے تھے جن کا قلم زندگی بھر سامراج دشمنی، عدم مساوات، ناانصافی، اہل اقتدار کی ستم رانیوں کے خلاف ستیزہ کار رہا۔
وہ عام آدمی کی مظلومیت کو اپنی کہانیوں کا مرکزی خیال بناتے تھے اور برصغیر کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مصائب اور مسائل پر لکھتے رہے۔ انور احسن صدیقی روزنامہ ایکسپریس کے مستقل کالم نگار تھے، حکایات خونچکاں کے مستقل عنوان سے ان کے کالم ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر شایع ہوتے رہے۔ ان کا آخری کالم ایکسپریس میں 15 جون 2012 کو ''آنے والا موسم'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ انور احسن صدیقی نے اس کالم کا اختتام کچھ یوں کیا۔ ''یہ اس ملک کا عجیب و غریب نظام ہے جس سے صرف نفرت کی جاسکتی ہے۔ اس میں انسان اور انسانیت کے لیے محبت اور لحاظ کا ذرا سا بھی پہلو موجود نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس نے صرف تاریخ عالم کی بدترین حیوانیت سے جنم لیا اور شاید ایک دن ایسا آئے گا جب یہ نظام اسی حیوانیت میں مل کر ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے گا، تاریخ عالم ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے، وہاں ایک مثال اور سہی۔''
آج جو لیاری کی صورت حال ہے اس کے بارے میں سال گزشتہ انھوں نے اپنے کالم میں کچھ یوں منظر کشی کی تھی جو 18 مئی 2012 کو ایکسپریس میں شایع ہوا۔ ''یوں تو پورا شہر ہی لاقانونیت اور قتل و غارت گری کی زد میں ہے، لیکن اس وقت سب سے زیادہ سنگین مسئلہ لیاری کا ہے جہاں صورت حال اس قدر ابتر ہوچکی تھی کہ لوگ اپنی رہائش گاہیں چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ لیاری میں رہنے والے صدیوں سے وہاں آباد ہیں، ان کے آباؤ اجداد کی ہڈیاں اس علاقے میں ہیں، ان میں سے بیشتر کا کا روٹی روزگار بھی اسی علاقے سے وابستہ ہے لیکن آج ان کے مکانات پر بم برس رہے ہیں، وہ گولیوں کی بوچھاڑ اور راکٹوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔ ان کے عزیز پیارے قتل ہورہے ہیں، ان کے شانے ان کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں، سیکڑوں ہیں کہ زخمی حالت میں پڑے ہیں۔''
انور احسن متعدد ڈائجسٹوں اور ایک ممتاز ہفتہ وار جریدے میں قسط وار کہانیاں لکھتے رہے۔ انھوں نے کینسر کے جان لیوا اور اذیت ناک لمحوں میں اپنی خود نوشت ''دل پرخوں کی اک گلابی سے'' تحریر کی۔ ان کے 8 ناول چھپ چکے ہیں، انھوں نے ''عظیم پاکستانی عبدالستار ایدھی'' کے نام سے گراں قدر کتاب لکھی، جب کہ افسانوں کا مجموعہ ''ایک خبر ایک کہانی'' کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔ وہ 70 کی دہائی میں کراچی میں روسی قونصل خانہ کے شعبہ اطلاعات کے تحت نکلنے والے خوشنما جریدے ''طلوع'' کے مدیر بھی رہے جس میں انھوں نے غیر ملکی ادب اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کی چیدہ چیدہ تخلیقات اور شاعری کے تراجم قارئین کی نذر کیے۔ صنعت و تجارت اور بینکاری سے متعلق اصلاحات کی انتہائی ضخیم اردو لغت کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا اور ان کے منفرد ترجمے، تحقیق اور تجارتی اصلاحات کی تشکیلات کے حوالے سے قائم ماہرین کے پینل میں ان کا نام شامل تھا۔
وہ رات کو بہت دیر تک کام کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ان کی طبیعت خراب ہوتی تھی تب بھی کسی نہ کسی وقت اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں جاکر بیٹھ جاتے اور جب میں کہتی کہ آپ آرام کرلیں تب کہتے یہاں بھی مجھے آرام ملتا ہے۔ وہ صرف میرے شوہر ہی نہیں تھے بلکہ ایک بہت اچھے اور مخلص دوست بھی تھے۔ ہم ہر بات میں ایک دوسرے کو شریک رکھتے تھے اور رائے لیتے تھے۔ وہ میری رائے کو ہمیشہ اہمیت دیتے تھے۔ ان کا غصہ بہت جلد ختم ہوجاتا تھا۔ جب ان کو غصہ آتا تو وہ خاموش ہوجاتے تھے۔ یہ خاموشی میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ اچھے اچھے جملے بولتے، اچھے الفاظ استعمال کرتے اور شگفتہ مذاق کرتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ تم اکیلے مت جایا کرو، میرے ساتھ چلا کرو۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو ہنس کر کہا اکیلے گھر میں مجھے بھوت ڈراتے ہیں۔ اس بات پر مجھے ہنسی آگئی، پھر خود بھی خوب ہنسے۔
ان کو پودوں کا بہت شوق تھا۔ جب ہم گھر واپس جاتے ہوئے یونیورسٹی روڈ سے گزرتے تو وہ رک کر کوئی نہ کوئی پودا ضرور خریدتے تھے، یونیورسٹی روڈ پر سائیڈ میں بڑی بڑی نرسریاں ہیں۔ پھر گھر جاکر اس پودے کو خود ہی کیاری میں یا گملے میں لگاتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ کرسی پر بیٹھ کر پودے لگا رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کیوں یہ لگا رہے ہیں، تو کہنے لگے کہ تم جب باورچی خانے میں کام کرتی ہو تب یہ کھڑکی سے بہت اچھا نظارہ دیں گے۔ کچھ دن بعد وہ پودے بڑے ہوگئے اور ان میں بہت اچھے پھول لگے تب میں نے ان کو لے جاکر دکھایا اور کہا کتنے اچھے پھول لگے ہیں۔ لیکن وہ کچھ بولے نہیں، وہ تو مجھے چھوڑ کر چلے گئے لیکن میرے لیے خوبصورت پھول چھوڑ گئے۔
(پہلی برسی پر مرحوم کی اہلیہ ریحانہ صدیقی کی خصوصی تحریر)